آستیں کے خنجروں کی تیر دھاروں سے کہو
مائوں کے بیٹوں کا خونِ ناروا واپس کریں
11؍اپریل کو جموں کی بار ایسوسی ایشن نے کھٹوعہ کیس کے تعلق سے ’’ جموںبند‘‘کی کال دی تھی۔ یہ ایک ناروا کوشش تھی جس کامقصد جموںخطہ کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنا تھا۔ بند کا یہ پروگرام تین امور کے گرد گھومتا تھا: (۱) ضلع کٹھوعہ کے موضع رسانہ میںایک آٹھ سالہ بکروال بچی کے وحشیانہ قتل کی پولیس کرائم برانچ تفتیش و تحقیقات کے خلاف احتجاج۔ (2) روہنگیا پناہ گزینوں کو ریاست بدر کرنے کا مطالبہ ۔ (3)گوجر بکروال بے خانماں کنبوں کو جنگلات میں جموںسے باہر نکالنے کی مانگ۔ یہ تینوںمطالبات فرقہ وارانہ نوعیت کے تھے جس سے جموں کا سماج فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم ہونے کا خطرہ اور اندیشہ تھا لیکن یہ امر باعث اطمینان ہے کہ جموںخطہ کے عوام نے اس جال میں پھنسنے سے اجتناب کیا۔ بے شک کچھ قصبوں میں جزوی طورپر دوکانیں وغیرہ بند رہی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی جموں خطہ کے عوام نے اس کوشش کو ناکام کردیاہے۔ ریاسی، راجوری، پونچھ، ڈوڈہ، کشتواڑ، رام بن کے عوام نے ا س نام نہاد بند کال میںشمولیت سے قطعی طورپر اجتناب کیا لیکن جموں شہر، سانبہ، کٹھوعہ کے قصبوں میں جزوی طورپر اس کا اثر ہوا۔ وہ بھی اس لئے کہ پتھر بازی کے خوف اور بند کے حامیوںکی طرف سے متشدد انہ حرکات کے باعث ۔ اس سلسلہ میں جموں کی چیمبر آف کامرس اوردیگر کئی تجارتی تنظیموں کا کردار قابل ستائش رہا جنہوںنے اس بند میں شمولیت سے سراسر انکار کیا۔
جموں خطہ کے عوام بحیثیت مجموعی مبار ک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم ہونے والی اس کاروائی سے گریزکیا۔ غور سے دیکھئے تو 1947ء کے درد ناک فرقہ وارانہ واقعات کے بعد بار ہاء جموں خطہ کے عوام کو فرقہ وارنہ بنیادوں پر عوام کو تقسیم کرنے کی نامراد کوششیں کی گئیں لیکن تجربات سے سبق سیکھ کر جموں خطہ کے عوام نے اِن سازشی چالوں کو ناکام کیا۔ پیشترازیں فرقہ وارانہ تقسیم کرنے کی کاروائیاں بھاجپا اور اُس کی پیش ر و جماعتیں جن سنگھ اور پرجا پریشد کرتی رہیں۔ حالیہ کوشش میں اگرچہ بھاجپا ملوث نہیں تھی لیکن اس کاروائی میںقبل ازیں بھاجپا کے کئی لیڈروں نے اس کے لئے ماحول ضرور تیار کیاتھاجس میں دو وزراء لال سنگھ اور چندر پرکاش گنگا شامل ہوئے تھے لیکن جموں خطہ کے عوام نے ہمیشہ اُنہیں ناکام کیا تھا۔ اُمید کی جاتی ہے کہ آئندہ بھی جموں خطہ کے عوام اس قسم کی مذموم کوششوں کو ناکام کرکے اپنی بالغ نظر ی کا ثبوت دیںگے۔
فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے والی اس بند میں کانگرس پارٹی اور بھیم سنگھ کی پینتھرس پارٹی کا کردار انتہائی قابل مذمت ہے جو اپنے آپ کو سیکولر جماعتیں کہلانے کی دعویدار ہیں لیکن اس فرقہ وارنہ بنیادوںپر تقسیم کرنے والی بند میں نہ صرف شامل تھیں بلکہ بڑھ چڑھ کر اس میںسرگرمی دکھائی۔بھیم سنگھ کی پینتھرس پارٹی کے متعلق کچھ کہناہی تضیع اوقات ہے کیونکہ وہ تو اپنی سیاسی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے ہرطرح کی فرقہ وارانہ اور ذات پات کی سرگرمیوں میںحصہ دار ہوتی ہے لیکن کانگریس پارٹی جو دوسروں کو فرقہ پرستی کا ہر وقت الزام لگاتی ہے، اس کی بند میں شمولیت ضرور چشم کشاہے۔ سبھی کومعلوم ہے کہ جموں کی بار ایسوسی ایشن کا صدر بلدیو سنگھ سلاتھیہ ایک مشہور کانگریسی لیڈر ہیں اور صرف کانگریسی لیڈر ہی نہیںبلکہ سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کے خصوصی چہیتے اور یارغار ہیں ۔ وہ لوک سبھا انتخابات میں غلام نبی آزاد کے الیکشن ایجنٹ بھی تھے۔ وہی اس بندکی قیادت کررہے تھے، یہ کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ جب آل انڈیا کانگرس کمیٹی کے صدر راہل گاندھی معصوم بکروال بچی کے وحشیانہ قتل کی پرزور الفاظ میں مذمت کرچکے ہیں تو یہ حضرت ایسے گھنائونے فعل کے ملزموں کی کیونکر کوئی حمایت کرسکتے ہیں؟ مقتولہ بچی کے خلاف ہوئی زیادتی انسانیت شرمسار ہے۔ مجرم سزا سے بچ نہیں سکتے۔ راہل گاندھی نے کٹھوعہ میںآٹھ سالہ بچی کے قتل کے بعد ملزموں کے حق میں مظاہروں کو انسانیت سوز قررادیا ہے اور کہا کہ ’’ اگر ایک معصوم بچی کے ساتھ ناقابل تصور درند گی پر سیاست کی جاتی ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں پہنچ چکے ہیں؟‘‘ راہل گاندھی تودہلی میں رات کے بارہ بجے قندیلیں لے کر اس وحشیانہ قتل کے خلاف مظاہرہ کررہے ہیں لیکن اُن کی پارٹی جموں میں ملزموں کو بچانے کے لئے ہوئی جموں بند میں سرگرمی سے حصہ ہی نہیں لے رہی بلکہ کانگریس پارٹی کا ہی ایک لیڈر ملزموں کو بچانے کے لئے تحریک کی قیادت کررہاہے۔ اس سے بڑھ کر مذموم فعل کیا ہوسکتاہے۔ اگر کانگریس پارٹی اس بندمیں شمولیت کرنے والے اور سرگرم کانگریسیوں کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہیںکرتی تو ظاہر ہے کہ پارٹی کے بارے میں یہی تاثر عوام میں جائے گا کہ یہ دوغلی اور بے اصولی ہے۔
روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کا مسئلہ بھی فرقہ وارانہ نوعیت کا ہے۔ یہ مسئلہ صرف جموں تک محدود نہیں بلکہ ملک گیر ہے۔ روہنگیا مسلمان اپنے وطن برما سے بھالت مجبوری ہجرت کرنے پرمجبور ہوئے ہیںاور اس وقت لاکھوںکی تعداد میں بنگلہ دیش میںپناہ گزیں ہیں۔ کچھ لوگ ہزاروںکی تعداد میں ہندوستان کے دیگر حصوں میں بھی پناہ گزیں ہوئے ہیں اور جموں میںبھی ترک مکانی کر نے والے کچھ لوگ رہائش رکھتے ہیں۔ اُن کے متعلق کیا رویہ اختیار کیاجائے؟ یہ مسئلہ سپریم کورٹ آف انڈیا میںزیرِ سماعت ہے۔ جو فیصلہ سپریم کورٹ میںہوگاوہ ہندوستان بھرمیں لاگو ہوگا اور جموں میںبھی لاگو ہوگا۔ یہ امر بند کال دینے والے وکلاء حضرات پر بھی واضح ہے لیکن اس کے باوجود سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کئے بغیر جموں سے اُن کے انخلاء کا مطالبہ فرقہ وارانہ نوعیت کا ہے۔ جموںمیں کئی غیر ممالک کے باشندے قیام پذیر ہیں۔ الگ تھلگ رہنے والے بے یارو مددگار غریب روہنگیا مسلمانوں کے انخلاء کا مطالبہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کئے بغیر خالی از علت نہیں او ر یہ محض فرقہ وارنہ صف بندی کی غمازی کرتاہے۔
اسی طرح بکروال کنبوں کی جنگلات سے جبری بے دخلی کا مطالبہ بھی نتہائی غیر موزوں ہے۔ جنگلات کی اراضیات پر بکروالوں کے بغیر دیگر مذاہب اور قبائل کے لوگ بھی قابض ہیں۔ اگر جنگلات کی اراضیات سے بے دخلی مقصود ہے تو اُن سب لوگوں کی بے دخلی کی جانی چاہیے جوجنگلات کی اراضیات پر قابض ہیں۔ فقط بکروالوں کو چن چن کر نشانہ بیانا فرقہ وارانہ رنگت کو ظاہر کرناہے۔ اگر جنگلات میں کسی مستقل رہائش کی مکانیت کی ہے تو وہ ضرور قابل اعتراض ہے لیکن زیادہ تر بکروال کنبے تو بے خانماں ہوتے ہیں۔ وہ گرمیوںمیں کشمیر کے پہاڑوں میںچلے جاتے ہیں اور خیمے لگا کر جنگلوں میں رہتے ہیں اور سردیوںمیں جموںمیں آکر جموں میں اپنا گذر بسر کرتے ہیں۔اگر کسی نے جنگلات کی اراضیات پر پختہ مکانیت اختیارکی ہے تو اُس کادیگر لوگوںکی طرح بے دخل کرنا تو بے شک قابل فہم ہے لیکن ایسے بکروالوں کو جو سر چھپانے کے لئے سردیوںمیں جموں اور گرمیوںمیں کشمیر کے پہاڑوں اور جنگلوں میں خیمے اور کُلے ڈال کرعارضی رہائش اختیار کرتے ہیں،ا ن کو روکنا کہاں کا انصاف اور عقل مندی ہے ؟ یہ سلسلہ صدیوں سے رائج چلا آرہاہے۔ اُن کے لئے خیمے اور کلے ڈالنے کے لئے متبادل انتظام کئے بغیر بے دخل کرنے کامطالبہ سر اسر غیر واجب اور شرارت آمیز حرکت ہے اور اُس کی نوعیت بھی سر تاسر فرقہ وارانہ ہے۔
اِس وقت خطہ کشمیر میں حالات انتہائی ناسازگار اور فضا مکدر ہیں۔ ہر روز گولی باری اورپتھر بازی جاری ہے جس میںعام لوگ ہلاک اور زخمی ہورہے ہیں اور سیکورٹی فورسز کے جوان بھی۔ اُس وقت محب وطن عناصر کا فرض ہے کہ کشمیر مسئلہ حل کرانے کے لئے مذاکرات کی حامی بھر لیں تاکہ اس ذریعے قتل وخون بند ہواور آر پار دوستی ومفاہمت کی ڈور میں بندھ جائیںنہ کہ ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے شکوک وشبہات اور بدامنی کی فضاء پیدا ہو یا مزید کشت وخون کی آگ پھیلے۔ جموں بار ایسوسی ایشن کی طرف سے نا معقول اور فرقہ وارانہ صف بندی کرنے والی بند کال کشمیر میں حالات کو مزید خراب کرنے کاموجب بن سکتی ہے۔ اِس لئے ہر محب وطن اور باشعور شہری کافرض ہے کہ فرقہ وارانہ قسم کے بندوں کی کوششوں کو ناکام بنائے جیسا کہ حالیہ جموں بند کے ساتھ ہوا۔ بار ایسوسی ایشن نے یہ اقدام کر کے نہ صرف جموںخطہ میں فرقہ وارانہ کشیدتی پیدا کرنے کی افسوس ناک کوشش کی بلکہ جموں اور کشمیر کے درمیان کو اختلافات اور تضادات کو بھی تقویت دی ہے جوکہ ہر لحاظ سے ریاست کی یکجہتی اور سا لمیت کے لئے سم قاتل ہے۔ ان نازک وقتوں میں ایسی مثبت کوششیں کی جائیں اور ایسی تدابیر اختیار کی جائیں جن سے نہ صرف جموں خطے میں فرقہ وارانہ اتحاد مضبوط ہو اور فرقہ وارانہ یگانگت پیدا ہو بلکہ جموںوکشمیر میںپائی جانے والی کدورتوں اورنفرتوں کا بھی انسداد ہوسکے اور جموںوکشمیر کے عوام بھائی چارے کے جذبے کے ساتھ مل جل کر درپیش سیاسی مسائل کا کوئیی متفقہ اور منصفانہ حل نکال سکیں۔ جموں خطہ کے بہت سے ایسے عوامی مسائل ایسے ہیں جو حل طلب ہیں۔ان میں بے کاری،بے روزگاری ، مہنگائی، رشوت ستانی، بھرشٹاچار، سرکار کی بدعنوانیاں، بے انصافیاں، کسانوں، مزدوروں کے جملہ مسائل، تعمیر وترقی کی سست رفتاری وغیرہم ، ان پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ان پر احتجاجی تحریکات منظم کرنے کی حاجت ہے تاکہ جموں خطہ کے عوام متحد اور منظم ہوکر ترقی اور خوش حالی کی منزلیں اکھٹے طے کر سکیں، کشمیر ی عوام کے ساتھ بھی کندھے سے کندھا ملا کر اُن کا دکھ درد بانٹیں اور مشترکہ طور اپنے سیاسی اور معاشی مسائل کا حقیقت پسندانہ حل تلاش کرسکٰں۔ اس وجہ سے اُس قسم کے تنازعات کو ہو ادینا جو جموں کی فرقہ وارانہ یک جہتی اور اتحاد کو بھی پارہ پارہ کردیں اور جموں اور کشمیر کے درمیان بھی بدگمانیاں اور دوریاں پیدا کرنے کا موجب بنیں، پر ہیز کرنا شرط اول ہے ۔ بہر کیف ہمیں دلی مسرت ہے کہ ملک کی سیاسی پارٹیوں ، سیاسی لیڈروں ، دانشوروں ، میڈیا اور ہرطبقۂ خیال کے لوگوں نے کھٹوعہ کی آٹھ سالہ بکروال بچی کی بے حرمتی اور وحشیانہ قتل کے خلاف زبردست احتجاج کرکے مجرموں کو عبرت ناک سزادینے کا مطالبہ کیاہے اور افسوس ہے کہ جموں کے چند مخصوص افراد اس اندوہناک واقعہ کے ملزموں کی حمایت کرکے نہ صرف جموں کے فرقہ وارانہ بھائی چارہ کو پاش پاش کرنے کامنصوبے کو ہوادے رہے ہیں بلکہ جموں اور کشمیر کے درمیان تعلقات میں کشیدگی لاکر ملک کی یکجہتی کو بھی بٹہ لگانے کے درپے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ جموں کے باشعور لوگوں نے ان عناصر کے منہ پر گہری چپت لگائی اور اُن کی مکردہ چالوں کوناکام بنایاہے۔ یہ امر مزید قابل ستائش ہے کہ ریاستی اور قومی رائے عامہ کے دبائو میں دو بھاجپا وزراء جو ملزمان کی کھلی حمایت کررہے تھے، کواستعفی دینے پر مجبور ہونا پڑاہے۔اس موقعہ پر ایک بارپھر جموں کے عوام سے اپیل ہے کہ وہ جموں خطہ کی فرقہ وارانہ یکجہتی کوتوڑنے اور جموںوکشمیر کے درمیان تعلقات کو کشیدہ کرنے کی تمام سازشوں اور چال بازیوں کو آئندہ بھی ناکام کرنے کی کمر ہمت باندلیںگے۔ اس سلسلہ میں ہمیں محتاط رہنے کی اشد ضرورت محسوس کر نی چاہیے اور عوام کو تقسیم کرنے والے فتنہ باز عناصر سے باخبر رہنا چاہیے ؎
ابلیس کی چالوں سے اب ہوگئے سب واقف
اب ہوں گی الم نشرح ملعون کی سب لغاتیں