سٹیٹ سبجیکٹ
حسیب اے درابو
جموں و کشمیر میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 32فیصد ہے۔ حکومت ہند کی طرف سے حال ہی میں جاری کردہ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کا پس منظر سمجھنے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ مہاراشٹر میں بے روزگاری کی شرح 3.2 فیصد ہےجوجموں و کشمیر کی بے روزگاری کی شرح کا دسواں حصہ ہے۔
ان اعداد و شمار کا مطلب یہ ہے کہ 15سے 29سال کی عمر کے ہر تین میں سے ایک نوجوان بے روزگار ہے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ صنفی تعصب نمایاںہے اور عنفوان شباب میں ہردو میں سے ایک لڑکی بے روزگارہے۔
بے روزگاری کی یہ بے مثال شرح جب دوسرے معاشی اشاریوں جیسے افراط زر اور پیداوار میں اضافے کے ساتھ جوڑ ی جاتی ہے تو ایک پریشان کن منظر پیش کرتی ہے۔ اب کافی عرصے سے، جموں و کشمیر میں افراط زر کی شرح 5.5فیصد کی بلندی پر برقرار ہے، لیکن فی کس آمدنی میں اضافہ قومی گراوٹ میں جموں و کشمیر کے حصہ سے کافی نیچے ہے۔
پیداوار میں جموداور روزگار میں سست روی کا یہ امتزاج آرٹیکل 370کی منسوخی کے ترقیاتی ڈیویڈنڈ کے بھارتیہ جنتا پارٹی کے بیانیے کا منہ چڑاتا ہے۔پالیسی مخمصہ سرمایہ کاری کے ان بھاری اعدادوشمار ،جسے یوٹی انتظامیہ جمود کی صورتحال سے تشہیر کرتی ہے،میں تفہیم پیدا کرنا ہے۔ اعداد و شمار اور حکمت عملی کے لحاظ سے اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے، اعداد و شمار:۔
جموں و کشمیر کی کل لیبر فورس، وہ افراد جو یا تو کام کر رہے ہیں یا کام کرنے کے خواہشمند ہیں اور سرگرمی سے کام کی تلاش میں ہیں، کا تخمینہ 41لاکھ ہے۔ اس طرح سالانہ بے ترتیب اور پینل نمونے کے سروے کی بنیاد پر 32فیصد بے روزگاری کی شرح کا مطلب ہے کہ ریاست میں 13 لاکھ بے روزگار ہیں۔ 5سے6افراد پر مشتمل اوسط خاندان کے ساتھ، یہ جموں و کشمیر میں تقریباً ڈھائی لاکھ خاندانوں کا مسئلہ ہے۔ اس طرح، مسئلہ کی شدت بڑی ہے چاہے اسےانفرادی، خاندانی، سماجی اور اقتصادی تناظرسے دیکھاجائے۔ ان کے علاوہ بے روزگاری بھی ایک میکرو اکنامک مسئلہ ہے کیونکہ دستیاب انسانی وسائل کو استعمال میں نہیں لایا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں عوام کی قوت خرید کمزور ہو رہی ہے۔ اسی صلاحیت کو لوگوں کے لئے آمدنی پیدا کرنے کی خاطر مثبت اور نتیجہ خیز استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
فوری ریڈی میدحل، جس کا تمام منشوروں میں وعدہ کیا گیا ہے اور ہر کسی کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے، وہ بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے سرکاری اسامیوں کو پُر کرنا ہے۔ کسی بھی دن ریاستی حکومت میں اسامیاں ایک لاکھ اور اس سے زیادہ رہی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ایسا کیا جاتا ہے، تو یہ 10فیصد سے بھی کم مسئلہ کو حل کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی حالت کیلئے پٹی تجویز کرنے جیسا ہے جس میں سرجری کی ضرورت ہو۔
اس کے علاوہ، 1.5کروڑ کی کل آبادی کے ساتھ جموں و کشمیر میں پہلے ہی 5لاکھ افراد کو ملازمت دی گئی ہے۔ 5.6کے اوسط گھریلو سائز کو دیکھتے ہوئے، اس کا مطلب ہے کہ ہر خاندان کا ایک فرد ریاستی حکومت کیلئے کام کرتا ہے۔ اس تعداد کو تقابل میں رکھنے کیلئے13 کروڑسے زائد کی آبادی والے بہار ،جس کی آبادی جموں و کشمیر سے تقریباً دس گنازیادہ ہے ،میں ملازمین کی تعداد جموں و کشمیر سے کم ہے اور بہار بہت اچھی طرح سے منظم کی جانے والی ریاست بھی نہیں ہے!
تشخیصی ہونے کے بغیر نسخہ اختیار کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بے روزگاری کی وجوہات کا تجزیہ کیا جانا چاہئے۔ کوئی بھی لوگوں کو نوکری دینے کی خاطر ملازمت نہیں دیتا۔انہیں اس لئے ملازمت دی جاتی ہے کہ وہ پیداواری یا سودمند بنیں اورکارِ سرکار چلائیں،وہ آئوٹ پٹ دیں اور آمدن پیداکریں۔اس طرح، روزگار پیداوار میں اضافے کا اخذ کردہ متغیر ہے۔ جموں و کشمیر میں روزگار کا مسئلہ، ریاست کی مجموعی گھریلو پیداوار میں سست ترقی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ میکرو اکنامک ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ جموں و کشمیر کی اوسط شرح نمو 2014-2018کے دوران تقریباً 11فیصد سے گھٹ کر 2019سے 2024تک تقریباً 6.5فیصد رہ گئی ہے۔
پالیسی کی سطح پر، ترقی کی حکمت عملی، اگر کوئی بھی تھی تو، اس کی جگہ ترقی کی سیاسی معیشت نے لے لی ہے۔ جموں و کشمیر کی معیشت ساختی – سماجی اور شعبہ جاتی – تخفیف کی تمام خصوصیات کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ غیر مساوی شعبہ جاتی ترقی ہوئی ہے اور کشمیر میں پیداوار اور کھپت کے شعبوں کے درمیان کوئی ہم آہنگی نہیںہے۔ معیشت کے وسائل اور مقامی سٹیک ہولڈر موجودہ اقتصادی حکمت عملی کے مرکز میں نہیں ہیں۔ شاید ساٹھ کی دہائی کے وسط سے یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے۔ ساختی تنزلی کشمیر کی معیشت کی اضافی لیبر فورس کو جذب کرنے کی صلاحیت کو محدود کرتی ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف اعلیٰ بے روزگاری ہوتی ہے بلکہ دائمی کم روزگاری بھی ہوتی ہے۔
کارپوریٹ سرمایہ کو کشمیر میں لانے، صنعتی اسٹیٹس قائم کرنے، فزیکل اثاثے بنانے کی کوشش کی گئی ناکام حکمت عملی دو وجوہات کی بناء پر اندرونی طور پر ناقص ہے۔ یہ معیشت کے بنیادی ڈھانچے میں فٹ نہیں ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ و ہاںنہیں ہے جہاں دنیا جا رہی ہے۔ آج کی معاشی ترقی اور کاروباری خوشحالی کے محرکات جسمانی اثاثے نہیں بلکہ علم کی مصنوعات ہیں۔ فن ٹیک یعنی مالیاتی ٹیکنالوجی اورریگ ٹیک یعینی ریگولیٹری ٹیکنالوجی کے دور میں، کشمیر کی اقتصادی پالیسی اب بھی مینوفیکچرنگ کارپوریٹس اور پرانی معیشت کے صنعتی اثاثوں پر زوردے رہی ہے۔
وادی کی معیشت بنیادی طور پر دیہی ہے جس میں مساوی زندگی گزارنے والا زرعی شعبہ، ایک متحرک تجارتی فارم معیشت اورمتنوع کاریگری سیکٹر ہےجن میں سے آخری دو برآمد پر مبنی ہیں۔ پیداوار کا ایک بڑا حصہ مقامی معیشت سے باہر استعمال ہوتا ہے اور کھپت کا ایک بڑا حصہ مقامی معیشت کے باہر سے درآمد کیا جاتا ہے۔ یہ معیشت میں پیداوار اور روزگار میں اضافہ کی صلاحیت کو کم کرتا ہے۔
کشمیر کی معیشت کے ڈھانچے اور علمی معیشت کی عالمی نموکو دیکھتے ہوئے اثاثے مہارت جیسے اہم نہیں ہیںاور وادی انکی بہتات ہے۔ یہ غیر معمولی ہنر مند دستکاری پر مبنی معیشت ہے۔ دستکاری معیشت ایک ہنر اور علمی کاروبار ہے جو بہت کم ٹیکنالوجی اورسرمایہ استعمال کرتی ہے۔ اس میں شہری اجتماعات ہیں جو دیہی کاریگروں کے ساتھ مل کر سیاحت سے متعلق مقامی خوردہ تجارت اور وادی سے ملکی اور بین الاقوامی برآمدات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اسی طرح تجارتی فارم کی معیشت بھی ہے جو اب ٹیکنالوجی پر مبنی کچھ تبدیلی کا رجحان دیکھ رہی ہے۔
پالیسی توجہ ایک اورسی ایم ایمپلائمنٹ سکیم کی شکل میں بے روزگاری پر نہیں ہونی چاہیے۔بے روزگاری کی وجہ ناکارہ انتظامی نظام نہیں بلکہ منتشر معیشت ہے۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ مقامی معیشت کے وسائل کے وقفوں اور مہارت کے پروفائل کے مطابق ترقی کو فروغ دینے اور میکرو اکنامک آؤٹ پٹ کو بڑھانے کی حکمت عملی ہے۔ دوسری طرف دیکھنے کی بجائے باقی ملک کو کشمیر کی پیداوار کے لئے ایک بہت بڑی منڈی کے طور پر سمجھا جانا چاہئے۔
مثال کے طور پر، چند سال پہلے گھریلو اداروں کے ایک اقتصادی سروے میں دستکاری اور تجارت کے شعبے میں 7لاکھ گھریلو کاروباری اداروں کا تخمینہ لگایا گیا تھا جس میں 14لاکھ افراد کو روزگار ملا تھا۔ بنیادی طور پر، فی کارخانہ میںاوسطاً دو افراد۔ معمولی ڈیزائن، مارکیٹنگ اور مالیاتی مداخلت کے ساتھ، روزگار کو آسانی سے دوگنا کیا جا سکتا ہے۔ یہ صرف اکیلے میں14لاکھ نوکریاں بنتی ہیں۔
ایسا ہی باغبانی کے شعبے کے ساتھ بھی ہے۔ اعلی کثافت کے اقدام کے آزمودہ نسخہ کو چھوڑ کر باغات کی پیداواری صلاحیت اور کاشتکاروں کی آمدنی کو بہتر بنانے کیلئے کوئی تکنیکی مداخلت نہیں کی گئی ہے۔ وادی کشمیر کے سہارے بھارت دنیا میں سیب پیدا کرنے والا چھٹا سب سے بڑا ملک ہےجبکہ کشمیر اپنے طور پر دنیا میں سیب پیدا کرنے والا چھٹا بڑا ملک ہے۔ کشمیر بھارت کو چین کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا سیب کاشت کرنے والا ملک بننے کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔
پورا ایکو سسٹم اس وقت ضرورت سے کہیں زیادہ ملازمتیں پیدا کرے گا لیکن جدید کارپوریٹ ہنر کے لحاظ سے ملازمت کے مسائل ہیں۔ آپریشنل سائیڈ پر CFO، CPO یاCTOسپلائی چین مینیجر، یا لاجسٹک ہیڈ جیسی فنکشنل مہارتوں کی شدید کمی ہے۔ مہارت کا خسارہ زیادہ ہے، اور سپلائی سائیڈ ایک پابند رکاوٹ بن سکتی ہے اگر اسے پالیسی رعایتوں کے ذریعے فوری طور حل نہیںکیاجاتا ہے۔