بجلی کی پیداواری صلاحیت میں مسلسل اضافہ کے دعوئوں کے باوجود ریاست کااس شعبے میں خود کفیل بننے کا خواب پورا نہیں ہوپارہابلکہ اس کے برعکس سپلائی کی مانگ میں دن بدن اضافہ ہوتاجارہاہے ۔خاص طور پر موسم سرما کے دوران سپلائی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے جس دوران محکمہ بجلی کے دعوئوں کی قلعی پوری طرح سے کھل جاتی ہے ۔سرما میںمعمولی سی بارش یا برفباری ہونے پر سپلائی کاٹ دی جاتی ہے جسے پھر بحال کرنے میں کئی کئی دن درکار ہوتے ہیں ۔ کشمیر کی وادی میں تو موسم سرما کے دوران بجلی کی سپلائی کا حال انتہائی بدتر ہوتا ہے لیکن جموں میں بھی سپلائی کا نظام کچھ کم ابتر نہیںہے اور پہاڑی علاقے دور کی بات کبھی کبھار سرمائی دارلحکومت میں بھی بجلی کی سپلائی بری طرح سے متاثر رہتی ہے۔ حالیہ بارش اور برفباری کے شروع ہوتے ہی صوبہ بھر میں بجلی کی سپلائی متاثر ہوئی اور حیران کن طور پر جموں خاص میں بھی بارش کے روز بجلی کی سپلائی منقطع رہی ۔اس دوران سپلائی متاثر رہنے سے سرکاری دفاترمیں کام کاج بُری طرح متاثر ہوا جبکہ تجارتی سرگرمیوں پر بھی اثر پڑا۔خطے میں جس قدر طلب کے مقابلے میں بجلی کی سپلائی کی کمی پائی جارہی ہے اسی قدر بجلی کا بنیادی ڈھانچہ بھی غیر مستحکم ہے ۔چونکہ لوگ سرما میں بجلی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں اس لئے ٹرانسفارمروں پر بوجھ پڑتاہے جس کے نتیجہ میں ٹرانسفارمر جل جاتے ہیں اورانہیں ٹھیک کرانے میں کئی کئی دن لگتے ہیں ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ خطہ پیر پنچال ،خطہ چناب اور دیگر پہاڑی علاقوںمیں مقامی سطح پر ورکشاپ بھی قائم نہیں کئے گئے اور کبھی اگر ٹرانسفارمرمیں بڑی خرابی آجائے تو اسے ٹھیک کرانے کیلئے جموں منتقل کرنے اور پھرواپس لانے میں مہینوں لگ جاتے ہیں ۔ ان علاقوں میں بجلی کا ڈھانچہ اس قدر غیر مستحکم ہے کہ معمولی سی برفباری ہونے یا ہوا چلنے سے ترسیلی لائنیں زمیں بوس ہوجاتی ہیں اور کھمبے بھی ٹوٹ جاتے ہیں ۔اسی کانتیجہ ہے کہ حالیہ خراب موسم کے دوران کئی علاقوں کی بجلی سپلائی منقطع رہی اور مقامی لوگوں کو پریشانی کاسامناکرناپڑا۔بجلی کے شعبے کے حوالے سے یہ حال اس ریاست کا ہے جو بجلی کی پیداوار میں کلیدی ریاستوں میں شامل ہے اور جس سے پیدا کی جانے والی بجلی ملک کی دوسری ریاستوںکو سپلائی کی جاتی ہے ۔چراغ تلے اندھیرا کے مصداق ریاست کے لوگ خود بجلی کے خستہ حال سپلائی نظام کے سائے میںزندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں لیکن یہاں پیدا کی جارہی سپلائی بیرون ریاست فراہم کی جارہی ہے، جس سے این ایچ پی سی کے خزانوں کے چراغ جلتے ہیں۔خطہ چناب میں بغلیار اور ڈول ہستی سمیت بجلی کے ایسے بڑے پروجیکٹ بنائے گئے ہیں جن سے حاصل ہونے والی سپلائی ان علاقوں کو چوبیس گھنٹے روشن رکھ سکتی ہے لیکن صورتحال بالکل مختلف ہے اور لوگ سردیوں کے ایام میں برقی رو کیلئے ترس جاتے ہیں ۔اس کے برعکس خطہ پیر پنچال میں بجلی نظام کو بہتر بنانے کیلئے بنایاجارہا پُرنئی پروجیکٹ دہائیوںسے زیر تعمیر ہے اور کئی بار ہدف طے کرنے کے بعد بھی اس کی تکمیل کے بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں بجلی کے ڈھانچے کو مستحکم بنایاجائے وہیں بوجھ کم کرنے کیلئے طلب کے مطابق سپلائی فراہم کی جائے یاان خطوں میں دستیاب قدرتی وسائل کوبروئے کار لاکر مزید بجلی پروجیکٹ اس شرط پر تعمیر کئے جائیں کہ ان کی بجلی مقامی لوگوں کے ہی کام آئے اور اسے این ایچ سی پی سے سود ے کا ذریعہ نہ بنایاجائے ۔