کرکٹ کی تاریخ کا دوسرا ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ کل سے کھیلا جائے گا اور پاکستان کی فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور بھی اس میچ کے شائقین میں سے ہوں گے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ہیروز کیلئے اس جدید گلابی گیند کو تیار کیا ہے۔پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کل سے دبئی میں ڈے نائٹ میچ کھیلا جائے گا جو کرکٹ کی تاریخ کا محض دوسرا اس طرز کا میچ ہو گا تاہم یہ میچ ملک میں کھیلوں کی مصنوعات بنانے کیلئے مشہور شہر سیالکوٹ میں انتہائی جوش و جذبے سے دیکھا جائے گا۔پاکستان کی کھیلوں کی مصنوعات کی صنعت نئی گلابی گیند کی ترسیل کا سب سے بڑا مرکز بننے کی تیاری کر رہی ہے جو 21ویں صدی میں کھیل کے روایتی پانچ روزہ فارمیٹ کو نئی زندگی دینے کیلئے بنایا گیا ہے۔1953 سے کرکٹ کی گیندیں بنانے والے گریز آف کیمبرج کے چیف ایگزیکٹو انور خواجہ نے کہا کہ ہم ہر سال 15 سے 20 ہزار گلابی گیندیں بنا رہے ہیں۔ گلابی گیندیں بنانے کی تعداد بڑھ رہی ہے۔گلابی گیند کے عالمی سطح پر استعمال کا آغاز گزشتہ سال ایڈیلیڈ میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلے گئے کرکٹ کی تاریخ پہلے ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ سے ہوا تھا جس پر ملے جلے تاثرات سامنے آئے تھے۔تاہم کرکٹ میں شائقین کی عدم دلچسپی اور اسٹیڈیم میں شائقین کی کم حاضری کے سبب کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں نے ڈے نائٹ ٹیسٹ کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ لوگوں کی توجہ اس فارمیٹ کی جانب مبذول کرائی جا سکے۔کئی سالوں تک مختلف سطح پر ٹرائل ہونے کے بعد کرکٹ حکام نے رواتی لال گیند کی جگہ فلڈ لائٹ میں گلابی گیند کے استعمال کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ دن اور رات دونوں میں نظر آنے کے ساتھ ساتھ سفید کپڑوں کے ساتھکھیلنے کیلئے موزوں بھی ہے۔انور خواجہ نے بتایا کہ گزشتہ سال ہم نے ہر رنگ کی ایک لاکھ 20 ہزار کرکٹ کی گیندیں بنائیں لیکن ہماری مانگ بڑھ رہی ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں اس سال کم از کم ڈیڑھ لاکھ گیندیں بنائیں۔ٹیسٹ کرکٹ کھیل کا سب بڑا اور روایتی فارمیٹ ہے جہاں پانچ دن کھیل کے باوجود کبھی کبھار میچ ڈرا پر ختم ہوتا ہے۔کھانے اور چائے کے وقفے کے حامل اس میچ میں کو دیکھ کر گزرے عہدوں کا خیال دماغ میں آتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ پہلے ون ڈے اور پھر جدید ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے منظر عام پر آنے سے آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کھوتا جا رہا ہے۔رنگ برنگی کٹ، چیئر لیڈرز، تیز میوزک اور چوکوں اور چھکوں سمیت تفریح سے بھرپور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا میچ محض تین گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے۔تاریخ کا پہلا ٹیسٹ میچ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان 1877 میں کھیلا گیا تھا۔ان دو ملکوں کے علاوہ ہندوستان یا پھر کسی حد تک بنگلہ دیش میں ٹیسٹ کرکٹ کے پانچوں دن لوگوں کی بڑی تعداد میچ دیکھنے کیلئے اسٹیڈیم کا رخ کرتی ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اس فارمیٹ کیلئے اشتہارات لانا بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔پاکستان کو اس سلسلے میں خاصا نقصان اٹھانا پڑا ہے کیونکہ مارچ 2009 میں سری لنکن ٹیم کی بس پر لاہور میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد کسی بھی غیر ملکی ٹیم نے ٹیسٹ میچ کھیلنے کیلئے پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔گزشتہ ماہ پاکستانی ٹیم کو عالمی نمبر ایک کے منصب تک پہنچانے والے کپتان مصباح الحق کو یقین ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کا مستقبل نائٹ ٹیسٹ میچوں سے وابستہ ہے۔انہوں نے گزشتہ ہفتے رپورٹرز سے گفتگو میں کہا کہ کھیل شائقین اور حاضرین کیلئے کھیلا جاتا ہے، نائٹ کرکٹ ہی مستقبل ہے اور یہ یقیناً کرکٹ کیلئے اچھی ہے۔