تاریخ بنی نوع انسانی میں صرف اور صرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات حمیدہ صفات کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپؐ کی پیغمبرانہ زندگی کاہر پہلو خواہ وہ انفرادی ہو، خانگی ہو، اجتماعی ہو ، سیاسی ہو، معاشرتی وغیرہم ہو ،وہ تاریخ کے سینے میں محفوظ ہے ۔ سیرت رسول خدا ؐ نہ صرف مسلمانان عالم کے لئے مشعل راہ ہے بلکہ اغیار کے لئے بھی مینارۂ ہدایت ہے ۔ جس تعداد میں مسلمانوں نے سیرت احمد مختارؐ پر قلم اٹھایا اور کتابوں سے کتب خانے بھر دئے، ٹھیک اسی طرح بے شمار غیر مسلم مصنفین ومستشرقین نے بھی اس میدان میںاپنی تصانیف چھو ڑی ہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں وقت کے تقاضے کے عین مطابق سیرت نبویہؐ قلم بند کی گئی۔ سیرت نگاری کے امام اول ابن اسحاق رضی اللہ عنہ کی’السیرۃ النبویۃ‘ حالات وواقعات پر روشنی ڈالتی ہے ۔ انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ابن ہشام نے بھی ’السیرۃ النبویۃ‘ لکھی ،جو اول الذکر کتاب کی توضیح وتشریح بیان کہلاتی ہے ۔ ابن سعد کی’ الطبقات الکبری‘ میں نبی ؐ کے نسب مع ولادت پاک سے وصال کی آخری گھڑی تک پیش آنے والے ہر واقعہ کی تفصیل موجود ہے ۔ امام بیہقی اور ابو نعیم کی ’الدلائل النبوۃ ‘واقعات سیرت اور معجزات پر مبنی ہے ۔ مزید برآں ’الروض الانف‘ سیرت ابن ہشام کی شرح ہے ۔علاوہ ازیں ابن عساکر کی’ السیرۃ النبویۃ‘، مقریزی کی’ امتاع الأسماع ‘، صالحی کی’ سبل الہدی والرشاد‘ اور حلبی کی ’انسان العیون فی سیرۃ الأمین والمأمون‘ میں واقعات کی تفصیل کے ساتھ ساتھ شمائل اور خصائص کا بیان بھی ہے۔ ابن کثیر کی ’السیرۃ النبویۃ‘ تاریخی واقعات کا بیان ہے ۔ قسطلانی کی’ المواہب اللدنیۃ‘ اور زرقانی کی ’شرح المواہب اللدنیۃ‘ خصائص و مناقب پر مشتمل ہیں۔’ الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰؐ‘ میں بھی فضائل وشمائل بیان کئے گئے ہیں۔ ’حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین‘ میں معجزات کا بیان ہے۔ کچھ عرصہ قبل عالم عرب میں سیرت پرایک ضخیم کتاب بنام ’الجامع فی السیرۃ النبویۃ‘ شائع ہوئی ہے جسے سیرت پر موجود تمام کتابوں کا انتخاب کہا جاسکتا ہے۔ سرزمین ہندوستان پر سیرت پاک پر اردو میں لکھی جانے والی سب سے ضخیم کتاب سیرۃ النبی ؐ ہے جو علامہ شبلی نعمانی کی تصنیف کردہ ہے۔
تاریخ سیرت نگاری پر اس طائرانہ نظر دوڑانے سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ ان تمام کتابوں میں بس نبی اکرمؐ کے احوال وواقعات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جب کہ موجودہ دور کا تقاضہ ہے کہ سیرت رسول ؐ کی جہات کو وسیع سے وسیع تر بنایا جائے ۔ موجودہ دور میں اسلام کو احیا، اصلاح معاشرہ اور حصول غلبہ وتمکن کا چیلینج ہے پس ان مقاصد کی حصولیابی کے لئے مذکورہ کتب سیر کی طرح نہ صرف واقعات وحالات تک ہی محدود رکھا جائے بلکہ سیرت کے ایک ایک پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے موجودہ دور کے در پیش مسائل کا سامنا کرنے کی سبیل تلاش کی جائے۔ دور جدید میں سائنس کی ترقی نے بھی علوم میں نئے ابواب کا اضافہ کیا ہے لہذا اس امر کو خانئہ ذہن میں رکھتے ہو ئے سیرت نبویہ کے انمول گوشوں کو سائنس کے تناظر میں بھی منشا شہود پر لایا جانا چاہئے۔
سیرت رسول ؐ سے انحراف کا مسئلہ پچھلے دو تین صدیوں میں زور پکڑتا چلا گیااور نتیجہ یہ ہوا کہ آج امت مسلمہ کی انفرادی ، سماجی ، قومی اور بین الاقوامی سطح پر وہ وقعت اور وقار مجروح ہوگیا ہے جوسیرت رسولؐکے فیضان سے قائم ودائم تھی اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہم دوسری قوموں کو اپنے نبی کی سیرت کما حقہ بتانے تک کی سکت نہیں رکھتے ۔ سیرت رسول عربی ؐ کو فراموش کرنے کی صورت میں جن نقصانات سے امت مسلمہ دوچار ہے وہ یہ ہیں:(۱) امت مسلمہ کے عقائد اوہام کی صورت اختیار کرتے چلے گئے اور اعمال مجرد رسموں میں تبدیل ہوتے چلے گئے ۔(۲) مذہب کی ڈور سماجی زندگی سے کٹ گئی اور اعمال کی انجام دہی اصلاح معاشرہ کے تصور سے ہٹ کر مذہبی زندگی کو ناقص الجہت کرگئی۔(۳)سلطنت اسلامیہ کے زوال کے بعد جب ہر طرف باطل قوتوں کو غالب ہوا اور مسلمانوں کی ہوا اُکھڑ گئی ۔
ان تمام خرابیوں کے ازالے کے بارے میں اگر ان کے اسباب تک رسائی حاصل کی جائے اور ان اسباب کو سیرت نبی ؐ کی روشنی میں ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو خود بحود عالم اسلام سے تمام خرابیاں یک کے بعد دیگرے مٹتی چلی جائیں گی۔اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ بعثت سرکاردوعالم ؐ سے قبل عربستان برائیوں کا آماجگاہ بناہواتھا ۔ رسول خدا ؐ کے فیضانِ نظر کا کمال تھا کہ دنیا کی سب سے زیادہ بگڑی ہو ئی قوم کو ایسا بدلا کہ رہزنی چھوڑکر سب کے سب رہبر بن گئے۔ اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہوا پاکستان کا عظیم شاعر ساغر’ صدیقی گویا ہوتا ہے ؎
جس طرف چشم محمدؐ کے اشارے ہوگئے
جتنے ذرے سامنے آئے ستارے ہوگئے
وقت آگیا ہے کہ جب ہم اپنی آنکھوں سے غفلت کا پردہ اٹھائیں اوراپنی زندگیوں کو سیرت رسول ؐ کے تاباں سانچوں میں ڈھا لیں۔ اگر یہ بتوفیق ربِ جلیل ہوا تو یقین جانئے کامیابی ہماری ہم سفر بن جائے گی ؎
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
…………………….
رابطہ : ریسرچ اسکالر ‘دارالہدی اسلامک یونیورسٹی، کیرلہ
7356075156,9619227010