غلام نبی رینہ
کنگن// شہد کے کاروبار نے گاندربل کے مگس بانوں کی زندگی میں مٹھاس گھول دی ہے۔ مگس پروری سے جڑے لوگ اب جدیدٹیکنالوجی کا استعمال کرکے اپنے کاروبار کو مزید وسعت دے رہے ہیں۔سرکار کی جانب سے مگس پروری کو فروغ دینے کی سکیموں سے بھی کسان ستفید ہو رہے ہیں اور یہ منافع بخش کاروبار ثابت ہو رہا ہے۔کشمیر میں شہد کی مکھیوں کی 40000 کالونیاں ہیں۔شہد کی مکھی کی کالونی میں دس ریک ہوتے ہیں اور ان میں 25 کلوگرام تک شہد پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ وادی کافی زرخیز ہے اور وہاں اگنے والے پھولوں کی بڑی تعداد ہے جس کی وجہ سے وادی میں شہد کی مکھیوں کی افزائش اور شہد کا کاروبار کافی منافع بخش ثابت ہو رہا ہے۔شہد کا معیار بہتر ہونے کی وجہ سے اس کی مانگ بھی بڑھ گئی ہے۔
کشمیر کا شہد نمی کا تناسب کم ہونے کی وجہ سے دوسرے شہد کے مقابلے میں کافی بہتر ہوتا ہے۔ وادی کے دیگر علاقوں کی ہی طرح ضلع گاندربل کے دور دراز علاقوں میں مگس پروری کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے اورمگس پروری لوگوں کا ذریعہ معاش بنتا جا رہا ہے،اور کافی لوگ مگس پروری کا کارباروبار بنا رہے ہیں۔ کنگن کے گنڈ، ریزن،گگن گیر اور دیگر علاقوںمیں اگست میں شہید کی مکھیوں کی کالنیاں بنائی جاتی ہیں اور اکتوبر میں ان چھتوں کو بیرون ریاست منتقل کیا جاتا ہے۔مکھیوں کے چھتے ستمبر اور اکتوبر کے درمیان بیرون ریاست کے گرم ماحول میں رکھے جاتے ہیں۔کسی خاص جگہ پر قیام کا دورانیہ بنیادی طور پر موسمی حالات پر منحصر ہوتا ہے، کیونکہ شہد کی مکھیوں کو عام طور پر خشک موسم کی ضرورت ہوتی ہے۔ نومبر سے دسمبر کے وسط تک یونٹوں کو راجستھان منتقل کر دیا جاتا ہے۔مگس بانوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس شہید کی پیدوار میں کمی ہوئی تھی،جس کی وجہ سے وہ مایوس ہوئے تھے تاہم انہیں امید ہے کہ امسال پیدوار میں اضافہ ہوگا۔