ذرا سوچئے
شوکت الحق کھورو
آج کے دور میں تعلیم کا معیار تیزی سے بدل چکا ہے۔ جہاں کبھی کتابیں، استاد، اور کلاس روم علم کا مرکز سمجھے جاتے تھے، وہاں اب موبائل فون، انٹرنیٹ، اور سوشل میڈیا نے اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ بظاہر یہ سب سہولتیں علم کے حصول کو آسان بناتی ہیں، مگر درحقیقت یہ ایک ایسا جال بنتی جا رہی ہیں جس میں نئی نسل آہستہ آہستہ قید ہوتی جا رہی ہے۔
علم کی گہرائی یا سطحی معلومات؟ :ڈیجیٹل دنیا نے انسان کو علم کے سمندر تک رسائی دی، مگر اس سمندر میں اکثر لوگ گہرائی کے بجائے سطحی لہروں میں ہی بہہ جاتے ہیں۔ طلباء کے ہاتھوں میں موجود موبائل فون علم کا ذریعہ کم، اور وقت کے ضیاع کا سبب زیادہ بن چکے ہیں۔ کلاس روم میں بیٹھے طالبعلم کا ذہن اب لیکچر میں نہیں، بلکہ انسٹاگرام کی رییلز، یوٹیوب کی ویڈیوز، اور سوشل میڈیا کے شور میں گم ہوتا جا رہا ہے۔
ٹیکنالوجی — فائدہ یا فتنہ؟ :ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ موبائل فون یا سوشل میڈیا کوئی بری چیز ہے۔ ہر ایجاد کی طرح اس کے بھی دو پہلو ہیں۔ اگر موبائل کا استعمال علم حاصل کرنے، دنیا سے جڑنے، یا تحقیق کے لیے کیا جائے تو یہ واقعی ایک بہترین ذریعہ ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم نے اسے علم کے بجائے دکھاوے، وقت کے ضیاع، اور فضول مصروفیات کے لیے اپنا لیا ہے۔
سوشل میڈیا کا زہریلا مقابلہ : سوشل میڈیا نے ایک ایسا مقابلہ پیدا کر دیا ہے جس میں علم، محنت اور تحقیق کے بجائے دکھاوا، شہرت اور لائکس کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ نوجوان نسل اپنی قابلیت کے بجائے اپنی ’’آن لائن شناخت‘‘ کو سنوارنے میں مصروف ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اصل تعلیم، جو انسان کی شخصیت کو سنوارتا ہے، پیچھے رہ گئی ہے۔
نمائش بمقابلہ تعلیم:حال ہی میں tuition institutes اور بعض colleges میں ایک نیا رواج سامنے آیا ہے — پروگراموں کے لیے وہ افراد مدعو کیے جا رہے ہیں جن کے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ فالوورز ہیں، نہ کہ وہ جو تعلیمی یا اخلاقی طور پر بہترین ہیں۔ ایسے مہمان نمائش اور شہرت لے آتے ہیں، مگر کیا وہ طلبہ کو علم سکھاتے ہیں؟ یا صرف آنکھوں کو بھانے والی پیشکش، رقص، یا فیشن کا تماشا؟ اگر تعلیم کا مقصد یہی بن جائے کہ کون زیادہ دکھاوا کرے، تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم کس چیز کی تربیت دے رہے ہیں۔
اساتذہ اور والدین کی بے بسی:اساتذہ بھی اب مجبور ہیں۔ کلاس میں موبائل فون بند کرنے کے لیے کہنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔ والدین خوش ہیں کہ ان کے بچوں کے پاس ’’سمارٹ‘‘ فون ہے، مگر یہ نہیں جانتے کہ اس کی اسمارٹنیس نے بچوں کے ذہنوں کو کتنا “غیر متوازن” بنا دیا ہے۔ بہت سے والدین سمجھتے ہیں کہ فالوورز اور مشہور شخصیات طلبہ کے لیے مثالی ہیں، حالانکہ حقیقت میں وہ اکثر محض تفریح اور نمائش کے نمونہ ہوتے ہیں۔
قدیم دور کی قابلیت اور آج کی کمزوری :پرانے زمانے میں جب نہ موبائل فون تھے، نہ انٹرنیٹ، نہ ڈیجیٹل کلاسز — تب بھی علم و ہنر کا معیار بہت بلند تھا۔ اساتذہ کے دلوں میں خلوص، اور طلبہ کے اندر سیکھنے کا جنون ہوتا تھا۔ انہی لوگوں نے سائنس، ادب، فلسفہ اور ریاضیات کی وہ بنیادیں رکھی جن پر آج کی دنیا کھڑی ہے۔ اُن کے پاس ٹیکنالوجی نہیں تھی، مگر اُن کے پاس محنت، توجہ اور علم کی پیاس تھی۔ آج کے طالبعلم کے ہاتھوں میں دنیا کی ساری معلومات سمٹ آئی ہیں، لیکن علم کا نور اُن کے دلوں سے رخصت ہوتا جا رہا ہے۔
آن لائن کلاسز۔سہولت یا الجھن؟ :تعلیم کے موجودہ نظام میں آن لائن کلاسز کا نیا دور شروع ہو گیا ہے، جس میں استاد اور ادارے دونوں کی ذمہ داری شامل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ آن لائن کلاسز ہمارے لیے ضروری ہیں؟ کیا بچوں کی تعلیم صرف اس ڈیجیٹل اسکرین پر منحصر ہے؟بہت سے والدین اور استاد یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بچے گھر بیٹھے اسکرین کے ذریعے کلاس لیں تو یہ بہترین طریقہ ہے، لیکن حقیقت میں بچے اکثر محض ویڈیوز دیکھنے یا میسجنگ میں مصروف رہتے ہیں۔ اگر کسی دن بچے کو چھٹی کرنی بھی پڑے تو کیا اس کے بجائے یہ بہتر نہیں کہ وہ خود کتاب کھول کر مطالعہ کرے، اور اپنی رفتار سے سیکھے؟آن لائن کلاسز نے بچوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ، دکھاوا اور غیر ضروری دباؤ پیدا کیا ہے۔ وہ علم سیکھنے کے بجائے صرف ایک دوسرے کی کارکردگی دیکھنے یا دکھانے پر توجہ دیتے ہیں۔ اس طرح تعلیم کا اصل مقصد — علم، سوچ اور تحقیق — پیچھے رہ جاتا ہے، اور ڈیجیٹل دنیا کا شور اصل تعلیم پر غالب آ جاتا ہے۔
والدین اور اساتذہ کی ذمہ داریبچوں کے رویے اور اخلاقیات کی اصل تربیت گھر اور کلاس روم سے شروع ہوتی ہے۔ اگر استاد یا والدین ہی کسی نئی ایجاد، سوشل میڈیا یا آن لائن سرگرمی کو بلا سوچے قبول کر لیں اور کہیں’’یہ ٹھیک ہے‘‘، تو پھر بچے کے رویے کی ذمہ داری صرف اس پر ڈالنا انصاف نہیں۔ کل کو اگر بچہ کوئی غلط کام کرے، تو ہم یہ کیوں نہ سوچیں کہ اس کی تربیت میں ہماری کوتاہی بھی شامل تھی؟ ہم نے بچپن میں جس چیز کو عادت، قدر یا رویہ بنا دیا، بچے کے وہ رویے اسی سے جنم لیتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ بچہ صحیح راستے پر بڑھے، تو بہتر یہی ہے کہ پہلے ہم خود اس کی تربیت کے ذمہ دار ہوں اور اس کی رہنمائی کریں، بجائے اس کے کہ بعد میں صرف بچے پر الزام ڈالیں۔
خود احتسابی کا وقت : یہ وقت ہے کہ ہم خود سے سوال کریں — کیا یہ ہے وہ تعلیم جس کا خواب ہم نے دیکھا تھا؟ کیا ٹیکنالوجی نے واقعی علم کو عام کیا ہے، یا ہم نے علم کو محض ڈیجیٹل دکھاوے میں بدل دیا ہے؟ اگر تعلیم کا مقصد شہرت، نمائش اور فالوورز بن جائے تو پھر اسکولوں اور کالجوں کا وجود بھی معنی کھو دے گا۔ ایسے میں کوئی کہہ سکتا ہے،’’اگر یہی سکھایا جانا ہے تو پھر اسکول بند کر دیں اور وہی نمائش کے اڈے کھول لیں۔‘‘ — مگر یہ طنزیہ نہیں، بلکہ ایک خبردار کرنے والا بیان ہے کہ اگر یہی رویہ جاری رہا تو تعلیم کا حقیقی مطلب ختم ہو جائے گا۔
مستقبل کا خطرہ : اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے، تو آنے والی نسل کتابوں کو نہیں، بلکہ صرف سکرینوں کو یاد رکھے گی اور شاید وہ دن دور نہیں جب استاد نہیں، بلکہ ’’ایپلیکیشنز‘‘ ہمیں پڑھا رہی ہوں گی — اور ہم سمجھ رہے ہوں گے کہ یہ ہے ترقی، جب کہ حقیقت میں ہم علم سے دور جا رہے ہوں گے۔
اختتامی کلمات ۔روشنی یا اندھیرا؟: ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ علم صرف کتابوں میں نہیں، بلکہ ہمارے اعمال، رویوں اور رہنمائی میں ہے۔ اگر ہم نے بچپن میں بچوں کو صحیح تربیت نہیں دی، ان کے لیے غلط مثالیں قائم کیں اور تعلیم کو صرف نمائش یا دکھاوا سمجھا، تو پھر یہ نسل کہیں بھی کھڑی نہیں ہوگی۔
[email protected]