وہ تو آکر چلے بھی گئے ۔ اور آئے بھی تو بقول ان کے کھلے دل سے آئے ۔کون جانے پہلے والے جو آتے تھے وہ دل بند، دماغ بند، سوچ بند حتیٰ کہ مٹھیاں بھی بند کرکے کہ کہیں کسی سے ہاتھ نہ ملانا پڑے تو ٹنل پار بھکت سمجھیں گے کہ بس اہل کشمیر کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھائی اس لئے اگلے الیکشن میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔خیر ملک کشمیر میں لیڈران سے ملے ۔بات چیت کی، مسلٔہ کشمیر پر گفتگو کی ۔نشستند، گفتند ،خوردن وہ برخاستند سے لطف اندوز ہوئے اور جاتے جاتے اہل کشمیر کو دھمکی دیکر نکلے کہ تمہارے احساسات کا بھر پور لحاظ رکھا جائے گا۔کوئی تمہاری دل آزاری نہیں کر سکتا ۔اپنے یہاں تو صدیوں سے پیار بھی دھمکی کے ساتھ ہی کیا جاتا ہے۔کبھی عزت و آبرو کی دھمکی، کبھی ۳۷۰ قائم رکھنے کی دھمکی، کبھی نیا کشمیر بنانے کی دھمکی۔خیر جموں پہنچ کر بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلٔہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے ۔ہم عدالت کے احکام ماننے والے ہیں۔مطلب لیڈران کشمیر کے ساتھ قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہوئے کچھ نہ کچھ کشمیری انفکشن کے شکار ضرور ہوگئے، اسی لئے کشمیر میں ایک بات کر ڈالی اور جموں میں دوسری ۔بھلا وہ اپنی سیاست ہمیں کیا سکھائیں گے اپنے تو ہل والے اور قلم دوات کے پجاری کب سے یہ کھیل کھیل رہے ہیں ۔انہوں نے سبز کپڑے اور کوہستانی نمک سے سیاست کھیلی ہے اور پھر گولی اور بولی سے بھی سیلف رول کی داستان لکھ ڈالی ۔ بھارت ورش کے وزیر داخلہ وارد ملک کشمیر ہوئے اور مختصر دورہ نہیں بلکہ پورے چار دن ،لگتا تھا راجناتھ کھلی ہوا میں سانس لینے آئے کہ وزارت چھن جانے کا ڈر دل سے نکل گیا اور وہ جو ادھر ادھر کی باتیں ہورہی تھیں کہ امت شاہ وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالیں گے اور راجناتھ کو وزارت جنگ ملے گے ۔وزارت دفاع اب کہاں رہی کہ رو ز ہی جنگ کا سماں نظر آتا ہے۔سرحدوں پر تابڑ توڑ حملے اور سفارت خانوں میں ہلچل۔اخباری بیانات کے میزایل داغے جا رہے ہیں کہ پہلے تم نے شروع کیا پہلے تم نے گولے داغے پھر ہم نے جواب فائرنگ کی، یعنی اگر بندوقیں خاموش بھی ہوں پھر بھی بیان بازی کے ترکش ہلچل میں ہیں۔ اگر یہ بھی نہیں پھر ٹی وی اسٹیڈیو میں لفاظی جنگ عروج پر ہے۔صحافی او ر تجزیہ نگار زبانی بم چلا رہے ہیں ۔کافی کی مگیں دکھا کر اپنی اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔گرم کافی کو نیوکلیائی پانی جتا رہے ہیں۔شیشے کے مگ لمبی دوری کے میزیل گردانتے ہیں ۔ اور کچھ نہ بنا تو گالی گلوچ سے کام لے رہے ہیں، جسے کشمیری میں پام پام کہتے ہیں۔اسی بھاگم بھاگ میں وزیر داخلہ جوکشمیر پہنچے تو کشمیر کو پھر جنت بنانے کا وعدہ کر بیٹھے ۔واہ کیا بات ہے جنت بے نظیر کی ۔ ہو نہ ہو ان کا جنت کا تصور اور ہے۔ویسے جنت میں تو وہی لوگ جائیں گے جو اس دنیا سے کوچ کر جائیں۔کیا پتہ اس دنیا کو ہی جنت بنانے کا خیال ان کا یہی ہو کہ کسی کو زندہ نہ رکھیں جبھی تو ملک کشمیر میں جنت کا نظارہ ہوگا جس میں کوئی زندہ ہی نہ بچے۔راجناتھ نے نئے پنچ شیل یعنی 5C کا اعلان کردیا۔مانا کہ بھارت چین پنچ شیل اب پرانا ہوگیا اور چینی مال اور وعدوں کی کوئی گارنٹی اس لئے ملک کشمیر میں نیا پنچ شیل متعارف ہوا کہ ہتھیاروں اور وعدہ خلافیوں کا ٹیسٹ کرنے کی تجزیہ گاہ کشمیر ہی ہے۔ شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس حکام کے لئے بلٹ پروف گاڑیاں اور جیکٹ فراہم کرنے کا اعلان کردیا ۔اس اعلان میں شفقت کوٹ کوٹ کر بھری ہے کہ کہیں انہیں سنگباری سے کوئی زخم نہ آئے بھلے وہ پیلٹ کے ذریعے لوگوں کو اندھا ہی کیوں نہ کردیں یا عام لوگوں کو راجناتھ کی نئی جنت میں پہنچا دیں۔ روابط قائم رکھنے کی بات کر دی۔وہ جو رابطہ کار پہلے سے رپورٹ تحریر کر گئے اسے داخل دفتر کر دیا، اب وہ ہوم منسٹری کی الماریوں میں دھول کے سبب پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا ہے اور سانس لینے کے لئے مصنوعی آکسیجن کی دہائی دے رہا ہے۔راجناتھ کی رابط کاری کے ہر ایک پہلو میں بشری حقوق کی خلاف ورزی کے بعد تحقیقات کرانے کا عنصر قائم ہے۔بقائے باہم کا یقین دلایا جس میں منظور خان فوجی کیمپ کے اندر جاکر واپس نہ پہنچے اور اس جیسے انسان ملک عدم سنوارے۔ اعتماد سازی کا بھروسہ دیا کہ جو کچھ سرکاری کارندے اور سیاست کار کہہ دیں اس پر آنکھیں موند کر اعتماد کیا جائے۔ اور مستقل مزاجی سے کام کرنے کی تلقین کی۔کسے نہیں معلوم کنول والے مستقل مزاجی سے اس کام میں لگے ہیں کہ ہندوستان بھر میں خوف کا ماحول بنا رہے، بھکت جن اپنی مرضی سے جسے چاہیں مار ڈالیں بھلے وہ جرنلسٹ گوری لنکیش ہو یا پہلو خان۔ اور پھر اپنی پولیس تو بھکت جنوں کو پہچانتی بھی نہیں اگر وہ ویڈیو میں دکھائی دیں ۔ایسے میں انہیں بالکل معصوم قرار دینا اور ان کے خلاف کیس فائل بند کرنا آسان ہوتا ہے جبھی تو سیاست گرم رہتی ہے ، لوگ ڈر کے مارے بھاجپا کا ساتھ دیتے ہیں ۔اور جب گرما گرم سیاست اور دل جلانے والی شدت پسندی سامنے ہو تو عتاب کا شکار روہنگیا مسلمان دہشت گرد دکھائی دیتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی ہندو پناہ گزین اور مغربی پاکستان کے جموں مقیم شرناتھی امن پسند اور جمہوریت نواز دکھتے ہیں۔ کشمیری صحافی کامران یوسف بھی سنگبازی کرتے نظر آتا ہے۔یہ جرنلسٹ بھی کیا چیز ہیں کہ ہاتھ میں غلیل نہیں بلکہ کیمرہ سے وہ کام لیتے ہیں۔ان کے کیمروں کی آنکھوں سے فلیش نہیں سنگ برستے ہیں یعنی وہ قتل بھی کرتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔ اس کشمیری زیرک کا میں ہاتھ چومنا چاہتا ہوں جس نے یہ کہا ’’کھونتی لَدَس چھُ کھونت پَتَے‘‘(زخمی کو اور زخم لگنے کا خطرہ موجود رہتا ہے)۔جبھی تو ہزاروں میں مارے کاٹے روہنگیا کے دو لوگ بنگلہ دیش میں بد مست ہاتھیوں کے حملوں کا شکار ہوکر مارے گئے۔لگتا ہے بودھ دہشت گردوں کے ساتھ وحشی ہاتھی بھی آنگ سان سوچی کے بھکت ہیں۔اور کوئی امن کے نوبل انعام کی بے عزتی کرنا بلکہ اس کے چیتھڑے اڑانا سوچی سے سیکھے کہ بقول اس کے عالمی سرزنش سے وہ نہیں ڈرتی کیونکہ پچاس فیصد روہنگیا گائوں بالکل محفوظ ہیں ۔یعنی آدھی آبادی اگر ماری بھی گئی، بچے دریائوں میں پھینکے، عورتوں کی عصمت دری کی گئی تو کوئی گناہ نہیں کیا ۔بھلا پچاس فیصد گائوں جب محفوظ ہوں تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی چہ معنی دارد۔پھر بھی اگر کچھ الزام بنتا ہے تو وہ ہر قسم کے بشری حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف ہے۔ اور جب مسلم دشمنی کی بات چلے تو گجرات فسادات کے پندرہ سال بعد ملزم ٹھہری مایا کوڈنانی امیت شاکو فسادات کے دوران نرودہ گام میں دکھائی ہی نہ دی۔ شاید اس دھمکی کا اثر ہے کہ کوڈنانی سبوں کا پول کھول دے گی۔ گبر سنگھ نے کیا خوب کہا تھا کیا سمجھ کر آئے تھے کہ سردار بہت خوش ہوگا شاباشی دے گا کیوں؟
کشمیر دوروں کایہ حال دیکھ کر بھارت ورش کے سابق بے زبان وزیر اعظم بھی ترنگ میں آگئے ۔لوگ کہتے ہیں کہ سنگھ صاحب معاشیات کے درندر سپاہی ہیں کہ ان کی ہی کوششوں سے کبھی بھارتی معیشت لڑھکنے سے بچ گئی ۔ہم تو ان پڑھ لوگ ہیں ۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہم کیا جانیں۔ہماری نظروں میں وہ بے زبان ایسے ہیںکہ ان کے چہرے پر جتنی بار نظر ڈالو لگتا ہے کہ نیا نیا کاروبار شروع کیا تھا لیکن اس میں اتنا نقصان ہوا کہ بھرپائی کرنا ممکن نہیں۔شاید انہوں نے سوچا کہ چلو ابھی دلی میں کوئی کام نہیں کیوں نہ اہل کشمیر کا دل بہلایا جائے۔ایک ٹیم لیکر ملک کشمیر پدھارے۔
بیکار مباش کچھ کیا کر
کچھ نہیں تو کشمیر کا بھروسہ توڑا کر
اپنی سرکار میں کچھ نہیں کیا
اب مودی پر ہی الزام دھرا کر
خود تو وہ کم بولتے ہیں ،اپنے حواریوں کو کھلی چھوٹ دی کہ بولو اور اس قدر بولو کہ اہل کشمیر خوش ہوجائیں اور ونہ ون ، روف اورڈفلی کا اہتمام کردیں ۔پھر ان کے حواری بولے کہ کنول ،قلم دوات والوں نے تو یہاں لٹیا ہی ڈبو دی ۔ ہم بھی سیدھے سادھے وہ لٹیا ڈھونڈنے نکلے جو پنجہ مار کر ہاتھ والوں نے سیدھی کھڑی کر دی تھی۔بھلا کون بھلا سکتا کہ اہل وطن کی اجتماعی تشفی کے لئے افضل گورو کو پھانسی دلوائی اور ملک کشمیر میں از سر نو ملی ٹینسی کو ہوا دینے کے لئے سیاسی چھاج ہلائے ؎
وہ آیا بزم میں دیکھو نہ کہیو پھر کہ غافل تھے
ہم نے درد اپنا سنا یا وہ ہوں کرکے چلے گئے
ادھر بھارت ورش کے لیڈران وارد کشمیر ہوئے ادھر بانوئے کشمیر اس مخمصے میں پڑیں کہ کہیں میر صاحب آف دہرن،قرہ صاحب آف بٹہ مالو اور میر صاحب آف لسجن نئی کچھڑی پکا کر اور نت نئی تگڑی بنا کر کانگریس پارٹی کے لئے ہاتھوں ہاتھ پنجوں کی بھر مار نہ کردیں جو بعد میں دوات الٹ دیں اور قلم کو ناڑا کھینچنے کے کام میں لائیں ،یوں مفتی اینڈ کو کا سرکار چلانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو ۔بس پھر کیا تھا بانوے کشمیر پلوامہ ضلعی ہیڈ کوارٹر پہنچی ۔پورے قصبوں اور آس پاس گائوںمیں کرفیوجیسی صورت حال سے گھروں کو قید خانہ بنا ڈالا ۔سرکاری سرکٹ ہائوس میں حاضری لگوائی ۔کسی کی درخواست پر نِکا تہ کہیں بڑا دستخط کردیا ، کسی جگہ ٹرانسفارمر لگوانے کی ہدایت دی اور کہیں سڑکوں کو کالا کرنے کا حکم صادر کردیا ۔ معصوم لوگ پھولے نہ سمائے کہ ان کا کام ہوگیا یہ اور بات کہ کوئی بھی کام نہ کرنے کا ریڈی میڈ بہانہ موجود ہے کہ دیکھیے کام کروانے کے لئے امن کی ضرورت ہے ۔اس ہاتھ امن دو اس ہاتھ ترقی لو ۔درخواست دینے والے حیران کہ امن کہاں ملتا ہے؟ ہم پشتینی زمین بیچ کر اس کے بدلے امن خرید کر بانوئے کشمیر کے ہاتھ رکھ دیں ۔اور امن کشمیر کی گونج پلوامہ سے کرناہ تک جا پہنچی۔پھر تو ارباب اختیار یعنی پولیس افسران اور مجسٹریٹ صاحبان سے درخواست گزاری کی گئی کہ لوگوں سے نمٹتے وقت عزت سے پیش آیا جائے۔اہل کشمیر تو کنگن سے کرناہ تک چپ سادھے بیٹھے ہیں،ان بے چاروں کو کیا معلوم کہ امن درہم کرنے کا ٹھیکہ بھی اہل سیاست نے لے رکھا ہے کہ اس دوران کوئی یہ سوال کر ہی نہیں سکتا کہ ترقی کی رفتار کہاں گئی۔ کس گلی کوچے میں موت کے گھاٹ اتاری گئی ،کس چوک میں پیلٹ کا شکار ہو کر بینائی سے محروم ہو گئی یا کس زندان میں پی ایس سی کے ماہ و سال کاٹ رہی ہے۔یا کس بے نام قبر میں بغیر شناختی کارڑ آسودہ ہے ؎
یہ ہوس ہے یا محبت کہ بھٹک رہا ہے بھنورا
کبھی اس کلی کے پیچھے کبھی اس کلی کے پیچھے
……………………………..
رابط[email protected]/9419009169