مسعود اظہر کو کس نے چھوڑا ؟
سرینگر+جموں//نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ دھونس ،دبائو یاگرفتاریوں سے مسلے حل نہیں ہوتے ،جبکہ نہ صرف داخلی محاذ پر بلکہ خارجی سطح پر بھی وقت آچکا ہے کہ دونوں ممالک کو بات چیت کرنا ہوگی ۔ ڈاکٹر فاروق نے بھاجپا کی قیادت والی مرکزی سرکار سے کہاہے کہ وہ قوم کو یہ بتائے کہ کس نے اظہر مسعود کو 1999میں رہاکیا۔فاروق کاکہناتھاکہ انہوںنے حکومت کے فیصلے کے خلاف رائے دی تھی لیکن اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی سرکار نے اظہر مسعود اور اس کے ساتھیوں کو کندھار میں اغوا ہونے والے انڈین ایئرلائنز کے طیارے کی رہائی کے عوض چھوڑ دیا۔سابق آئی جی پولیس شفقت وٹالی کی نیشنل کانفرنس میں شمولیت اختیار کرنے کے سلسلے میںمنعقدہ تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’جو ماحول بنایا جارہاہے اْس سے حالات ٹھیک نہیں بلکہ اور بگڑ جائیں گے،یاسین ملک کو گرفتار کرکے جموں پہنچایا گیا، جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرکے اْن کیخلاف کریک ڈائون کیا گیا، کیا اس سے مسئلہ حل ہوگا؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس سے لوگ چپ بیٹھیں گے؟۔انہوں نے کہا کہ پہلے بھی جگموہن کے دورمیں جماعت اسلامی کیخلاف اس قسم کی کارروائیاں کی گئیں، اْس وقت بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور نہ آج کوئی نتیجہ نکلے گا، اْس وقت بھی ایسا دور آیا جب وزیرا عظم کو سب حریت والوں سے بات کرنی پڑی اور آج بھی ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔ان کاکہناتھاکہ انہیں اس بات کا کوئی علم نہیں ہے کہ جماعت اسلامی کا حزب المجاہدین سے کوئی تعلق ہے ۔ان کاکہناتھا’’میں وزیر اعلیٰ بھی رہا لیکن ایسی کوئی انٹیلی جنس اطلاع نہیں دیکھی کہ حزب المجاہدین جماعت کی تنظیم ہو،اگر میں غلط نہیںہوں تو اس گروپ کو کشمیر کے اُس پار سے سید صلاح الدین چلارہاہے ‘‘۔جماعت اسلامی پر پابندی اور کریک ڈائون کو 35اے کیساتھ جوڑنے کی افواہوں کو رد کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ حکومت ہند کو کشمیر میں اس طرح کی روش کو ترک کرنا چاہئے جو ماحول کی خرابی کا سبب بن سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے سر پر جنگ ہے،ہم امن چاہتے ہیں، ہم ہندوستان اور پاکستان کی دوستی کے متمنی ہیں، دونوں ملکوں کو بات چیت کرکے کشمیرکا سیاسی حل نکالنا ہی پڑے گا اور ہمیں اٹانومی دینی پڑے گی، وہاں بھی دینی پڑے گی جو حصہ اْن کے پاس ہے، اس کے بغیر کوئی راستہ نہیں نکلے گا۔ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ جو پارٹی برسراقتدار ہے وہ مختلف مذاہب کے لوگوں میں تفرقہ ڈال رہی ہے، جو کسی المیہ سے کم نہیں۔ ملک کی اقلیتیں خصوصاً مسلمان خوفزدہ ہیں جو انتہائی افسوسناک ہے۔ وزیر اعظم کو یہ بات صاف کر لینی چاہئے کہ یہ ملک کسی ایک جماعت یا کسی ایک مذہب کا نہیں ہے، بلکہ یہ سب کا ہے اور ہم سب کو اس میں امن و امان کیساتھ بود باش کرنے کا حق ہے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہاہے کہ اگر ان کی پارٹی برسرار اقتدار آئی تو جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میں خواتین کو 33فیصد ریزرویشن دی جائے گی ۔