کسی زمانے میں درندوں کو پہچاننا آسان کام تھا۔لوگ درندوں کی شکل دیکھ کر پہچان جاتے تھے کہ یہ شیر ہے، چیتا ہے یایچھ ، لیکن اب درندے انسانوں کے درمیان رہتے ہیں،انسانوں کی سی بود و باش رکھتے ہیںاور انسانوں ہی پر حملہ آور ہیں۔ایک درندے وہ ہیں جو اپنے نوکیلے پنجوں،تیز دانتوں کے ذریعے بے گناہ انسانوں پر حملہ کرتے ہیں اور انہیں موت کے گھاٹ اتاردیتے ہیں اوردرندوں کی ایک ٹولی وہ بھی ہے جو انسانوں کے بھیس میں حیوانیت کا ننگا ناچ کرتی ہے،قوم کی بیٹیوں کو ہوس کا شکار بناتی ہے ۔میراماننا ہے کہ ان انسان نما حیوانوں سے وہ درندے لاکھ درجہ بہتر ہیں جنہیں اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ تو نہیں،جو احساس و شعور سے عاری ہونے کے باوجود اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ اس قسم کی گھناؤنی حرکت تو نہیں کرتے،اپنی مادہ کا کسی درجہ احترام توکرتے ہیں ،مگر یہ انسان نما وحشی جانور انسانیت کی حدود کو پھلانگتے ہوئے بے حیائی کی ساری حدیں کرکے سفاکی کی اس گہری کھائی میں جا گرتے ہیں جہاں انہیں کوئی انسان نظر نہیں آتا۔
دور حاضر میں فحاشی اور جنسی بے راہ روی کے جس طوفان نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اب وہ ہمارے دروازے پر ہی دستک نہیں دے چکا ہے بلکہ ہمارے گھروں کے اندر داخل ہوچکا ہے۔ٹی وی ، ڈِش، اِنٹرنیٹ اور دیگر مخرب اخلاق پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہماری نوجوان نسل جس انداز میں اس کا اثر قبول کررہی ہے اس کے پیش نظر یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ ہم بھی یورپ اورامریکہ کے نقش قدم پر نہایت تیزی کے ساتھ چلے جارہے ہیں ۔ امریکہ اور یورپ اس جنسی بے راہ روی کی وجہ سے بن بیاہی ماؤں ، طلاقوں کی بھرمار، خاندانی نظام کی تباہی اور جنسی امراض بالخصوص ایڈز کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔کیا ہم بھی انہی نتائج سے دو چار ہونا چاہتے ہیں؟ یہ اور اس قسم کے چند سوالات ہیں جنہوں نے سوچنے سمجھنے والے طبقے کو پریشان کیا ہواہے۔ اس کا علاج ایک طرف ہم کو اسی رنگ میں رنگنے کی کوششوں سے ہورہا ہے۔ تاہم اس کا دوسرا یقینی اورقابل اعتماد حل وہ ہے جو ہمیں قرآن اور اسلامی تعلیمات کے ذریعے دیا گیا تھا، جسے نظر انداز اور فراموش کرنے سے ہم آج اس دوراہے پر کھڑے ہیں۔
مغرب کا’’ نعرہ آزادی‘‘ وہ آزادی ہے جس کو ساری مہذب دنیا مادر پدر آزادی کہتی ہے۔اس آزادی کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کی جواں سال بیٹیاں یا بیٹے بے شک بغیر شادی کے اپنے جوڑے چن لیں، حتی کہ ناجائز بچے بھی پیدا کرلیں تو ماں باپ کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے کوئی سوال بھی کرسکیں، کیبل پر اتنہائی واہیات پروگرام دیکھ کر اب ٹیلی ویژن پر شرم و حیا سے عاری اشتہار بھی مہذب لگنے لگے ہیں،موبائل ٹیلی فون ، انٹرنیٹ اور کیبل نیٹ ورکنگ کے غلط استعمال سے ہماری نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے۔ جنسیت کا موضوع انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دونوں پہلوؤں پر حاوی ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی حدود اخلاق، تہذیب و ثقافت سے ملتی ہیں، اور قانون کے علاوہ معاشرتی آداب اور طور طریقوں سے بھی۔ اگر چہ جنسیت ایک انسانی جبلت ہے تاہم نکاح کے نتیجے میں بچوں کی پیدائش کے ذریعے انسانی معاشرے کی بقا اور ترقی کا انحصار بھی اس امر پر ہے کہ اس جبلت کو کس طرح ایک ضابطے کے تحت رکھا جائے، اس کا اظہار کس طریقہ پر ہونا چاہئے اور اس سے کس حد تک استفادہ یا اجتناب کرنا ضروری ہے۔تاریخ انسانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب اور جس جگہ جنسیت اس قدر عام ہوجاتی ہے جیسا کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں ہوا ہے، تو بلا شبہ وہاں معاشرے اور قوم کو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ یونان ، روم، نیز قدیم مصری تہذیبوں کا خاتمہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ ان ممالک میں انصاف کم یاب ، طبقاتی تفریق ایک حقیقت اور جنسیت بے لگام ہوگئی تھی، پھر قانون الٰہی کے مطابق وہ اقوام بالآخر نیست و نابود ہوگئیں۔ ایک انسان اس امرکا اندازہ نہیں کرسکتا کہ ان قوموں سے قدرت نے کس قدر سخت انتقام لیا۔اس امرکی صراحت شاید ضروری ہو کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں جنسی جذبے کی تسکین بے محابہ انداز میں کی جارہی ہے ،وہاں خاندانی نظام چوپٹ ہوکر رہ گیا ہے، ایسے حالات میں خاندان کا ادارہ جس کے ذریعے مستقبل کی نسل کی پرورش کا فریضہ سرانجام دیا جاتا ہے ،قائم نہیں رہتا۔
کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس میں فحاشی کو عام کر دو۔ ذہین ترین لوگوں کی سر زمین وادی کشمیر کی نوجوان نسل کو تباہ کرنے کے لئے بھی یہی کیاگیا۔ ہماری نوجوان نسل نے تعمیری سوچ اور مثبت سرگرمیوں کو خیر باد کہہ کر تعیشات کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں دیگر ترقی پزیر ممالک خود کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے کے لئے دن رات مصروف عمل ہیںوہیں کشمیر ترقی پزیر سے ترقی یافتہ ہونے کی بجائے مسلسل رو بہ زوال ہے۔پستیوں کی جانب تیزی سے بڑھتے اس معاشرے میں کہیں انٹرنیٹ کیفے کے نام پر فحش فلمیں دکھا کر نوجوان نسل کے جذبات کو بھڑکایا جا رہا ہے توکہیں تو آئس کریم پارلرز کے نام پر فحاشی کے اڈے کھلے ہوئے ہیں۔ رہی سہی کسر مخلوط نظام تعلیم نے پوری کر دی ہے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے آزادانہ میل جول نے بہت سی خرافات کو جنم دیا ہے۔ رسمی بات چیت دھیرے دھیرے لمبی ملاقاتوں اور پھر جنسی تعلق میں تبدیل ہو جاتی ہے۔انٹرنیٹ کے فوائد میں یہ ہے کہ قران و حدیث جیسی دینی معلومات تک با آسانی رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ اسلامی سوال جواب سے متعلق ڈھیروں ویب سائٹ دستیاب ہیں۔ اسی طرح آن لائن بزنس کے ذریعے بھی بہت کم وقت میں کوئی بھی چیز منگوائی جاسکتی ہے تاہم ان سب سہولتوں کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کے ہمارے بچوں ہمارے معاشرے پر انتہائی اذیت ناک اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ جب کوئی فحاشی دیکھے گا تو وہ کہیں تو اثر دکھائے گی۔ یہ بے راہ روی پہلے بھی تھی لیکن اب معاملات بے شرمی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ ہمارے ڈرامے، فلمیں،خبریں،اشتہارات،گھنٹہ آفر، SMS بنڈل،رسائل و جرائد سب ہمارے معاشرے میں مغربی سفیر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں اور وہاں پر پھیلی بے حیائی کو یہاں پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میڈیا کی اس مسلسل کوشش نے ہمارے معاشرے میں ثقافتی خلش پیدا کردی ہے۔ نوجوانوں کو بے حیائی کی جانب تو راغب کیا جاہا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں قائم ہماری ثقافت،برادری نظام، خاندانی نظام، مذہبی روایات اس بے حیائی کو تسلیم نہیں کرپاتی۔
بچوں کی تربیت کا تعلق نہ تو حکومت اور نہ ہی سیاست یا لیڈروں سے ہے،بلکہ ہمارے اپنے گھروں سے ہیں۔ ہمارے والدین اور سرپرست اعلیٰ کی ذمے داری ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھیں۔ یہ ہماری مائوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کس طرح اپنے بچوں کی ذہنی اور روحانی تربیت کرتی ہیں۔ہر ماں کو چاہیے کہ وہ صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرے۔ ٹی وی چینلوںپر چلنے والے ڈراموں یا غیر ضروری کاموں میں پڑ کر اپنی ذمہ داری کو نظر انداز مت کریں۔ بچے کیا اور کیوں کررہے ہیں یہ چیک اینڈ بلنس کا سلسلہ رکھنا چاہیے۔ مائیں اپنے بچوں کو ہر لحاظ سے تربیت دیں۔ ان کے خفیہ مسائل کو بھی سمجھیں اور انہیں پیار محبت سے سمجھائیں۔ اپنے بچوں کے خود ہی دوست بنیں، اس سے پہلے کہ وہ آپ پر اعتماد کرنے کے بجائے کسی اجنبی سے دوستی کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارا معاشرتی نظام جداگانہ ہے اور ہمارے اقدار مختلف ہیں۔بقول علامہ اقبال ؎
اپنی مِلّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی