پچھلے چند برسوں سے جموں میں پنپ رہی فرقہ پرستانہ سوچ اپنا اثر دکھانے لگی ہے ۔اب ایسے معاملات پر بھی ہڑتالیں اور بند کی کالیں دی جارہی ہیں جو حقیقی معنوں میں انسانی نوعیت کے ہیں اور جن کے ساتھ انسانی ہمدردی کے طور پر ہی نمٹاجاسکتاہے ۔ایک مخصوص سوچ کے حامل افرادپچھلے کئی دنوںسے روہنگیائی مسلمانوں کو جموں بدر کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں جنہوںنے اب اپنے مطالبات میںآصفہ قتل کیس کی سی بی آئی انکوائری اور جموں کے ساتھ امتیاز کے نعرے بھی شامل کرلئے ہیں ۔ایسے معاملات پر ہڑتالوں اور بند سے کام کاج تو متاثر ہو ہی رہاہے لیکن سماج میں ایک ایسی تفریق جنم لینے لگی ہے جو بھائی چارے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے کافی خطرناک کہی جاسکتی ہے ۔ ایسی بھی بےبنیاد باتیں کہی جارہی ہیںکہ جموں میں آبادیاتی تناسب تبدیل کیاجارہاہے، جس پر خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کی بار تنظیموں اور سینئر وکلاء نے شدید ردعمل کا اظہار کیاہے۔ہر دوخطوں کی بار تنظیموں نے جموں بار ایسو سی ایشن کی ہڑ تال کی کال پر بھی سوالات اٹھائے ہیں کہ کیوں اس مہم کا نشانہ صرف روہنگیائی مسلمان ہی ہیں جبکہ جموں میں آباد غیر ملکیوں کی تعداد تو لاکھوں میں ہے،اور اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ ان میں مغربی پاکستانی مہاجرین،جو تقسیم ہند کے وقت یہاں منتقل ہوگئے، بھی ہیں ، تبتی باشندے بھی اور یہاں تک کہ نیپال سے تعلق رکھنے والے باشندگان بھی بڑی تعداد میں شامل ہے ۔ علاوہ ازیں ایک بڑی آبادی کا تعلق بیرونی ریاستوں سے ہے، جنہوں نے فراڑ سٹیٹ سبجیکٹ اسناد بنا کر یہاں جائیداد خریدی ہیں۔یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ ہے کہ روہنگیائی مسلمان اپنے ملک مینمار میں ظالمحکومت کے ستائے ہوئے ہیں جو جان بچاکر وہاںسے بھاگ آئے اور کوئی کہیں دربدر ہے تو کوئی کہیں ۔ تاہم یہ سب لوگ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی اجازت سے یہاں رہ رہے ہیں اور انہیں حکومت ہند کی طرف سے بھی اجازت حاصل ہے ۔اگر مغربی پاکستانی مہاجرین کیلئے مکمل شہری حقوق کے مطالبات کی حمایت کی جاسکتی ہے توپھر روہنگیاکو انسانی بنیادوں پر تب تک کیوں جموں میںنہیں ٹھہرایاجاسکتاجب تک کہ ان کے اپنے ملک میانمار میں حالات ٹھیک ہوجاتے ہیں۔واضح رہے کہ روہنگیاکے خلاف جموں نشین سیاسی جماعتیں ، بیوپار منڈل ،مخصوص نظریہ کے حامل ذرائع ابلاغ کے ادارے اور انتہاپسند تنظیمیں کافی عرصہ سے مہم چلارہی ہیںاور اس مہم میں مزید کئی معاملات بھی شامل کرلئے گئے ہیں جن میںسب سے اہم معاملہ 8سالہ معصوم بچی آصفہ کی آبروریزی اور قتل کیس کی تحقیقات سی بی آئی کے سپرد کرنے کا مطالبہ بھی شامل ہے، جو اصل میں اس تحقیقاتی عمل پر اثرانداز ہوکر مجرموں کو بچانے کا حربہ ہی کہاجاسکتاہے نہیں تو ریاستی پولیس کی تحقیقات پر کسی کوکوئی اعتراض نہیںہوناچاہئے تھا۔ ساتھ ہی جموں کے ساتھ امتیاز کا رونا بھی رویاجارہاہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی کے ساتھ سب سے زیادہ امتیاز ہواہے اور کسی کا سب سے زیادہ حق چھیناگیاہے تو وہ خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب ہیں، جہاں اکیسویں صدی کے اس دور میں بھی لوگوں کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں ہیں۔یہ الزام تراشیاں کرنا آسان ہے کہ جموں میں آبادیاتی تناسب تبدیل ہورہاہے لیکن اس کا جواب کون دے گاکہ ریاست کے دیگر خطوں سے جموں علاقہ میں منتقل ہونے والے لوگ کیوں اپنے اپنے علاقے چھوڑ کر آئے ہیں ۔ریاست کے باشندے ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں منتقل ہوں تو یہ اُنکا آئینی اور قانونی حق بنتا ہے، جسکو فرقہ پرستی کی بنیاد بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کے لوگوں کو بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کے بہ سبب جموں منتقل ہونا پڑتا ہے۔ اب اگر غیر ملکیوں کی آڑلیکر انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ بجائے خود ایک مجرمانہ فعل ہے، جس کےخلاف حکومت کو کاروائی کرنی چاہئے، کیونکہ جموں میں یہ شدت پسندانہ مہم شروع کرنے والوں کو اگر یونہی جانے دیا جائے تو اسکے سنگین نتائج برآمد ہونے کا اندیشہ ہے۔ ریاستی حکومت کو اس صورتحال کو صحیح تناظر میں جانچ کر مفاد پرستی کی حامل اس سیاست کا توڑ کرنے میں پہلی کرنی چاہئے، خاص کر ایسی صورت میں جب حکمران اتحادی جماعت سے تعلق رکھنے والے کئی لیڈروں کی طرف سے ان عناصر کو کہیں پوشیدہ طور تو کہیں کھلم کھلا حمایت میسر ہو رہی ہے۔