سعودی شاہوں نے بالآخر اپنے ایک جلاوطن شہری صحافی جمال خشجعی کے قتل کا استنبول کے سعودی سفارت خانے میں کر نے اور ان کی لاش کو ٹکرے ٹکڑے کر کے ترکی میں سعودی سفیر کی سرکاری رہائش گاہ میں منوں مٹی نیچے دفن کرنے کا اعتراف کر کے گویا اپنے تابوت میں اپنے ہی ہاتھ سے آخری کیل ٹھونک دی۔ خودکوحرمین شر یفین کے خادم کہلانے و الے سو سال کے قریب مدت سے آل سعود حجاز میں اپنی خاندانی بادشاہت چلاتے ہیں ۔ یہ لوگ پرانے زمانے کے عیاش واوباش اور دنیا پرست ظالم بادشاہوں کی طرح ایک ہاتھ رعایا کا خون چوستے ہیں ، اور ودسرے ہاتھ حریفوں ، ناقدوں اور مخالفوں کی بات ہی نہیں اپنے کسی ظلم اور زیادتی پر خاموش اُف تک کہنے والے کی گردن اُڑاتے ہیں ، اُسے زندہ درگور کرتے ہیں ، اُسے جیل میں سڑاتے ہیں ، ا س کا جینا حرام کر دیتے ہیں ۔ افسوس یہ یہی موروثی بادشاہ اپنے کھلے اور خفیہ جرائم کی پردہ پوشی میں سالانہ خانہ ٔ کعبہ کی غلاف بدل کر مسلمانوں کویہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم اللہ کے چہیتے اور مسلمانانِ عالم کے خیرخواہ ہیں ۔ یہ دونوں سفید جھوٹ ہیں اورحقیقت میں یہ اسلام جیسے دین عدل کا استحصال کر تے ہیں اور انسانیت کی گردن مروڑنے میں امریکہ اور اسرائیل سے ساز باز رکھتے ہیں ۔ خاص کر شاہ سلمان کے ولی ٔ عہدمحمد بن سلمان جب سے سیاسی سٹیج پر نمودار ہوا، تو ہر طرح کادین بیزارعمل شاہی سر پرستی میں اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ شاہ فیصل جیسے عادل با غیرت اور ایمانی حمیت و الے سعودی فرمان روا کے خانوادے سے ایم بی ایس جیسا سنپولا نکلے گا۔ابھی تو اس نے تخت شاہی پر قدم ہی رکھے ہیں کہ سارے عالم اسلام کے لئے وہ اپنے ملک سمیت قہر بن کر ٹوٹا ۔داخلی محاذ پر امر یکہ کی جی حضوری سے اپنے تمام حریفوںاور مدمقابلوں پر غالب آجانے اور انہیں اپنے سامنے سرنڈر کرادینے کا نتیجہ یہ ہوا ولی ٔعہد اپنے آپ کوبیرونی محاذ پر سپر مین سمجھنے لگا ہے۔اسی خوش فہمی نے ان سے وہ کروایا جو ہٹلر یا امریکہ کرے تو کسی کوحیرانگی نہ ہوگی مگراس نے دیار غیر میں جمال خشقجی کے قتل کیا رنگ لائے اب دنیا کے ساتھ ساتھ MBS کو بھی وہ چار وناچار دیکھنا ہوگا۔
’’واشنگٹن پوسٹ ‘‘سے وابستہ سعودی نژاد صحافی جمال خشقجی غالباً اسلحہ کے بین الاقوامی ڈیلر؍دلال عدنان خشقجی کے قریبی رشتے دار تھے ۔کبھی ان کی شاہی خاندان سے بہت بنتی تھی مگر بن سلمان کے ساتھ ان کا لفڑا ہوا اور وہ اپنی جان بچانے کے لئے امریکہ بھاگ گئے۔ قتل ہونے سے پہلے ترکی میں سکونت تھی اور اسی ملک کے سعودی سفارت خانے میں ان کا قتل ایک باضاطبہ پلان کے تحت ولی ٔ عہد نے کرایا۔ اس سے واضح ہو اکہ نہ صرف ملک کے اندر بلکہ باہر بھی آل سعود اپنے قاتلانہ ہدف پورے کر نے سے نہیں چوکتا۔معلوم نہیں کیاہوا کہ مقتول سعودی عرب سے نکل کر شاہی خاندان کے بڑے ناقد کیوںبن گئے۔ یادرہے سعودی شاہی خاندان کے ناقد اب تک سینکڑوں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اُتارے جا چکے ہیںیا قید میں پڑے ہوئے ہیںمگر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سعودی حکمران انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ا س دور میں اتنے احمق ثابت ہوں گے کہ غیر ملکی سرزمین پراس طرح اپنے مخالف کادن دھاڑے قتل کروائیں گے کہ ساری دنیا بھونچکا رہ جائے ۔ کیا مسلمان حکمران ایسے ہی ہوتے ہیں؟ سعودی بادشاہت نے حماقتوں پر حماقت کر کے دو ہفتوں تک اس قتل کو چھپایا جس کا چھپانا ممکن ہی نہ تھا۔یہ تو بچے بھی کہہ رہے تھے کہ سعودی حکومت کو اس قتل ناحق کا اعتراف کرنا ہی پڑے گا ۔ انھوں نے یہ کیا بھی مگر دینا بھر سے صلواتیں سننے کے بعد۔یورپی یونین اور امریکہ انہیں بار بار دھمکیاں دے رہے تھے ،جرمنی نے سعودی عرب سے اپنے اسلحے کی ڈیل فی الحال کینسل کردی۔اب MBS کہہ رہاہے کہ ترکی میں سعودی سفارت خانہ سعودی Territory ہے، اس لئے اس پر سعودی قوانین کا اطلاق ہوگااور ترکی کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے ملکی قوانین کے تحت تفتیش کر یں گے اور جن کے سر جرم ثابت ہو انہیں کیفر کردار تک پہنچنا ہوگا ۔اس بحث سے قطع نظر یہ بھی دیکھا جانا چاہئے کہ سعودی تخت وتاج کاجانشین آگے کیا کیا گل کھلائے ، سچ یہ ہے کہ ہمارا دین اور ہماری ملّی تاریخ ایسی مثالیں پیش کرتاکہ جب مطلق العنان حکمرانوں نے بھی اپنے آپ کو جرم کی پاداش میں سزا کے لئے پیش کیا تھا۔ سعودی حکمرانوں میں اسلامی حکمرانوں کی سی بات کہاں کہ اپنے آپ کو جمال خشقجی کے قتل میں ملوث ہو نے کا اقرار کر کے سزا کے لئے پیش کر یں ؟
جمال خشقجی قتل کیس میں کچھ باتیں بڑی عجیب و غریب ہیں۔جمال امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ ‘‘ سے وابستہ تھااور امر یکہ میں ہی رہتا تھا۔پھر وہ اپنی سعودی بیوی کے طلاق کے کاغذات کیVerification کے لئے ترکی کیوں آیا؟یہ کام امریکہ میں موجود سعودی سفارت خانے میں بھی ہو سکتا تھا اور وہ وہاں زیادہ محفوظ بھی رہ پاتا۔کیا اسے ایک باضابطہ گیم پلان کے تحت جان بوجھ کر ترکی بھیجا گیا ؟اس سے کچھ ہی دن پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر ہم سعودی حکومت کی حفاظت سے اپناہاتھ کھینچ لیں تو یہ حکومت دو ہفتے بھی نہیں ٹک پائے گی۔جواب میں امریکیوں کے بنائے ہوئے سعودی جانشین بن سلمان نے بڑے تابعدرانہ انداز میں کہا تھاکہ ہم امریکی اسلحہ پیسہ دے کر خریدتے ہیں،مزید’’ہفتہ‘‘ کیوں دیں۔یہ گفتنی واشنگٹن کے لئے گویا میری بلی مجھی سے میاؤں والی بات تھی۔اسی دوران ایک واقعہ اور ہوا تھا، متنازعہ امریکی پادری اینڈریو برونسن جو برسوں سے ترکی میں قید تھااور امریکہ اور ترکی کے درمیان کشیدگی کی وجہ بنا ہوا تھا ، کو جیل سے رہا کردیا گیا۔رہائی کی وجوہات تادم تحریر نا معلوم ہیں۔باور کیاجا سکتا ہے شاید ترکی امریکی دھمکیوں اور دباؤ میں آ گیا ہو ۔ اس رہائی کے بعد امریکی اعلیٰ عہدیدار کا یہ بیان کہ پاسٹر کی رہائی کسی ڈیل کی بنا پر عمل میں نہیں آئی،سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔اگر بغیر کسی ڈیل کے رہائی ہوئی ہے تو ہمارے نزدیک اردگان سے چُوک ہوئی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ بقول عالم امریکہ کی دشمنی سے زیادہ اس کی دوستی نقصان دہ ہوا کرتی ہے ۔ بہر کیف مقتول صحافی جمال کا مرنے کے لئے ترکی آنا اس کی تقدیر کا اٹل فیصلہ تھا۔ تاہم یہ بات خارج ازامکان نہیں ہے کہ جس طرح امریکہ نے ہوا بھر بھر کے صدام حسین کو کویت پر حملے کے لئے اُکسایا تھا، اسی طرح جمال خشقجی کو بھی چابی دے کر ترکی بھیجا گیا ۔ایک باخبر بین الاقوامی صحافی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ امریکی اور ترکی دونوں ممالک کی انٹیلی جنس پوری طرح با خبر تھی کہ خشقجی کب سعودی قونصلیٹ جا رہا ہے تاکہ اپنی سعودی اہلیہ سے طلاق اور ترکی منگیتر سے شادی کے کاغذات کی تصدیق کروائیں۔ شایدانہیں بھی اندازہ تھا کہ وہاں اس کے ساتھ کچھ بھی ممکن ہے، اسی لئے اندر جانے سے پہلے اپنے جدید Gadgets اپنی ترکی منگیتر کے ہاتھ تھما دئے تھے ۔ اُن کے ساتھ سفارت خانے کے اندر جو کچھ ہو اوہ رونگھٹے کھرا کر نے کے لئے کافی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس خون ناحق میں سعودی حکومت میں بد یوں کے محور اُس کردار نے اپنے ہاتھ رنگ لئے جو کل خانہ کعبہ کے اندر جانے کا موقع پائے گا ۔ آج جمال اپنے قتل کے بعد قربانی کا وہ محاوراتی بکرا بنے ہوئے ہیں جس کی قربانی سے ہر کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہاہے ۔ٹرمپ کا بار بار یہ کہنا کہ اگر جمال خشقجی کو قتل کیا گیا ہے تو سعودیوں کو’’ سنگین نتائج‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا، اصل میں بن سلمان کو مزید دباؤ میں رکھ کر وہ وہ کروانا ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے مفاد میں ہو ۔ الغر ض اس دنیا میںہمارے سروںپر مسلط حکمران شیطانی گریٹ گیم میں مصروف ہیں۔بظاہر تویہی لگتا ہے کہ عراق کی طرح سعودی عرب کا گھیراؤ بھی کیا روز بروز تنگ کیا جارہا ہے۔ہم بس اللہ سے یہ دعا کر سکتے ہیں : یا الہٰ العالمین عالم اسلام کو اپنے حفظ و امان میںرکھ۔ آمین
رابطہ 7697376137