تصورات اور طریقوں کی انسانی تفہیم ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔جوں جوں ہم تجربہ حاصل کرتے ہیں اور مزید معلومات جمع ہوتی ہیں،ویسے ہی ہم سوچنے ، سمجھنے اور عمل کرنے کے اپنے طریقے کو بہتر بناتے ہیں۔دراصل تبدیلی قانون فطرت ہے اور انسان میں بدلتے حالات کے مطابق سوچ اور عمل میں تبدیلی کا وقوع پذیر ہونا بالکل ایک فطری عمل ہے ۔سیاست اور حکومتوں جیسے تصورات کے ساتھ بھی برسوں سے یہی ہوتا آیا ہے۔ ا ن تصورات پر نئی عکاسی کے نتیجے میں حکمرانی اور سیاست کے مجموعی طرز عمل میں نئے طریقے سامنے آئے ہیں۔ ایک وقت تھا جب نظریات اور تاریخی تعصبات حکمرانوں کی پالیسیوں کو تشکیل دیتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ یہ انسانی ترقی و فروغ کے دن ہیں اور اب منطق کی بنیاد پر پالیسیاں تشکیل پاتی ہیں کیونکہ انسان کے سوچنے کی وسعت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور سوچ کے نئے دریچے کھل چکے ہیں۔اب اس بات پر زور دیا جارہاہے کہ ایک حکومت لوگوں کو کتنی آسانی دے سکتی ہے اور کوئی ملک سائنس ، ٹیکنالوجی اور علم کے دیگر شعبوں میں کتنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو ایک ریاست اور حکومت کو طاقت دیتی ہے جو اس کے معاملات کو سنبھالتی ہے۔اب حکومتوں کی ترجیحات بدل چکی ہیں اور اب حکومتیں حاکمیت کے تصور سے نکل کر خدمت گاری کے تصور پر عمل پیرا ہونے کی جستجو میں ہیںاور اب ساری توجہ انسانی فلاح وبہبود پر ہوتی ہے ۔ یہاں جموں و کشمیر میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح ترقی پر زور دیا جاتا ہے اور حکومت جموں و کشمیر کی ایک ترقی یافتہ یونٹ کے طور پر تشہیر کے لیے انفراسٹرکچر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اس طرح کی ذہنیت مضبوط ہو اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے اور عوامی خدمات کو موثر بنانے پر توجہ مرکوز ہوکیونکہ اس طرح کی سوچ دور رس نتائج کی حامل ہوسکتی ہے اور اس کے ثمرات یقینی طور پر زمینی سطح پر عوام کو ملیںگے کیونکہ جتنا تعمیر و ترقی کا دور دورہ ہوگا ،اُتنا ہی عوام کے مشکلات میں کمی واقع ہوگی اور پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب جموںوکشمیر ایک خوشحال خطہ کہلایاجاسکتا ہے۔تاہم ڈیولپمنٹ کا یہ ماڈل قائم کرنا اتنا آسان بھی نہیںہے ۔جموںوکشمیر کو ڈیولپمنٹ ماڈل کے طور ملکی سطح پر پیش کرنے کیلئے کچھ چیزوںکا خاص خیال رکھنا ضروری ہے ۔پہلی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ نگرانی کا نظام مستحکم کیا جائے ۔ورک کلچر کو فروغ دیاجائے ۔جواب دہی کا عنصر قائم کیاجائے ۔شفافیت پر کوئی سمجھوتہ نہ کیاجائے اور طوالت پسندی سے چھٹکارا پاکر تمام کاموںکو معیاد بند مدت میں مکمل کیاجائے۔زیر عمل کاموں کی جتنی بہتر نگرانی ہوگی ،اُتنا ہی اُن کاموں کا معیار بہتر ہوگا اور جو کام مکمل کئے جاچکے ہیں ،اُن کی باقاعدہ تشخیص اور نگرانی انہیں دیرپا بنانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ورک کلچر قائم کرنے سے کام وقت پر مکمل ہونگے اور شفافیت سے رشوت خوری کا کلچر ختم ہوچکا ہے اور اس کے نتیجہ ترقیاتی کاموں کا معیار خود بخود انتہائی بلند ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ مستقبل کے تقاضوں کے لئے ایک اعلی درجے کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔اس کے علاوہ جس چیز کی اشد ضرورت ہوتی ہے،وہ اُن لوگوںکی مسلسل صلاحیت سازی ہے جو حکمرانی کے مختلف ادارے چلارہے ہیںکیونکہ جتنا حکمرانی کا ڈھانچہ چلانے والے افراد کی صلاحیتوں میں نکھار آجائے گا ،اُتنا ہی اُن کی خدمات میں بہتری آئے گی اور نتیجہ کے طور ترقی کا ماڈل خود بخود بہتر بنے گا۔یہ سب چیزیں جب ہوجائیں گی تو ا سکے بعد ہمیں حکمرانی کے عمل میں لوگوں کی تعمیری شرکت کو یقینی بنانا ہوگا کیونکہ عوام کے تعاون کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں ہے اور جب حکمرانی کے نظام سے پیوستہ ہونگے تو یقینی طور پر لوگ ترقیاتی ماڈل کو کامیابی سے ہمکنار کرائیں گے اور اس کے ثمرات سب کو مل جائیں گے ۔