اِکز اقبال
زندگی کی تلخ حقیقتوں سے جو بچ نکلا، جو سکون کی نیند سوگیا، درحقیقت وہی خوش نصیب ٹھہرا۔ اس دنیا میں جاگنے والے سب سے زیادہ بدقسمت ہیں، کیونکہ ان کی آنکھوں کے سامنے سچائی ناچتی رہتی ہے، مگر وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ نیند ایک ایسا انعام ہے جو انہی کو ملتی ہے جو یا تو دنیا کے بکھیڑوں سے آزاد ہو چکے ہیں یا پھر اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ حقیقتوں کی چیخ و پکار ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔
جاگنے والا ہر شخص ایک نئے درد، ایک نئی اذیت اور ایک نئے دھوکے کا سامنا کرتا ہے۔ کوئی مہنگائی کے ہاتھوں رو رہا ہے، کوئی انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے، کوئی اپنوں کے رویے پر کڑھ رہا ہے، تو کوئی معاشرتی نظام کے ہاتھوں بے بس ہو کر زندگی سے نالاں ہے۔ ایسے میں جو شخص نیند کی آغوش میں چلا جائے، وہ یقینا ًخوش نصیب ہے۔ اسے نہ بے روزگاری کا دُکھ ستائے گا، نہ رشتوں کے دغا دینے کا غم ہوگا، نہ ہی زندگی کے بے ہنگم اور ظالم اصولوں سے اُلجھنا پڑے گا۔
یہاں پر ایک اور نکتہ قابل غور ہے۔ کچھ لوگ جاگنے کے باوجود نیند میں رہنے کی اداکاری کرتے ہیں۔ انہیں سب کچھ نظر آ رہا ہوتا ہے، مگر وہ آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ انہیں ہر ظلم، ہر زیادتی، ہر ناانصافی معلوم ہوتی ہے، مگر وہ لب نہیں کھولتے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اس دنیا میں’’کامیاب‘‘ کہلاتے ہیں۔ انہیں حکمرانی کا تاج پہنایا جاتا ہے، انہیں سونے کے برتنوں میں کھانے کو ملتا ہے اور انہیں عزت و وقار کی سند عطا کی جاتی ہے۔ ان کے لیے یہی نیند خوش نصیبی ہے۔ کیونکہ وہ جاگ کر بھی جاگنے کی اذیت نہیں جھیلتے، بلکہ ہر سچ کو نظرانداز کرکے اپنے مفادات کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔
یہ کیسا المیہ ہے کہ ایک طرف بادشاہ سونے کے بستر پر نیند کو ترستا ہے، تو دوسری طرف ایک مزدور پتھر کے فرش پر لیٹ کر بھی خوابوں میں کھو جاتا ہے۔ اصل خوش نصیب وہی ہے جسے نیند نصیب ہو۔ وہ بادشاہ ہو یا فقیر، اگر وہ نیند کی دولت سے مالامال ہے، تو سمجھو وہ دنیا کی سب سے بڑی نعمت سے نوازا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ نیند کہاں میسر ہے؟ جس شخص پر قرض کا بوجھ ہو، وہ کیسے چین کی نیند سو سکتا ہے؟ جس کا بچہ بھوکا ہو، جس کی بہن جہیز کے انتظار میں بیٹھی ہو، جس کی زمین پر قبضہ ہو چکا ہو، وہ کیسے نیند کو گلے لگا سکتا ہے؟ یہی تو وجہ ہے کہ غریب کی نیند بھی ایک دن چوری ہو جاتی ہے اور پھر وہ ایک جاگتی لاش بن کر زندگی کا بوجھ ڈھوتا رہتا ہے۔
نیند اور لاش میں محض ایک سانس کا فرق ہوتا ہے۔ جو مکمل سو گیا، وہ ہمیشہ کے لیے سستا گیا اور جو جاگ رہا ہے، وہ اصل میں روز مرتا اور روز جیتا ہے۔ ہر نئی صبح اس کے لیے ایک نیا عذاب لے کر آتی ہے۔ جو شخص خوابوں میں مگن رہتا ہے، وہی خوش نصیب ہے، کیونکہ خواب میں نہ مہنگائی ہوتی ہے، نہ دھوکہ، نہ سیاست، نہ غربت۔ مگر جب آنکھ کھلتی ہے، تو وہی پرانے درد، وہی پرانے مسائل، وہی پرانی محرومیاں انسان کا منہ چڑاتی ہیں۔
یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک طرف حکمران چین کی نیند سوتے ہیں اور دوسری طرف عوام راتوں کو جاگ کر اپنے مستقبل کی فکر میں ہلکان ہو جاتے ہیں؟ عوام کے مقدر میں صرف جاگنا لکھا گیا ہے، جبکہ حکمرانوں کے لیے نیند کا ہر سامان مہیا کیا گیا ہے۔ غریب کی نیند کا سب سے بڑا دشمن اس کے وہ خواب ہیں جو دن کی روشنی میں اسے جینے نہیں دیتے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ خواب دیکھنے پر بھی پابندی لگ چکی ہے، کیونکہ خواب دیکھنے کے لیے بھی وسائل درکار ہوتے ہیں اور وہ وسائل صرف ان کے پاس ہیں جو پہلے ہی خوش نصیب ہیں۔
جاگنے والوں نے ہمیشہ نقصان ہی اٹھایا ہے۔ جو جاگ گیا، وہ حقیقتوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اسے سب کچھ نظر آنے لگا اور پھر وہ یا تو پاگل ہوگیا، یا پھر باغی۔ جو سوتا رہا، وہ سب کچھ پا گیا،امن، سکون اور کامیابی۔ اس لیے دنیا کا اصول یہی ہے کہ یا تو سو جاؤ یا پھر اپنے جاگنے کی قیمت چکانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ یہاں جو جتنا زیادہ سوچتا ہے، وہ اتنا ہی زیادہ پریشان رہتا ہے اور جو جتنا زیادہ پریشان رہتا ہے، اس کی نیند اتنی ہی زیادہ چھِن جاتی ہے۔
حقیقی خوش نصیب وہ ہے جسے نیند آجائے،وہ نیند جو اسے ہر پریشانی، ہر دکھ، ہر فریب سے بچا لے جائے۔ چاہے وہ نیند لاش کی ہو، یا بے حسی کی، چاہے وہ نیند غفلت کی ہو، یا فطری سکون کی، اگر نیند نصیب ہوگئی، تو سمجھو کامیابی مل گئی۔ جو نیند سے محروم رہا، وہی سب سے زیادہ بدنصیب ہے۔
لہٰذا اگر آپ کو نیند آ رہی ہے، تو شکر ادا کریں، کیونکہ یہ انعام سب کو نہیں ملتا اور اگر نیند نہیں آ رہی، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ان بدنصیب لوگوں میں شامل ہیں جو جاگنے کے عذاب سے گزر رہے ہیں۔ دنیا میں دو ہی قسم کے لوگ کامیاب ہیں: وہ جو ہر حقیقت سے بے خبر سوجاتے ہیںاور وہ جو ہر حقیقت کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی سونے کا ڈرامہ کرتے ہیں۔ باقی سب صرف تماشائی ہیں، جو جاگ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے اور نہ سونے کی اجازت رکھتے ہیں۔
(مضمون نگار مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورا قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)
رابطہ؛ 7006857283
[email protected]