عربی اور فارسی قدیم ترین اور مشرق وسطیٰ کے علاوہ دنیا کے کئی حصوں میں بولی جانے والی زبانیں ہیں جن کی ترویج و اشاعت برصغیر میں بھی ہر دور میں ہوتی رہی ہے تاہم صوبہ جموں میں ان دونوں زبانوں کے فروغ کے راستے بند کئے جارہے ہیں ۔اگرچہ سکول اور کالج کی سطح پر صوبہ میں ابھی بھی عربی اور فارسی کا چلن کم و بیش موجود ہے اورنہ صرف ان میں درس و تدریس کیلئے اساتذہ تعینات ہیں بلکہ طلباء کی بہت بڑی تعداد بھی ان زبانوں میںتعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھتی ہے لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ کالج کے بعد ان کیلئے ایم اے ، ایم فل اورڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کرنے کے صوبائی سطح پر مواقع بہت ہی کم ہیں۔حالانکہ کئی عرصہ سے طلباء اور سماج کے دیگر حلقوں کی طرف سے اس بات کا مطالبہ کیاجارہاہے کہ جموں یونیورسٹی میں فارسی اور عربی کے شعبوں کا قیام عمل میں لایاجائے تاکہ طلباء کو حصول تعلیم کے لئے بیرون ریاست جانے کےلئے مجبور نہ ہوناپڑے بلکہ انہیں صوبائی سطح پر ہی ان شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ مل سکے لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان نظرآرہاہے ۔بے شک کشمیر یونیورسٹی میں یہ دونوں شعبے قائم ہیں اور راجوری کی باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی میں بھی شعبہ عربی کا قیام عمل میں لایاگیاہے مگر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کی داخلہ اور دیگر فیس کافی زیادہ ہے اور کشمیریونیورسٹی میں نشستیں بہت کم اور ان شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کے متمنی طلباء کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور نتیجہ کے طور پر صرف جموں سے ہی نہیں بلکہ کشمیر صوبہ سے بھی سینکڑوں طلباء کو بیرون ریاست کی یونیورسٹیوں کا رخ کرناپڑتاہےاور طلبہ کی ایک اچھی خاصی تعداد مالی مشکلات کی وجہ سے ا س کے قابل نہیں ہوتی۔ یہ دونوں زبانیںآج کے عالمی منظر نامے میں روزگار کے حوالے سے بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں اور جموں وکشمیر سے روزگار کی تلاش میں مشرق وسطیٰ جانے والے افراد کو ابتداء میں سب سے بڑی پریشانی زبانوںسے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے درپیش آتی ہے اور جو بھی اُس خطے میں اپنے روزگار کو وسعت دیناچاہتاہے ،اس کیلئے ان زبانوں کاجاننا لازم بن جاتاہے ۔اس وقت بھی ہزاروں کی تعداد میں ہنر مندو نیم ہنر مند نوجوان روزگار کے سلسلے میں مشرق وسطیٰ میں ہیں جبکہ نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو حصول تعلیم کیلئے اس خطے میں موجود ہے ۔یونیورسٹیوں میں فارسی اور عربی کے شعبوں کے قیام سے سب سے بڑا فائدہ روزگار کے اعتبار سے ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ طلباء کو مقامی سطح پر ہی تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ مل سکے گا۔اگربیرون ریاست کی یونیورسٹیوں میں یہ شعبے کامیابی کے ساتھ قائم ہیںتوپھر ریاست کی بعض یونیورسٹیوںمیں ان کا قیام عمل میں کیوں نہیں لایاجارہا جبکہ اس کی مانگ بھی ہے اور طلب بھی ۔ریاست میں بڑھ رہی بیروزگار ی کے اس عالم میں طلباءکو آگے بڑھنے کیلئے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور اس کےلئے ہر امکان کا احاطہ کیا جانا چاہیئے۔ جموں یونیورسٹی میں عربی اور فارسی کے شعبے قائم کرنے سے نہ صرف ان زبانوں کے توسط سے روزگار کے متلاشی نوجوانوں کےلئے روزگار فراہم کے امکانات میں اضافہ ہوگا بلکہ ان زبانوں سے وابستہ ہماری تاریخ اور دور جدید کے عالمی منظر نامے میں اہمیت کے حامل روابطہ کو مضبوط کرنے کے مواقع میسرآئینگے۔ ایسے وقت میں جب کہ ریاستی حکومت مقامی زبانوں کو تعلیمی نصاب میں شامل کرکے انہیں فروغ دینے کےلئے زبردست کوشاں ہے اُسے ، عربی ، فارسی اور ان جیسی اہمیت والی دیگر بین الاقوامی زبانوں کو بھی فروغ دینے کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرکے عملی سطح پر اقدامات کرنے چاہیں۔