افتخاراحمدقادری
زندگی کی تیز رفتار دوڑ میں آج کاانسان ہر سمت بھاگ رہا ہےاور اسی دوڑ میں جی رہا ہے مگر ایمان کی دولت سے آہستہ آہستہ ہاتھ مَل رہاہے۔ ایسے میں اسلام ہمیں ہر ہفتے ایک دن عطا کرتا ہے جو روح کی تازگی، دل کی صفائی اور ایمان کے تجدید کا دن ہے وہ دن جمعہ کا دن ہے۔ جمعہ کا دن مذہب اسلام میں بے حد بابرکت اور فضیلت والا دن ہے۔
احادیثِ مبارکہ میں اس دن کو ’’عید کا دن‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’سب دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے۔‘‘ (سنن ابوداؤد) یہ وہ دن ہے جس میں الله تعالیٰ نے مسلمانوں کو اجتماعی عبادت کا شرف بخشا۔اس دن بندہ اپنے ربّ سے قریب ہوتا ہے، گناہوں کی معافی پاتا ہے،اس دن دلوں کو نصیحت کے نور سے جِلا ملتی ہے۔ لیکن افسوس! آج ہمارے معاشرے میںکے دور میں جمعہ کی روح، اس کی تیاری، اس کا ادب اور اس کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ آج مساجد میں جمعہ کے روز جو منظر نظر آتا ہے وہ ہمارے شعور کی زوال کا آئینہ ہے۔ جیسے ہی امام صاحب منبر پر تشریف لے جاتے ہیں اور خطبہ شروع ہوتا ہے، زیادہ تر لوگ مسجد کے باہر باتوں میں مشغول ہوتے ہیں۔ دکاندار، گاہکوں کے حساب چکا رہے ہوتے ہیںاور کچھ ایسے ہیں جو جان بوجھ کر تاخیر سے آتے ہیں کہ مسجد میںنہ تقریر سننی پڑے نہ زیادہ دیر بیٹھنا پڑے۔ یہ رویہ نہ صرف غفلت کا مظہر ہے بلکہ ادبِ دین کے خلاف ہے۔ حالانکہ جمعہ کا خطبہ محض تقریر نہیں بلکہ نمازِ جمعہ کا ایک لازمی جز ہے۔ خطبہ خاموشی سے سننا خود عبادت کاایک عمل ہے۔ جو شخص خطبہ سننے سے محروم رہا گویا اس نے نمازِ جمعہ کی روح حاصل نہیں کی۔ جمعہ کی نماز صرف دو رکعت ادا کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی عبادت ہے جس میں ایمان، اتحاد، نصیحت اور تقویٰ کے پیغام پوشیدہ ہیں۔ خطبہ اس لئے دیا جاتا ہے کہ مسلمان ایک جگہ بیٹھ کر دین کی باتیں سنیں، اپنی اصلاح کریں اور امت کے اجتماعی حالات پر غور کریں۔ ہم دنیاوی معاملات میں وقت کے پابند ہیں، اگر کسی دفتر میں انٹرویو ہو، یا کسی افسر سے ملاقات تو ہم آدھا گھنٹہ پہلے پہنچ جاتے ہیں، لیکن مسجد کے معاملے میں یہ اہتمام کیوں نہیں؟ کیا ہم الله تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کو کم اہم سمجھتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ ہماری روحانی کمزوری اور ایمان کی بے حسی ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا:
’’جو جمعہ کے دن غسل کرے، خوشبو لگائے، بہترین کپڑے پہنے، مسجد جا کر خاموشی سے خطبہ سنے اور نماز ادا کرے تو اس کے ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)۔ جمعہ کا دن عبادت، صفائی، خشوع اور مغفرت کا دن ہے۔ مگر ہم میں سے اکثر اس دن کو معمولی سمجھ کر گزارتے ہیں۔ حالانکہ یہی دن تو ہے جس میں الله تعالیٰ بندے کو اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اگر بندہ اس دن کو غفلت میں گزار دے تو وہ ایک بڑی نعمت سے محروم رہ جاتا ہے۔ جمعہ کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں، ایک امت ہیں اور ہمارا رشتہ ایمان سے جڑا ہے۔ اگر ہم جمعہ کے دن بھی دین سے غافل رہیں تو باقی ایام میں ہم سے خیر کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ آئیے! ہم سب عہد کریں کہ جمعہ کے دن جلدی مسجد جائیں گے، خطبہ کو پورے احترام اور خاموشی کے ساتھ سنیں گے اور جمعہ کے پیغام کو اپنی زندگیوں میں اُتاریں گے۔
آج معاشرہ اخلاقی زوال، روحانی کمزوری اور دینی غفلت کے جس دوراہے پر کھڑا ہے وہاں جمعہ کا پیغام پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ دن ہمیں محض نمازِ جمعہ کی ادائیگی کا نہیں بلکہ اجتماعی بیداری، اتحادِ امت اور اصلاحِ احوال کا درس دیتا ہے۔ مسجد صرف عبادت گاہ نہیں بلکہ ایک تربیت گاہ ہے جہاں خطبہ کے ذریعے امت کو بیدار کیا جاتا ہے، برائیوں سے روکا جاتا ہے اور خیر و نیکی کی دعوت دی جاتی ہے۔ اگر مسلمان اس دن کی روح کو سمجھ لیں تو معاشرہ خود بخود بدل سکتا ہے۔ لیکن افسوس! آج جمعہ کا اجتماع محض رسمی نمائش بن کر رہ گیا ہے۔جبکہ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اصلاحِ معاشرہ کا آغاز مسجد سے ہوتا ہے اور مسجد کی روح جمعہ کے دن زندہ ہوتی ہے۔ جمعہ ہمیں اجتماعیت، نظم، وقت کی پابندی اور الله تعالیٰ کے سامنے عاجزی سکھاتا ہےاور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم اکیلے نہیں بلکہ ایک امت ہیں، ایک مقصد کے تحت جیتے ہیں اور ایک ہی ربّ کے بندے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ امتِ مسلمہ دو بارہ عروج پائے، معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنے، نوجوان کردار و اخلاق میں مضبوط ہوں تو ہمیں جمعہ کے پیغام سے اپنا تعلق مضبوط بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنی کوتاہیوں پر نادم ہو کر توبہ کرنی ہوگی۔ دلوں میں ایمان کی روشنی جگانی ہوگی۔ جمعہ کے دن مسجد کی صفوں میں وقت سے پہلے پہنچنا اپنی خوش نصیبی سمجھنا ہوگا۔ کیونکہ جو قوم اپنے دینی شعائر کی قدر کرتی ہے، الله تعالیٰ اسے کبھی ذلیل نہیں کرتا۔آیئے! عہد کریں کہ ہم جمعہ کی روح کو زندہ کریں گے، مسجدوں کے احترام کو بحال کریں گے اور خطبہ جمعہ کو اپنے معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ بنائیں گے۔تاکہ ہمارے دل بھی نورِ ایمان سے منور ہوں اور ہمارا معاشرہ بھی امن، محبت اور دیانت داری کا نمونہ بن جائے۔