عطیہ دینے کا رجحان نہیں،علمائے دین کو آگے کی اشد ضرورت:ڈاکٹر سلیم وانی
پرویز احمد
سرینگر //بھارت میں ہر سال 1لاکھ 50ہزار لوگوں کو گردوں کی پیوندکاری کی ضرورت ہے اور صرف 3ہزار لوگ ہی وہ خوش نصیب ہوتے ہیں جن کی گردوں کی پوندکاری ممکن ہورہی ہے ۔جموں و کشمیر میں بھی صورتحال یہی ہے۔ سٹیٹ آرگن ٹشو ٹرانسپلانٹ آرگنازیشن کے اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں ابتک 735افراد کے گردے اور 332 کے کارنیا ٹرانسپلانٹ کئے گئے ہیں۔ سوٹو کے کارڈنیٹر ڈاکٹر عرفان احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سکمز صورہ میں 698، جی ایم سی جموں میں29 اور جی ایم سی سرینگر میں 8مریضوں کے گردوں کی پیوندکاری کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سال 2019میں سوٹو کے وجود میں آنے کے بعد 332افراد کے آنکھوں کے کارنیا کو تبدیل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان میں جی ایم سی سرینگر میں252اور جی ایم سی جموں میں 80 مریضوں کے آنکھوں کی کارنیا کو تبدیل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عرفان نے بتایا کہ جی ایم سی سرینگر اور جموں کے کارنیا کی تبدیلی میں بڑی فرق یہ ہے کہ جی ایم سی جموں مقامی لوگوں کی جانب سے عطیہ کی گئی آنکھوں کی پیوندکاری کرتا ہے جبکہ جی ایم سی سرینگر کے شعب امراض چشم ،بیرون ریاستوں کے ہسپتالوں کی جانب سے بھیجی گئی آنکھوں پرمنحصر ہے اور بیرون ریاستوں سے کارنیا آنے کے بعد ہی یہاں ہر ماہ 3مریضوں کے آنکھوں کی پیوندکاری ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ جموں میں کچھ نجی اداروں میں بھی اعضاء کی پیوندکاری ہوتی ہے۔وادی میں گردوں کے ماہر ڈاکٹر محمد سلیم وانی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ہر سال 1لاکھ 50ہزار لوگوں کو بھارت میں گردے درکار ہوتے ہیں اور صرف 3ہزار مریضوں کی پیوندکاری ہو پاتی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ کے لوگ نہ تو زندہ اپنے گردے عطیہ کرتے ہیں اور نہ ہی مرنے کے بعد عطیہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلڈ پریشر اور بلڈ شوگر مریضوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ساتھ صورتحال سنگین ہورہی ہے کیونکہ لوگ Cadavarٹرانسپلانٹ نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مردہ شخص کے اعضاء کا عطیہ کرنے سے ہم 7لوگوں کی جان بچاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ لوگوں میں اس حوالے سے جانکاری کافی کم ہے اور لوگوں میں جانکاری بڑھانے کیلئے تمام مذاہب کے علماء کو آگے آنا چاہئے۔ انہوں نے کہا ’’ اسلام میں جسمانی عضاء کے عطیہ کی اجازت ہے اور اسلئے یہاں مسلم علماء کو آگے آ کر لوگوں میں جانکاری بڑھانے میں اپنا رول ادا کرنا چاہئے۔ گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر میں شعبہ یورولوجی کے سربراہ ڈاکٹر سجاد نذیر نے بتایا کہ گردے خراب ہونا عام بات بن گئی ہے اور اس کی بڑی وجوہات میں شوگر، بلڈ پریشر اور ازخود ادویات کا استعمال ہے۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال کافی پریشان کن ہے کیونکہ لوگ مرنے کے بعد بھی اپنے ا عضاء عطیہ کرنے کیلئے سامنے نہیں آرہے ہیں۔ ڈاکٹر سجاد کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ ڈائلیسز سینٹروں میں کافی بھیڑ ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر سال پوری دنیا میں جسمانی اعضاء کے عطیہ کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس دن لوگوں کو جسمانی اعضاء کو عطیہ کرنے کے فوائد کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔