پلوامہ خود کش حملہ کے فوراً بعد بر صغیر میں ڈرامائی انداز میں حالات یکایک دگر گوں ہوئے۔ سب سے پہلے جموں شہر میںکشمیر یوں کی مارپٹائی اورہراسانی کا روائیاں شروع ہوئیںجو ایک طرح سے اہل کشمیر کے لئے پیغام تھا کہ فرقہ پرست عناصر کشمیریوں کوغیر ہی نہیں بلکہ اپنادشمن بھی سمجھتے ہیں۔ کئی کشمیری بھائیوں بہنوں کو بشمول جموںمدھیہ پردیش، دہرہ دون ، چنڈی گڑھ، کولکتہ، اُترپردیش وغیرہ میں حملوں، ایذاء رسانیوں اور ڈراؤ دھمکاؤ کا نشانہ بنانا اسی پیغام کی صدائے باز گشت تھی۔ بہت جلدیہ پیغام جب عدالت عظمیٰ کے گوش ِ سماعت سے ٹکرایا توعدل کے ایوان سے حکومتوں کے نام فوراً ہدایات جاری ہوئیں کہ کشمیر یوں کو احسا س ِتحفظ دیا جائے اور انہیں کوئی گزند نہ پہنچائی جائے ۔ ان بلند وبالا ہدایات پر کتناعمل درآمدہوا اس کا ایک نمونہ گزشتہ دنوں لکھنو میں دوکشمیری خوانچہ فروشوں کی ہندوتو وادیوں کے ہاتھوں سرراہ مارپیٹ کی صورت میں دیکھاگیا۔ یہ تو پلوامہ واقعے کا عوامی سطح کا ردعمل تھا مگر حکومتی سطح پر بھی نئی دلی نے کشمیری مسلمانوں کے خلاف گویا اعلان جنگ کیا۔اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ ۲۲؍ اور ۲۳ ؍فروری کی درمیانی رات کو ایک نیا محاذ کھول کر بیک جنبش قلم ریاست کی ایک مستند دینی، سماجی ، فلاحی اوراصلاحی، دعوتی تنظیم جماعت اسلامی پر سخت کر یک ڈاؤن کیا گیا۔ اُس رات کشمیر محو خواب تھا، مگر ریاستی انتظامیہ بھر پور فعالیت کے ساتھ شبانہ کریک ڈائون کے دوران جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے قائدین واراکین کی بڑے پیمانے پر گرفتاری عمل میں لاتی رہی ۔ گرفتار شدہ شہریوںکا جرم اور قصور کیا تھا،اس بارے میں کسی کو اتہ پتہ ہی نہ چلا، البتہ سنیچر کی صبح سوشل میڈیاپر یہ خبر سر فہرست چھا گئی ۔ گرفتار شدہ گان میں جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض ، تنظیم کے امرائے اضلاع اور ذمہ داران ِتحصیل جات بھی شامل تھے ۔پولیس کارروائی کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد یعنی 28فروری کی شام وزارتِ داخلہ حکومت ہند کی جانب سے یہ سرکاری حکم نامہ جاری ہوا: ’’جماعت اسلامی جموں کشمیر بھارت کی سا لمیت اور امن عامہ کے لئے خطرہ ہے ،تنظیم کا عسکری جماعتوںکے ساتھ قریب کا تعلق ہے اور یہ ملک میں تخریبی کارروائیاں بھی انجام دیتی ہے،اس لئے اس تنظیم پر unlawful activities act 1967 prevention ofکے تحت غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں جماعت پر پانچ سال تک پابندی عائد کی جاتی ہے ۔‘‘ نئی دلی کے اس غیر متوقع اقدام کو مزاحمتی خیمہ اور جموں کشمیر کی کئی ہند نواز سیاسی جماعتیں غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دیا ۔
جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر نے کے بارے میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کا یہ قدم اس کی پنج سالہ حکومتی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ایک الیکشن اسٹنٹ (Election Stunt)ہے ۔ پارٹی اپنے ہندوتو وادی ووٹ بنک کو اس کارروائی سے متاثر کر ناچاہتی ہے کیونکہ آنے والے انتخابات میں بھاجپا کامیابی حاصل کرنے کے لئے جنگ سے لے کر ڈڈراور خوف تک ہر ایک آزمودہ نسخہ عملانا چاہتی ہے ۔ بی جے پی نے 2014 ء میں بھارتی عوام سے بہت سارے خوشنما دعوے کئے اور حسین وعدے دئے ، مثلاً سب کا ساتھ سب کا وکاس ، اچھے دنوں کی آمد ، مہنگائی پر قابو، بے روزگار ی کا خاتمہ ، رام مندر کی تعمیر ،دفعہ370اور دفعہ 35A کی تنسیخ ، بدعنوانی کا جناز ہ وغیرہ وغیرہ ۔ انہی چیزوں کے نام پر پارٹی نے بے تحاشہ ووٹ حاصل کئے ،لیکن بی جے پی اپنے یہ وعدے جزوی طور بھی پورا کرنے میں ناکام رہی ۔ ’’اچھے دن کی آمد‘‘ اور’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘جیسے نعرے ڈھکوسلے ثابت ہوئے کیونکہ ملک میں مہنگائی میں صددرصد اضافہ ہو ا، بے روزگاری کی شرح گزشتہ پنتالیس سال میں سب سے زیادہ رہی ، افراط ِزر اپنی حدوں کو چھوگیا ، امن وقانون کی پوزیشن خراب سے خراب تر ہوئی ، جی ایس ٹی نے قومی معیشت کا کوئی بھلا نہ کیا ،وزیراعظم مودی نے یوپی میں اسمبلی الیکشن سے تھوڑی دیر قبل الل ٹپ نوٹ بندی کر کے غریب شہریوں کودانے دانے کامحتاج کیااور دو سوسے زائد لوگ اس سے اپنی جان گنوا بیٹھے، جب کہ لوگوں کو اتنی ساری مشکلات کا سامنا رہا کہ اس المیے کو الفاظ کے جامے میں نہیں ڈھالا جاسکتا۔ بعینہٖGSTکا اطلاق کر کے بھارت بھر کا چھوٹا کاروباری طبقہ آذوقہ کمانے سے ہی محروم ہوکر رہا ۔ بدعنوانیوں کا حال ا حوال نیرو مودی ، وجے مالیا، للت مودی کی لوٹ کھسوٹ اور پھر ملک سے ان کا فرار کورپشن کے کرشمے ہیں،اس پر مستزاد یہ کہ بوفورس توپ سودے کی مانند متنازعہ رافیل سودا مودی سرکار کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔اسی طرح ملکی پیمانے کے اہم ترین اور حسا س قومی ادارے سی بی آئی اور ریزرو بنک انڈیاپر سیاست کاریاں ہوتی رہیںاور پھراگر کوئی کسر باقی رہی تھی تو وہ بالا کوٹ میں انڈین ائر فورس کے فضائی آوپریشن ، پاکستان کی جوابی کا رروائی ، فوجی ہواباز ابھی نندن کی سرگزشت نے پورا کردی ۔ اس وقت بھی بر صغیرمیں جنگ آزمائی کے حوالے سے صورت حال غیر یقینی اور انتہائی مخدوش ہے ۔
گزشتہ پونے پانچ سال سے زائد عرصہ میں مر کزی سرکار نے ملک میںامن و امان، تعمیر وترقی اور معاشی خوش حالی کے کلیدی محاذوں پر کوئی کام کیا ہی نہیں مگر بہ یک بینی ودوگوش اقلیتوں خاص کرمسلم اقلیت اور دلت طبقے کو شدید مشکلات کے بھنور میں ضرورپھنسا دیا ۔ سہ طلاق کا قضیہ اور بابری مسجد معاملے پر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی کھلے عام ناقدری، گئوکشی روکنے کی آڑ میں مسلمانوںکی جابجا خوف زدگی، آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز( این آر سی ) جیسے قانون کی لٹکتی تلو ار سے مسلمانان ِ ہند کا جینا دوبھر کرنا ایک عیاں وبیاں حقیقت ہے ۔ نہ جانے چشم فلک نے یہ اندوہناک منظرکس دل شکنی کے ساتھ دیکھا ہوگا کہ داد ری یوپی میں محض گائے کا گوشت فرج میں رکھنے کے شک میں اخلاق احمد نامی ایک ادھیڑ عمر کے مسلمان کو فرقہ پرست جنونیوں نے مارمار کر شہرخموشاں کا باسی بنادیا ؟ اسی طرح کے دیگر متشددانہ واقعات میں درجنوں بے گناہ مسلمانوں کو جنونیوں نے ہجومی تشدد میں بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ گھرواپسی اور لو جہاد کے بہانے بھی مسلم کمیونٹی کو جرم بے گناہی کی پاداش میںبہت ستایا گیا ۔
ا س مدت کے دروان کشمیر اپنی تمام آفتوں اور المیوں کے ساتھ قتل و غارت کا میدان بنارہا۔ یہاں نہ صرف سینکڑوں عساکر کام آئے بلکہ معتد بہ تعداد میں و ردی پوش اور عام لوگ بالترتیب چتاؤں اور قبروں کی بھینٹ چڑھ گئے ، بستیاں تباہ ہو گئیں،زخمیوں کی فوج میں اضافہ ہو ا، یتیموں اور بیواؤں کی تعد اد بڑھ گئی۔ اس پر ستم یہ کہ مسئلہ کے مذاکراتی حل کے لئے مودی سرکارنے کوئی پیش قدمی کر نا اپنے لئے خلاف ِشان سمجھا ہے اور یہ کوئی ایسی مصالحتی اسٹریٹجی وضع کر نے سے دیدہ ودانستہ بازرہی جو اپنی اپنی باری پر اٹل بہاری واجپائی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اختیار کی تھی ۔ مودی جی نے ضرور لال قلعے کی فصیل سے کہا کہ کشمیر کاحل گولی ہے نہ گالی مگر کشمیر یوں کو گلے لگانے میں ہے ، یہ محض جملہ بازی ثابت ہوئی اور بس ۔ پی ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت بناتے ہوئے ایجنڈا آف الائنس کی خوب بانسری بجائی گئی مگر یہ کاغذ کا پلندہ اور خوش نما الفاظ کا ذخیرہ ثابت ہوا۔ مودی سرکار نے کشمیریوں کے بشری حقوق پر شب وروز ڈاکے ڈالنے والوں کو کھلی ڈھیل کا اعلان بار بار دہرایا۔ قطبین کا اتحاد کہلانے والی اس مخلوط حکومت کے زیر سایہ کشمیری عوام نے ۲۰۰۸ء ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۰ء کے مظالم سے کئی زیادہ شدید خون آشامیاں ۲۰۱۶ء کے چھ ماہ طویل عرصہ میں پائیں ۔ ان تمام تلخ ترین تجربات کے بعد بھی کشمیر میں زمینی حالات پر کوئی قابو نہ پایاگیا اور اب اس ساری سچویشن کا نزلہ جماعت اسلامی پر گراکر اس پرپابندی عائد کی گئی ، وہ بھی ا س وقت جب اقوام متحدہ ، اوآئی سی ، یورپی پارلیمنٹ، امریکہ، روس ، چین ،، برطانیہ، سعودی عرب ، اردن، تُرکی ،ڈنمارک وغیرہم ہند پاک حکومتوں کو باہم دگرصلح صفائی کر نے اور افہام وتفہیم سے کام لینے پر زوردے رہے ہیں، بلکہ کئی ممالک انہیں حل طلب مسئلے پرثالثی کی پیش کش بھی کر رہے ہیں ۔ غور طلب ہے کہ اقوام متحدہ بھارت اور پاکستان پر دباو بڑھارہا ہے کہ کشمیر تنازعے کا پُرامن حل نکالیں ، امریکہ بھی اس مسئلہ کے اوپر بر صغیر کے دوجوہری ہمسایوں کے مابین معرکہ آرائیوںپر بار باراپنی تشویش کا اظہار کر رہاہے ۔ابھی حال ہی میں سشما سورا ج نے OICکے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بہ حیثیت مہمان خصوصی شرکت کی، اجلاس میں افتتاحی تقریر بھی کی مگر اس کے باوجو د OICنے اپنی قرارداد میں نئی دلی کے خلاف و ہ تیکھی زبان استعمال کی جو آج تک اس عالمی تنظیم نے کبھی بھی استعمال نہ کی تھی ۔ اوآئی سی نے نئی دلی سے مطالبہ کیا کہ کشمیر میں مظالم بند کئے جائیں ، جب کہ اس بار 2007ء کے بعد پہلا موقع ہے جب پورپی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیرکی گونج سنی گئی ۔ بہر صورت ایسی فضا میں حکومت ہند کو چاہیے تھا کہ کشمیر کے موضوع پر عالمی رائے عامہ کا صحیح اور بروقت نوٹس لے کر کچھ نہیں تو کم ازکم یہاں کی اعتدال نواز قوتوں اور معقولیت کے دائرے میں فلاحی و اصلاحی کام کر نے والی انجمنوں کو نہ چھیڑتی مگر اس نے الٹی منطق اختیار کر کے پہلی فرصت میں جماعت اسلامی جموں کشمیر کو اپنی انتخابی سیاست کی بھینٹ چڑھا کر بلا سوچے سمجھے بین کر ڈالا، بالکل اسی طرح جیسے ذاکر نائک کے پیس مشن کی آواز دبانے کے لئے ودر کی کوڑیاں لاکر بنگلہ دیش میں ہوئے ایک دہشت گردانہ حملے کے بہانے ڈاکٹر موصوف کو موردالزام ٹھہرایا گیا ۔ آج ڈاکٹر صاحب وطن بدری کی زندگی گزار رہے ہیں مگر کڑوی سچائی یہ بھی ہے کہ تمام موانع کے باوجود ذاکر نائک کا مشن’’ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے‘‘ کے مصداق جاری وساری ہے۔ بہر کیف جماعت اسلامی جموں وکشمیر پر پابندی عائد ہوناکوئی نئی بات نہیں ، پہلے بھی دو بار جماعت پر پابندی لگائی گئی تھی۔ 1975ء میں ایمرجنسی کے دور ان شیخ عبداللہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگاکر جماعت کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹانا چاہا کیونکہ وہ جماعت کی اُٹھان اپنی ذاتی لیڈر شپ کی راہ میں رُکاوٹ سمجھتے تھے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان کی سخت جان کوشش کے باوجود جماعت میدانِ عمل میں زندہ و جاوید حقیقت بن کر پھر سے اُبھر گئی۔ 1979ء میں ذوالفقار علی بٹھو کی پھانسی کی’’ سزا‘‘ بھی شیخ سرکار کی ناک کے نیچے جماعت اسلامی جموں کشمیر کو بھگتنا پڑی مگر اس طرح کی ستم رانیاں اور ظلم کاریاں برداشت کر تے ہوئے بھی یہ دینی پارٹی دوبارہ دعوت واصلاح اور امدادِ غرباء ویتامیں کے میدان میں سرگرم رہی۔ 1990ء میں جماعت پر عسکریت کے اُبال کے ایام میں لبریشن فرنٹ سمیت پابندی لگا دی گئی مگر سختی کے وہ دن بھی جماعت کو اپنی اختیار کردہ راہ یا اپنے نظریے سے قدم ڈگمگا نہ سکے ۔ اب مودی سرکار نے جماعت کے پر کاٹنے کا اقدام کیا ہے ، تاریخ اس دن کا بے صبری سے انتظار کرے گی جب یہ اقدام بھی ٹائیں ٹائیں فش ثابت ہو ۔ ممنوعہ جماعت اسلامی نے پابندی لگائے جانے کے بعداس بارے میں اپنا موقف اعلاناًواضح کیا ہے کہ پارٹی اس حکم نامے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا وسیلہ اختیار کررہی ہے ۔ کیا مرکز کی طرف سے جماعت پر پابندی جوڈیشری کے میزان میں کھرا اُترے گی ؟ یہ دیکھنا اب باقی ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ ممنوعہ جماعت پر پابندی عائد کئے جانے کے خلاف آج اس کے حامی ہی نہیں بلکہ ا س کے مخالفین بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ یہ دینی جماعت بلا تمیز رنگ و نسل، ذات پات، مذہب وفکر، قومیت وزبان ،انسانیت کی خدمت کر تی چلی آرہی ہے۔ چونکہ اسلام انسانیت ، محبت اور رحم دلی کا ودسرا نام ہے ،اس لئے جماعت کا قوم پر یہ کوئی احسان نہیں کہ پارٹی رفاہ ِ عامہ کے امور میں ممکنہ حد تک اپنا مسلمانانہ اور داعیانہ کردار ادا کر رہی ہے ۔اس مقصد سے مختلف حلقہ ہائے جماعت سے منسلک بیت المال سے بیواؤں ،یتیموں ،محتاجوں اور مساکین کی حتی الوسع مالی امداد ہوتی رہی ہے۔ اتناہی نہیں بلکہ جماعتی کارکنان نے آج تک فی سبیل اللہ ہزاروں پوائنٹ خون جموں کشمیر کے ضرورت مندوں کوعطیہ کیاہے ۔ ۸ ؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلہ زدگان کی دل جوئی اور باز آبادکاری کے لئے دیگر رفاہی اور خیراتی اداروں کے شانہ بشانہ جماعت کی طرف سے بھی متاثریں کی مالی امداد کی گئی ۔ گزشتہ سال صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ میں مفت ایمبولنس سروس کی سہولت غریب و لاچار عوام کے لئے وقف کی گئی، مزید برآں مفلوک الحال مریضوں کو مفت دوائیاں فراہم کر نے اور ان کے علاج ومعالجہ کے لئے تواتر کے ساتھ ان کی مالی امداد کی جاتی ہے ۔ جماعت کی طرف سے خدمت ِخلق اللہ کے محاذ پر مقدور بھر کام کرنا آج کی بات نہیں بلکہ دہائیاں قبل بھی یہ کام فی اللہ وللہ انجام دیا گیا۔ ستر کی دہائی میں زلزلوں سے متاثر ہ علاقہ بڈگام کے عوام کی باز آباکاری ہو یا یاری پورہ میں آتش زدگی سے متاثر ہ پنڈت برادری کی راحت کاری ہو، سرینگر ہو یا جموں ،کپواڑہ ہو یا کشتواڑ ، مفلوک الحال اور محتاجِ امداد لوگوں کی کماحقہ خدمت میں اوروں کے ساتھ ساتھ جماعت بھی پیش پیش رہی ہے ۔
(بقیہ بدھ کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)