ایجنسیز
نئی دہلی// ہندوستان میں جعلی خبروں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ اس سے نمٹنے کے لیے مقامی قانونی فریم ورک تیار کرنے پر کام کر رہی ہے۔انڈین اسکول آف بزنس(آئی ایس بی) اور سائبر پیس کے ذریعہ کی گئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا غلط معلومات کے بنیادی ویکٹر کے طور پر ابھرنے کے ساتھ، ملک میں جعلی خبریںسے خدشات بڑھ رہے ہیں۔یہ تحقیق، صارف کے رویے اور تاثرات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، غلط معلومات کے پھیلائو اور ہندوستانی معاشرے کے مختلف طبقات پر اس کے اثرات کے بارے میں اہم بصیرت فراہم کرتی ہے۔اس تحقیق میں جعلی خبروں کی کافی تعداد کا تجزیہ کیا گیا ہے، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ سیاسی جعلی خبروں کا سب سے اہم حصہ (46 فیصد)ہے، اس کے بعد عام مسائل (33.6 فیصد)اور مذہب (16.8 فیصد)ہیں۔ یہ تینوں زمرے ہی تجزیہ کیے گئے کل جعلی خبروں کے 94 فیصد واقعات کا حصہ ہیں۔سوشل میڈیا پلیٹ فارمز غلط معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں، جو 77.4 فیصد کیسز کے لیے ذمہ دار ہیں جب کہ صرف 23 فیصد کیسز مین اسٹریم میڈیا سے آتے ہیں۔ ٹویٹر (61 فیصد)اور فیس بک (34 فیصد)کی شناخت جعلی خبریں پھیلانے کے لیے سرفہرست پلیٹ فارمز کے طور پر کی گئی ہے۔سائبر پیس کے عالمی صدر اور بانی میجر ونیت کمارنے کہا”جعلی خبروں اور غلط معلومات کے خلاف جنگ کے لیے اجتماعی کارروائی کی ضرورت ہے۔ اگرچہ حکومتوں اور تنظیموں کو محفوظ ماحولیاتی نظام بنانے میں پیش پیش ہونا چاہیے، انفرادی ذمہ داری بھی اتنی ہی اہم ہے۔ سائبر پیس ان بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے بیداری، تعاون اور اختراع کو فروغ دے کر محفوظ اور لچکدار ڈیجیٹل جگہیں بنانے کے لیے پرعزم ہے،” ۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ISB انسٹی ٹیوٹ آف ڈیٹا سائنس پروفیسر منیش گنگوار نے کہا”یہ مطالعہ غلط معلومات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے، ہمیں صرف تکنیکی حل پر نہیں بلکہ میڈیا کی خواندگی کو بڑھانے، رپورٹنگ کے طریقہ کار کو بہتر بنانے، اور ذمہ دار آن لائن رویے کو فروغ دینے پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے،” ۔