انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گاڑی اپنی منزل کی طرف اڑی جا رہی ہے ۔گاڑی میں سوار میںجس سمت گامزن ہوں وہی میرا صحیح اورجائز مقام ہے کیونکہ مجھے احساس ہو گیا ہے کہ یہ وہ منزل ہے جوازلی طور پر میرے مقدرمیں لکھی جا چکی ہے۔۔۔۔
تقریباََ دو ہفتے پہلے میں اپنی سسرال کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر میکے چلی آئی تھی کیونکہ صبرکی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ کہاں تک بر داشت کرتی آخر۔ جب ایک لڑکی کے لیے اس کی سسرال میںمصائب و آلام اپنی حد پار کر جائیں اورزندگی بے حد مشکل لگنے لگے تو آخری پناہ گاہ اس کا اپنا میکہ ہی تو ہوتا ہے۔
اپنی گڑیا کو ایسی خانماں برباد حالت میںپاکرمیری امی نے اپنی شفیق باہیں وا کر دیں ، ابا نے بھی اپنا سر ہلاتے ہوئے میرے اقدام کو تسلیم کیا تھا۔ چھوٹی بہن زائرہ نے فوراََ اپنے کمرے میں ایک اور بستر لگا دیا۔ میرا سامان بھی وہیں آس پاس رکھ دیا۔ ان کی آنکھوں میں میرے لیے فکر، کرب اور رنج و الم کو دیکھ کر میرا اعتماد بحال ہو گیا کہ میں اتنی بھی لاچار نہیں ہوں۔ آبلہ پا اور تھکن سے چور میرے وجود کومانوتپتے ہوئے صحرا میںایک گھنے اور سایہ دار درخت کی چھاؤں نصیب ہوگئی تھی۔
چھوٹے سے کمرے میں دو عدد بستروں کے علاوہ ڈھیر سارے بیگ وغیرہ کے ہجوم میں واضح طور پر جگہ کی تنگی محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے دل ہی دل میںاگلے دن سامان کو قرینے سے لگا نے کا قصد کیا اور بستر پر ڈھیرہو گئی۔ذہنی اور جسمانی طور پرمیں اپنے آپ کوبے حد مضمحل محسوس کر رہی تھی۔ ستم یہ کہ میری قسمت کی طرح نیند بھی مجھ سے منہ پھیرکر نہ جانے کہاں چھپ گئی تھی۔
اچانک تصور میں میری ننھی سی بیٹی سامنے آکر کھڑی ہو گئی ۔ مجھے خیال آیاکہ جب وہ میرے کمرے میں آئے گی اورمجھے وہاں نہیں پاکر کیا کرے گی آخر!ہمیشہ کی طرح ڈھیر ساری ٹافیاں ،چوکلیٹ، کھلونے لے کر بہل جائے گی ؟میں گھبرا کر اٹھ بیٹھی ۔۔۔۔۔کہیں وہ مجھے بھول تو نہیں جائے گی۔پھر وہی ناچاری ، مجبوری اور نارسا ئی کا احساس میری رگ و پے میں سرایت کر نے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔
ملگجے اندھیرے میں کمرے کے در ودیوار کو غور سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے میںسوچنے لگی۔۔۔۔۔۔۔یہی وہ جگہ ہے جہاں میں نے اپنے مستقبل کے لئے رنگین خواب دیکھے تھے۔۔۔۔۔۔ ایک امیر و کبیر نوجوان سے شادی، پُر تعیش زندگی، ڈھیر سارے گہنے، خوبصورت ملبوسات ، ولایت میں ہنی مون۔۔۔۔۔۔۔میرے سپنوں اور تمناؤں کی اونچی اڑان کو ملاحظہ کر کے علیم کی پر شوق آنکھوں میں ہمیشہ اُداسی عود کر آتی۔ میرے بچپن کے ساتھی علیم کے ابو عظمت چچا اور میرے ابو دونوں ایک جیسے عہدوں پر فائز تھے اور دونوں گھرانوں کے مالی حالات بالکل ملتے جلتے تھے۔
پھرمیری زندگی میںسچ مچ وہ دن آگیا جب ایک کروڑپتی گھرانے کے بے حد خوبرو نوجوان سے میرا رشتہ طے ہوگیا ۔ان لوگوں کوصرف ایک خوبصورت اور خاندانی لڑکی کی تلاش تھی،ہماری پچھڑی ہوئی حالت پر انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔لوگ میری قسمت پر عش عش کر رہے تھے اوراسے میرے بے مثال حسن کا کرشمہ گردانا جا رہا تھا۔
بارات والے دن علیم اچانک کہیںروپوش ہو گیا تھا، اس دن مجھے ایک عجیب خلا سامحسوس ہوا ۔ زندگی کے خوبصورت ترین لمحات میںایک عزیز دوست کی غیر مو جو د گی بہت گراں گزری ۔میں اس سے جھگڑاکرنا چاہتی تھی پھر پتہ چلا تھا کہ ٹھیک اسی دن علیم کو کسی خلیجی ملک سے نوکری کا بلاوا آ گیا ہے۔بے مروت کہیں کا۔۔۔۔۔۔میری رخصتی کے موقع پرکم از کم اپنی نیک تمناؤں کی سوغات تو دے جاتا، نہ کچھ بتایا نہ کہابس اچانک غائب ہوگیا۔
تصور میں وہ خوابناک لمحے در آئے جب میں دلہن بن کر اس گھر سے وداع ہوئی تھی۔ایک عام لڑکی طرح میںبھی اپنی بے لوث وفاؤں کے ذریعے لامتناہی خوشیوں کی سوغات بانٹنے اور آنچل میں زندگی بھر کی شادمانیاں سمیٹ لینے کی امید دل میںلے کر چلی تھی ،پر خلافِ توقع اُس گھر سے اگرکچھ ملا تو صرف بے رخی ، تحقیر ، مسلسل تڑپ ،اور بے کراں تنہائی۔
اُس گھرانے کے افراد کا رویہ اس قدرغیر معمولی ، عجیب و غریب اوربے قاعدہ ہے کہ میں آج تک اپنے آپ کواس ماحول سے ہم آہنگ نہیں کر پائی ۔وہاں انسانی جذبات کی کوئی قدرنہیں چہ جائیکہ کسی نادار ہستی کے احساسات کواہمیت ووقعت عطا ہوتی۔میںگنگ رہ جاتی جب میرا شوہر بنا کہے سنے وقت بے وقت اچانک غائب ہوجاتا ۔ تنہائی کا زخم دل پرلیے رات رات بھرتڑپتی رہتی مگر کوئی بات پوچھنے بھی نہ آتا۔فطری شرم و حیا کے مارے کسی سے استفسار کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی حتٰی کہ شوہر سے بھی نہیں۔
اسی کلفت اور انتشار کے عالم میںدیکھتے دیکھتے ایک سال نکل گیااور میں ایک عدد خوب صورت سی گول مٹول بچی کی ماں بن گئی۔ سارے رنج و افکار کو پسِ پشت ڈال کر اپنی محرومیوں کا مداوا ممتاکے آنچل میںپالینا چاہا لیکن یہ حق بھی مجھ سے زبردستی چھین لیا گیا۔
میری آنکھیں اس منظر کو بھلائے نہیں بھولتیں جب آدھی رات کواچانک میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ دائیں پہلو سے شوہراور بائیں پہلو میں سوئی ہوئی میری بچی دونوں ندارد ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اورمجھے اندازہ ہے کہ دونوں اس وقت کہاں ہونگے ۔۔۔۔۔۔ ان کے پائے جانے کے متوقع ٹھکانہ کو سوچ کر میرا دل رشک وحسد اور نفرت سے بھر گیا ہے اور دونوں پہلو جل اٹھے ہیں۔نیم روشن کمرے میں وسیع وعریض مسہری پر تنہابیٹھی ہوئی سوچتی رہ جاتی ہوں کہ آخر میرے ساتھ ہوکیا رہا ہے!اور میرا قصور کیا ہے؟ یہ ناقابلِ برداشت بے بسی اور بے کراں تنہائی کا احساس یقیناََمجھے مار ڈالے گا۔۔۔۔۔۔۔ لمبی فرانسیسی کھڑکی کے ذریعے دبیز پردوں سے چھن چھن کر آتی ہوئی جلتے بجھتے قمقموں کی روشنیاں میرے دل کی دھڑکن سے تال ملاتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔آیامیری زندگی میںکبھی سورج طلوع ہو گا! یاآس کے ٹمٹماتے ہوئے ستارے میری قسمت کے ساتھ یوں ہی آ ّنکھ مچولی کھیلتے رہیں گے ؟اچانک بچی کے رونے کی تیز آواز کانوں میں آتے ہی میں سب کچھ بھول جاتی ہوں فوراََ مسہری سے اتر کر آواز کی سمت دوڑ تے ہوئے بے تحاشا اس کمرے میں داخل ہوجاتی ہوں ۔توقع کے عین مطابق اپنی لختِ جگر اس کی دادی کے پہلو میں لیٹی ہوئی ہے۔ وہ بے خبر سو رہی ہیںاور وہ روئے جا رہی ہے۔ میں مضطرب ہو اٹھتی ہوں اور آگے بڑھ کراپنی بچی کو باہوں میں اٹھا لیتی ہوںاوراپنے سینے سے چمٹائے ہوئے آہستگی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل جاتی ہوں۔
اس خاندان میںپچھلی تین پشتوں سے صرف نرینہ اولاد ہی جنم لیتی رہی ہے۔ میری خوشدامن صاحبہ بھی پورے پانچ بیٹوں کی ماں ہیںلیکن صرف ایک کو چھوڑ باقی چار لڑکے کسی بیماری کا شکار ہوکر بچپن میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے ۔وہ برسوں سے اپنے دل میں ایک بیٹی کا ارمان لیے بیٹھی تھیں۔ پوتی کو دیکھتے ہی فوراََاٹھا کر گلے لگالیاپھر انہوں نے یکلخت فراموش کر دیا کہ وہ بچی ان کے اپنے نہیں بلکہ کسی اور کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔ صبح سے لے کر شام تک بچی کو اس طرح سینے سے لگا ئے رکھتیں جیسے وہ اس کی حقیقی ماں ہوں۔صرف دودھ پلانے کے اوقات میں اسے میرے حوالے کیا جاتا ۔ رات کوپتہ نہیں کب اسے میرے پہلو سے اٹھا لے جاتیں۔ میری بچی اپنی ماں کے بجائے دادی کے پہلو میں زیادہ پائی جانے لگی، گویا میں صرف ایک دایہ بن کر رہ گئی تھی ۔میرے ارد گرد کوئی نہیں تھا جو آگے بڑھ کراس ظلم کو روکے۔جس کشتی کا ناخدا اسے منجھدھار میں تنہا چھوڑ کر چلا گیا ہو اس بے یار و مددگار کا پرسانِ حال کون ہوسکتاہے بھلا۔
پورے گھر میںصرف ایک معمر ہستی ہے جومیرے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتی ہے۔ اس نے بچپن میں ایک گورنس کے طور پر میرے شوہر کی دیکھ بھال کی تھی۔وہ حسرت آمیز نگاہوں سے میرے چہرے کو تکتے ہوئے بولی:
’’ چلئے آج اس رازسے پردہ اٹھا ہی دوںجس کے نتیجے میں آپ کواس گھر کی بہو بننے کا اتفاق حاصل ہوگیا۔بات دراصل یہ ہے کہ شارب باباکی پسند کوئی اور ہے لیکن اسے بہو کا درجہ دے کر گھر لانا نا ممکن تھا۔شدید بحث و مباحثے کے بعد ماں اور بیٹے کے درمیان ایک سمجھوتا ہوگیا کہ دونوں آپس میںایک دوسرے کی راہ میں روڑے اٹکائے بغیر اپنی اپنی مرضی پوری کرنے کے مجاز ہونگے ،اس طرح خاندان کی ناک کٹنے سے بچ جائے گی اور غیروں کو بھی نکتہ چینی کا موقع میسر نہیں ہوگا۔ آپ سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ اپنا منصب سنبھالتے ہوئے اس خاندان کی عزت و آبرو کو برقرار رکھیں اورشارب بابااپنی جانِ جاناں کی آغوش میں اپنی کھوئی ہوئی محبت تلاشتے رہیںگے۔ بابانے بہت مشکل سے سمجھوتا کیا ہے۔‘‘
اس کی باتیں سن کر میں رنج اور حیرت کے سمندر میں ڈوب گئی۔اب پتہ چلا کہ عمداََ ایک غریب ونادار گھرانے سے بہو لانے کے پیچھے ان کاارادہ کیا تھا اور آئے دن شارب اچانک کہاں غائب ہوجاتے ہیں۔میں ایک عجیب صورتِ حال سے دوچار ہوں۔نہ شوہرمیرا اپنا ہے نہ اپنی اولاد پرمیرا بس چلتاہے۔میری بیٹی جب کبھی میری طرف راغب ہونے لگتی ہے تو اس کی دادی ڈھیر ساری مٹھائیوں اور پھلوں کا لالچ دے کر اسے اٹھا لے جاتی ہیں۔ دن بھرٹافی چوکلیٹ چباتے رہنا اس کی عادت بن چکی ہے۔ اگرمیںمنع کرتی ہوں تو رو رو کر پوراگھر سر پر اٹھا لیتی ہے۔ پھر دادی اس کے چونچلے پورے کرنے میں لگ جاتی ہیںجس کے نتیجے وہ بے حد ضدی اور خود سر ہو گئی ہے ۔مجھے اس کی بڑی فکر ہے۔
مجھے ہمیشہ اکیلے ہی مایکے جانا پڑتا ہے کیونکہ دادی اپنی پوتی کو دیکھے بغیر ایک پل بھی نہیں گزار سکتیں۔ ویسے دو ایک بار اسے اپنے ساتھ لے جانے کا خمیازہ بھگت چکی ہوں ۔ اس کے مہنگے شوق کی وجہ سے میرے اپنے ابو امی کی جان پر آفت آگئی تھی۔ ان کی پریشانی کو ملاحظہ کرکے میں نے تہیہ کرلیا کہ وہ اُسی گھر میں بھلی ہے۔
ایک دن صبح سویرے طبیعت میں کچھ گرانی سی محسوس ہوئی، پچھلے تجربے کی بنا پراندازہ ہوگیا کہ میں پھر سے ماں بننے والی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ یہ کسی کے پیار کی نشانی نہیں بلکہ حالات و حوادث کا ثمر تھا ۔ قبل اس کے کہ کوئی تاڑ جائے میں یہاں سے فرار ہو جانا چاہتی تھی کیونکہ آیا کی زبانی اس سنگین حقیقت کا پتہ چل چکا تھاکہ جب پہلی بار میری گود ہری ہوئی تھی تو اس عورت نے کافی واویلا مچایا تھاپھر کئی دنوں تک اس کی طبی جانچ پڑ تا ل اور علاج معالجے بھی چلتے رہے ۔آخر کاریہ راز افشاہوا کہ وہ ماں بننے کے قابل ہی نہیں ہے ۔پھر یہ جان کر میرے پیروں تلے زمین کھسک گئی کہ میرے شوہر نے اس کی ناکام تمناؤں کی تلافی میں اپنی ماں کی طرح اس کی بھی دیرینہ خواہش پوری کردینے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔شُدہ شُدہ جسمانی تغیر کے ساتھ ساتھ اسی فکر میںمیری ذہنی حالت بھی عجیب ہو رہی تھی۔
انجامِ کارکسی کو اصلیت بتائے بغیرچلی آئی اس اعتماد کے بل پر کہ والدین پر بارِ گراںثابت نہیں ہوؤنگی کیونکہ اتنی تعلیم یافتہ تو ہوں کہ کوئی، چھوٹی موٹی ہی سہی، نوکری کر کے اپنا اورہونے والے بچے کابوجھ اٹھانے کی متحمل ہو سکتی ہوں۔۔۔۔۔۔نہ جانے یہ میری خانماں بربادی کا افسوس تھا یا ز مانے کی نگاہوں میں رسوائی کا خوف یا پھر ان کے اپنے گھریلو مسائل کے آگے میرے مشکلات خفیف سے لگے تھے کہ میری آمد کے ازاںبعدامی کی آنکھوں میں حزن و ملال کے سائے گہرے ہو گئے تھے اور ابو کے کندھے کچھ اور جھک گئے تھے۔ مجھے ادراک ہونے لگا کہ میرے نا مسا عد حالات کی اصلاح کرنا ان کی دسترس سے باہر ہے اورمجھے یہاں آئے ہوئے اتنے دن گزرجانے کے باوجود ابھی تک میری حیثیت ایک مہمان کی ہے ۔۔۔۔۔۔ خدارا !کوئی مجھے بتائے کہ یہ کیسا دستور ہے !جہاں پیداہوئی ،پلی، بڑھی وہ آنگن میرے لیے اس قدر بیگانہ کیوںہے؟
اچانک زائرہ نے کسمسا کر کروٹ بدلی تو احساس ہوا کہ وقت کافی گزر چکاہے۔کھڑکی سے باہر نظر ڈالی تودیکھا کہ افق پر پو پھٹنے کے آثار نمودار ہو چکے ہیں۔بند پلکوں میں مستقبل کے حسین خواب سمیٹے زائرہ سوتے میں کس قدر معصوم لگ رہی ہے۔خواب جو کانچ کے نازک آبگینوں کے مانندہوتے ہیںذرا سی ٹھیس بھی برداشت نہیں کر پاتے۔
میری غیر موجودگی میں خالہ نے زائرہ کو علیم کے لیے مانگ لیا تھا۔اس بار وہ ولایت سے لوٹا تومجھے دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک جاگ اٹھی اور میں اس کی باوقار شخصیت سے مرعوب ہوگئی۔اس کی گرمی نظر کی تپش نے مجھے پگھلا دیااور چند لمحوں کے لیے میںسب کچھ فراموش کر کے دورِ ماضی کی حسین اور رومان پروریادوں میں کھو گئی۔علیم نے بھی اس امر کو یکسر بھلادیاکہ کوئی ہے جس نے اس کے لیے گن گن کرہجر کے لمحات گزارے ہیں اور بے چینی کے ساتھ اس کی نظرِ التفات کی متمنی ہے۔ میں نے غورکیا کہ اس طرح نظر انداز کیے جانے پر زائرہ کی آنکھوں میں جلتے ہوئے انتظار کے دیئے مدھم پڑگئے ہیں شرم و حیا کی لالی میں ڈوبا اس کا معصوم چہرہ بجھ کر رہ گیاہے ۔
میںاپنی بہن کو اس عذاب میں مبتلا کیسے دیکھ سکتی ہوں بھلاجبکہ اس کے دردو عُمق کو مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے ۔میں نے اپنی سسرال فون کردیاہے ۔۔۔۔۔ اس فیصلے کے پیچھے میر ا تجاہلِ عارفانہ کارفرماہے کہ اپنوں کے لیے ڈھیر سارے مسائل کا سر چشمہ ثابت ہونے کے بجائے صبر کا تلخ گھونٹ پی جانا بہتر ہے ۔ کہتے ہیں حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے عین ممکن ہے کہ میری زندگی میں براجمان تلخی کو میرا صبر و تحمل امرت میں تبدیل کردے۔
صرف ایک گھنٹے کے اندر اندرشوفر سمیت ایک لمبی سی گاڑی دروازے پر آکر کھڑی ہو گئی ہے۔ میرے اقدام پر ابو اور امی کی آنسوؤں سے لبریز آنکھوں میں چین و اطمینان کے سائے اورمیری آنکھوں میں میرے دیرینہ رفیق ۔۔۔۔۔میرے آنسو پھر سے لوٹ آئے ہیں۔
موبائل: 9742345786
اُدیاگری، میسور(کرناٹک)