جب سے انڈیا میں دہشت گردانہ حملوں کا قضیہ شروع ہوا ہے تب سے ہی 1992-93ء یا (ممبئی سلسلہ وار دھماکوں) کے بعد ہر مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کی ساری توجہ تمام مبینہ دہشت گردوں مثلاًدائو ابراہیم، ٹائیگر میمن ، چھوٹا شکیل وغیرہ اور 26/11 کے مبینہ ملزمین حافظ سعید اور ذکی الرحمان لکھوی اور وادی کشمیر کے حوالے س مبینہ طور سرگرم جیش کے سربراہ مسعود اظہر کو پاکستان سے ہندوستان لانے کی فکر میں کانگریسی اور بھاجپائی حکومتیں یوں مصروف اور مضطرب ہی نہیں بلکہ کوشاں رہی ہیں جیسے کہ ان حضرات کو ہندوستانی حکومتوں کی گرفت میں آتے ہی ملک میں دہشت گردی کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔ حکومت ہند کا تازہ مطلوبہ فرد عالم دین، مبلغ و مفکر اسلام اور عالم اسلام کی محترم ترین شخصیات میں ایک یعنی ڈاکٹر ذاکر نائک ہیں جن پر بنگلہ دیش کی اسلام دشمن وزیر اعظم حسینہ واجد کی ایک بے سروپا رپورٹ کو بنیاد بناکر دہشت گرد اور دہشت گردی کیلئے عام مسلمانوں کو اُکسانے ورغلانے کا الزام ہے۔ سادہ ترین زندگی گذارنے والے اور پیغام ِ امن کی تبلیغ واشاعت کر نے والے ڈاکٹر نائک پر بیرونی ممالک سے فنڈس جمع کرنے اور اس میں خرد برد اور بدعنوانی کے رکیک الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان پر این آئی اے کا شکنجہ بھی کساگیا۔ کسی الزام کو ثابت ہونے ہی نہیں بلکہ ان پر فردِ جرم عائد کئے جانے سے پہلے ہی ڈاکٹر نائک کے تمام تعلیمی ادارے اسلامک ریسرچ فاونڈیشن (IRF) کو بند کردیا گیا اور اداروں اور ڈاکٹر صاحب کے فنڈس اور بنک اکاونٹ منجمد کردئے گئے اور انٹرپول سے ان کو گرفتار کرنے وارنٹ جاری کروادئے گئے۔ ان کا پاسپورٹ بھی غالباً منسوخ کردیا گیا ہے لیکن تمام عالم اسلام اور کئی مغربی ملکوں میں ڈاکٹر نائک کی بڑی عزت ہے اور حکومت ہند اور سنگھ پریوار کے غلام میڈیا کے ڈاکٹر صاحب کو دہشت گردی سے ملوث کرنا مذاق کا موضوع بن گیا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کی اسلام کیلئے بے حد اہم خدمات کے پیش نظر کئی ملکوں نے ان کو شہریت یا مستقل سکونت کی اجازت دے رکھی ہے۔ سعودی عرب نے ان کو شہریت اور ملیشیاء نے مستقل سکونت کی اجازت دے رکھی ہے۔ بیرون ملک ڈاکٹر نائک کی عزت، مدد اور تعاون حکومت کی نہ صرف ناکامی ہے بلکہ توہین ہے۔ اب حکومت ہند ان کو ملیشیاء سے ملک بدر کرکے ہندوستان کے حوالے کرنے کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ توقع ہے حکومت ہند کی یہ کوششیں ناکام ہوں گی اگر کسی ملک کو ڈاکٹر صاحب کو ہندوستان کے حوالے کرنا ہی ہوتا تو وہ بھلا ان کو شہریت یا مستقل سکونت کیوں دیتی؟ لیکن دہشت گردی حکومت ہند کے اعصاب پر اس طرح طاری ہے کہ وہ مقولیت سے دور ہوگئی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائک کے بارے میں خبروں کے ساتھ تقریباً تمام اخبارات میں یہ بھی خبر ہے کہ مسعود اظہر کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دینے کی ہماری مساعی کو چین نے پھر ایک مرتبہ ناکام بنادیا ہے۔ یہ بھی ہمارے ملک کیلئے باعث خفت ہے۔ مولانا مسعود اظہر کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دینے کی کوششوں کو ناکام بنانے والا صرف چین ہی نہیں ہے بلکہ ماضی میں دوسرے ممالک نے بھی چین کی طرح اس تجاویز کو ناکام بنایا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارا میڈیا اس قسم کی منفی یا حکومت ہند خلاف آنے والی خبروں کو چھپادیتا ہے ۔ ہمارا میڈیا اپنی مرضی کے مطابق خبروں کو سنسر کرکے پیش کرتا ہے ٹی وی چینلز کے بکے ہوئے ہونے کا یہ پختہ ثبوت ہے۔
اسی طرح دائو ابراہیم ، ٹائیگر میمن اور چھوٹا شکیل جیسے مبینہ دہشت گردوں کو ہندوستان لانے کا معاملہ ہے۔ ان تینوں کو پاکستان کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وغیرہ نے عرصہ تک اپنے اپنے ملکوں میں محفوظ رکھا ہے دبئی میں ہی جولائی 2005ء میں دائو ابراہیم کی بیٹی کی شادی کے وقف عرب امارات کی حکومت چاہتی تو دائود کو گرفتار کرکے ہمارے حوالے کرسکتی تھی۔ اسی طرح سعودی عرب کی حکومت بھی دائود کو مکہ مکرمہ میں گرفتار کرسکتی تھی جب کہ دائود کی بیٹی کا نکاح مکہ مکرمہ میں حرم شریف میں ہوا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ تین دہوں میں دائو ابراہیم اور چھوٹا شکیل وقتاً فوقتاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں خاصہ عرصہ قیام کیا ہے، اگر پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات چاہتے تو دائو ابراہیم اور چھوٹا شکیل کو ہمارے حوالے کرسکتے تھے لیکن ایسا تو جب ہوتا تب یہ حکومتیں چاہتیں! ان حکومتوں پر جنہوں نے دائود ابراہیم کو پنا دے رکھتی ہے۔ امریکہ بہادر کا دبائو ان حکومتوں کو مجبور کرسکتا تھا لیکن امریکہ ہندوستان کی مدد کرنے میں غالباً اس حد تک آگے بڑھنا پسند نہیں کرتا ہے۔ دائو داور چھوٹا شکیل کو پناہ دینے والے کئی ممالک ہیں ان کا بچے رہنا تو قابل فہم ہے لیکن 26/11 کے مبینہ ملزم اور مسعود اظہر کا معاملہ صرف پاکستان تک محدود ہے۔
پاکستان کا دعویٰ ہے کہ 26/11 کے سلسلے میں ملوث ملزموں اور مسعود اظہر کے خلاف ہندوستان پختہ ثبوت پیش نہیں کرسکا ہے۔ پاکستان کا یہ دعویٰ کس حدتک صحیح ہے اس کی تصدیق یا تردید بین الاقوامی ماہرین قانون کرسکتے ہیں۔ ویسے دہشت گردی کے 90 فیصد مقدمات میں خود ہماری اپنی عدالتیں ہماری پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں کے ثبوت کو قبول نہیں کرتی ہیں۔ 90 فیصد یا کم از کم 80 فیصد ملزم عدم ثبوت کی بنا پر رہا کردئیے جاتے ہیں تو کیا یہ حکومت ہند کا فرض نہیں ہے کہ اپنے تحقیقاتی اداروں کے تیار کردہ ثبوتوں کو ملک کے پیشہ ور ماہرین قانون اور برسرکاریا سابق جج صاحبان سے ان کی جانچ کروالے لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے اس لئے بیشتر ملزمین قانون کی گرفت سے آزاد رہتے ہیں۔ ہم انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو حاصل کرنے کیلئے پاکستان ہی نہیں سعودی عرب اور امارات پر اثر انداز نہیں ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان کو دنیا بھر میں تنہاء کردئے جانے کے ہمارے بلند و بانگ دعوے اپنا پول آپ کھول دیتے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ہم کو جو لوگ مطلوب ہیں کیا ان کو ہم حاصل کرسکتے ہیں؟ ہم اس سوال پر غور نہیں کرتے ہیں۔ پاکستان سے تویہ توقع ہی عبث ہے کہ وہ حافظ سعید، ذکی الرحمان لکھوی اور مسعود اظہر کو ہمارے حوالے کردے گا۔ سب جانتے ہوئے ہم بجائے گفتگو کرنے ان کے خلاف پختہ ثبوت پیش کرکے پاکستان سے مذاکرات کرنے یا بیرونی ماہرین قانون کی مدد حاصل کرنے کی جگہ ۔ ہمارا بھروسہ امریکہ پر ہے اور ٹرمپ کے دور میں امریکہ ہم پر زیادہ مہربان ہے پھر بھی امریکہ اپنی مصلحتیں ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائک پر دہشت گردی کے الزامات کو شایدہی کوئی ملک صحیح مانے۔ اس لئے ہم نے ذاکر نائک کو محض اس وجہ سے نشانہ بنایا ہے کہ آر ایس ایس اور دوسرے شدت پسند مسلم دشمن ہندتوادیوں کو ڈاکٹر نائک سے ازلی نفرت ہے ۔ ڈاکٹر نائک کا طریقہ تبلیغ اور اس کے موثر ہونے کی وجہ سے غیر مسلم کثیر تعداد میں مشرف بہ اسلام ہورہے تھے۔ حکومت ہند کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہئے کہ اگر کوئی مسلم ملک ڈاکٹر ذاکر نائک کو حکومت ہند کے حوالے کرنے کی ہمت کر بھی لے تو عالم اسلام کا ردعمل اس ملک کیلئے ناقابل برداشت ہوگا۔ دائود ابراہیم، حافظ سعید اور اظہر مسعود کے حصول کی کوششوں کی طرح یہ ایک سعی رائیگاں ہوگی۔ ذاکر نائک کے اسکولوں، اداروں اور فنڈس کی ضبطی کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ حکومت ہند کی اس بے جواز کارروائیوں کو آج نہیں کل عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا۔ حکومت ہند کو مزید شرمندگی ہوگی۔ مشکل یہ ہے کہ حکومت کے پالیسی سازوں اور نوکرشاہی پر مسلم دشمنی کا جنون طاری ہے اور ذاکر نائک سے ازلی دشمنی ٹھہری، بعض حلقے یہ بھی سوچتے ہیں کہ حسینہ واجد کی دی ہوئی اطلاع من گھڑت ہی نہیں بلکہ اس قسم کی رپورٹ حکومت ہند کی فرمائش پر حسینہ واجد نے حکومت ہند کو دی تھی۔ بہر حال جو بھی ہو صرف ایک فرد کی رپورٹ پر کہ ڈاکٹر نائک کی تقریر سے اسے دہشت گردی کی ترغیب ہونا حماقت کی انتہاء ہے کہ جس کے ویڈیو کیسٹس بھی کروڑوں لوگ دیکھتے ہیں اس کی کسی تقریر سے کہیں کوئی دہشت گرد نہیںبنا اس کے بارے میں صرف ایک فرد کے بیان پر ذاکر نائک کو دہشت گرد قرار دینا ناقابل فہم ہی نہیں بلکہ مسلم دشمنی میں ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے۔
ایک طرف یہ حال ہے کہ مبینہ مسلم ’’دہشت گردوں‘‘ کو پابہ سلاسل کرنے کے لئے حکومت اپنی ساکھ دائو پر لگادیتی ہے اور جب یہ ’’دہشت گرد‘‘ ہاتھ آتے ہیں تو ان پر لگائے جانے والے الزامات حکومت ثابت نہیں کرپاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اکثر مقدمات میں دہشت گردی کی سازش کے ’’ماسٹر مائنڈ‘‘ تک عدم ثبوت کی بناء پر باعزت بری ہوگئے ہیں ۔ قیاس یہی کہتاہے کہ کے این یو کے طالب علم نجیب احمد کو پریوار سے متعلق افراد نے اغوا کیا ہوگا، اسی لئے تاحال مہینوں گذرنے کے بعد بھی نجیب احمد کو برامد نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی مشتبہ فرد گرفتار ہوا۔ اگر نجیب احمد اور اس کے ساتھی کسی رام چند کا اغواء کیا ہوتا تو رام چند گھنٹوں میں برآمد کیا جاتا اور نجیب احمد جیل میں ہوتا۔ اکشر دھام مندر پر مبینہ دہشت گردانہ حملے میں ماخوذ کئے گئے تمام ملزمین تمام الزامات سے بری ہوچکے ہیں لیکن اب اس حملہ کا مبینہ ماسٹر مائنڈ راشد اجمیری کو سعودی عرب سے واپس ہوتے ہی طیران گاہ (ایرپورٹ) پر پکڑ لیا گیا۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ جب سارے ملزم بری ہوگئے تو ماسٹر مائنڈ قرار دے کر کسی کو گرفتار کرنا اس کا اپنی تحویل میں رکھنے کا پولیس کا مطالبہ بے معنی ہے لیکن بھلا ہو جج کا کہ اس نے جیل میں ریمانڈ دے کر جیل میں ہی تفتیش کا حکم دے کر پولیس کو شرمندہ کیا۔ پہلو خان کے قاتل گاو رکھشک بھی پولیس نے رہا کردئے ہیں۔ دادری کے اخلاق کے قاتلوں کو بری کئے جانے کی بات پرانی ہوگئی۔ جنید خاں کو گائو رکھشکوں نے قتل کیا ہے اور سرکاری وکیل قاتلوں کو بچانے کی کوشش میں مبتلا پاکر وکیل سرکارکی عدالت نے شدید سرزنش کی۔ کیا ’’دو قومی نظریہ‘‘پر ہمارے سیاستدان اور وردی پوش بڑی سرگرمی سے عمل کررہی ہے۔
Email: [email protected]
Cell: 0091 9949466582