ماسکو// روسی حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو جدید میزائل دفاعی نظام ایس 400 کی فروخت کے لیے بات چیت جاری ہے اور اس میں امریکا اور سعودی عرب کے درمیان اسلحے کی ڈیل کے باوجود پیش رفت ہورہی ہے۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے حالیہ دورہ ماسکو کے موقع پر سعودی عرب نے روس سے ایس 400 میزائل دفاعی نظام خرید کرنے کے لیے گذشتہ جمعرات کو مفاہمت کی ایک یادداشت پر دست خط کیے تھے۔ اس اطلاع کے ایک روز بعد امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ محکمہ خارجہ نے میزائل شکن دفاعی نظام تھاڈ کی سعودی عرب کو فروخت کے لیے منظوری دے دی ہے۔اس کی لاگت کا تخمینہ پندرہ ارب ڈالرز لگایا گیا ہے۔کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف سے سوموار کے روز جب صحافیوں نے کانفرنس کال کے ذریعے یہ سوال پوچھا کہ کیا امریکا اور سعودی عرب کے درمیان ڈیل کے روس سے سمجھوتے پر اثرات مرتب ہوں گے؟اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کو میزائل دفاعی نظام کی فروخت کے لیے بات چیت اچھے طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔مسٹر پیسکوف نے کہا کہ ’’ ہم صرف اپنے بارے میں گفتگو کرسکتے ہیں۔اس سودے پر عمل درآمد کے لیے روابط بہت مثبت رہے ہیں اور اس کے بہت اچھے ابتدائی نتائج برآمد ہوئے ہیں‘‘۔جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ سعودی عرب ایس 400 نظام کو روس کے اتحادی ملک ایران کے خلاف استعمال کرسکتا ہے تو اس کے جواب میں پیسکوف نے کہا کہ الریاض کو مہیا کیے جانے والے میزائل کسی تیسرے فریق کے لیے نہیں ہیں۔انھوں نے کہا:’’ سعودی عرب اور روس کے درمیان فوجی اور ٹیکنیکل تعاون خالصتاً ان کے اپنے لیے ہے اور اس سے خطے میں یا دنیا کے دوسرے خطوں میں کسی تیسرے ملک کو ہدف نہیں بنایا جائے گا۔اس لیے ہم پْراعتماد ہیں اور اس دوطرفہ تعاون سے کسی کو تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے‘‘۔قبل ازیں روس کے فوجی اور فنی تعاون سے متعلق ایک سرکاری ادارے کی عہدہ دار ماریا وروبیوفا نے کہا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ ایس 400 نظام کی فروخت کے لیے ایک پختہ سمجھوتا طے پا گیا ہے۔روس کی ریا نیوز ایجنسی کے مطابق انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ سعود ی عرب کو ٹینک شکن راکٹ نظام کورنیٹ- ای ایم ، راکٹ لانچر نظام ٹی او ایس – 1اے ، خودکار گرینیڈ لانچر اے جی ایس – 30 اور کلاشنکوف اے کے -103 رائفلوں کی فروخت کے لیے بھی سمجھوتے طے پائے ہیں۔سعودی عرب ایک عرصے سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کا قریبی اتحادی چلا آرہا ہے لیکن اس کے روس کے ساتھ حالیہ دفاعی معاہدوں اور مختلف النوع اسلحے کی خریداری کے لیے سمجھوتوں کے بعد سے واشنگٹن میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔