سرینگر //مزاحمتی قائدین سید علی گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یٰسین ملک نے کشمیری طلباء پر تشدد ڈھانے اور تعلیمی اداروں پر دھاوا بولنے کو ریاستی دہشت گردی کی بدترین شکل قرار دیتے ہوئے عوام سے 21؍اپریل بعد نماز جمعہ طلباء کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور ایک گھنٹے کا پُرامن علامتی احتجاج بلند کرنے کی اپیل کی ہے۔مزاحمتی قائدین نے کہا کہ ضمنی الیکشن ڈرامے کے موقع پر کشمیری عوام کی طرف سے جو دوٹوک فیصلہ سامنے آگیا ہے، اُس نے سرینگر سے دلی تک حکمرانوں پر لرزہ طاری کردیا ہے اور وہ فرسٹیشن کے شکار ہوگئے ہیں۔ پلوامہ کالج پر فورسز کا حملہ اور طلباء کی مارپیٹ اسی فرسٹیشن کا نتیجہ تھا اور دوسرے تعلیمی اداروں کے طلباء کی طرف سے نکالے گئے پُرامن جلوسوں کے خلاف طاقت کا بے تحاشا استعمال عمل میں لانا بھی اس سلسلے کی کڑی ہے۔ گیلانی ، عمر اور یٰسین نے کابینہ کی طرف سے امن قائم کرانے میں تعاون مانگنے کو مضحکہ خیز قرار دیا اور کہا کہ ریاست میں امن درہم برہم کرانے کے لیے کُلی طور پر بھارتی فورسز اور ریاستی پولیس ذمہ دار ہیں، جو نہتے شہریوں پر بے پناہ مظالم ڈھارہی ہیں اور جنہوں نے پُرامن سیاسی سرگرمیوں پر مکمل طور پابندی عائد کردی ہے۔ مزاحمتی قائدین نے کہا کہ جموں کشمیر کو عملاً فوج کے حوالے کردیا گیا ہے اور فوج براہِ راست طور ’’ڈاؤل ڈاکٹرین‘‘ پر عمل کررہی ہے، جس کے تحت ہر اہلکار کے ہاتھ میں لائسنس تھمادی گئی ہے کہ وہ جب چاہے اور جس کو چاہے ہلاک کرسکتا ہے، اس کی کوئی باز پُرس ہوگی اور نہ اس کو کسی قسم کی سزادی جائے گی۔ جوابدہی کا کوئی انتظام ہوتا، تو 27سالہ نوجوان کو جیپ سے باندھنے والے آرمی آفیسر کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی اور اس کو گرفتار کیا جاتا۔ مزاحمتی قائدین انٹر نیت پر پابندی کو انسانی حقوق کی سنگین پامالی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد اقوامِ عالم کو اُس ریاستی دہشت گردی سے بے خبر رکھنا ہے جس کا مظاہرہ بھارت کی مسلح افواج جموں کشمیر میں کررہی ہیں۔انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ 21؍اپریل جمعہ کے دن نماز کے بعد ایک گھنٹے تک پُرامن علامتی احتجاج کرکے اپنے لخت ہائے جگر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں اور ان کے ساتھ اپنی محبت اور وابستگی کو پیش کریں۔