سبدر شبیر
دلدل کا کنارہ تھا، شام کی خاموشی سجدے میں تھی اور پانی کی سطح پر ایک لرزتی ہوئی چاندنی جیسے کسی باطنی راز کی جھلک ہو۔
یہاں دو وجود رہتے تھے ایک سانپ، دوسرا مینڈک۔
ظاہری نظر سے دیکھو تو یہ صرف ایک خونخوار اور ایک کمزور مخلوق تھے۔ لیکن حقیقت میں یہ دو علامتیں تھیں ۔ سانپ نفسِ امّارہ کی نمائندگی کرتا تھا، جو انسان کو دھوکہ، غرور، شہوت اور برتری کے زہر سے لبریز رکھتا ہے، اور مینڈک نفسِ لوّامہ کی علامت تھا ۔ جو ہر لمحہ خود کو ملامت کرتا، شرمندگی کے چشمے سے اپنی روح کو دھوتا اور حقیقت کی تلاش میں چھلانگیں مارتا پھرتا۔
یہ دونوں ایک ہی دلدل میں رہتے تھے مگر ایک دوسرے کے خول میں نہیں جھانکتے تھے ۔ کیونکہ جھانکنے کے لیے دل کا چشمہ کھولنا پڑتا ہے، جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔
ایک دن سانپ کو زخم لگا۔ ایک کٹھن تجربے نے اس کے غرور کی کھال میں دراڑ ڈال دی۔ اس کے اندر پہلی بار خاموشی اتری ۔ وہ خاموشی جو شور سے زیادہ تکلیف دیتی ہے۔ اس خاموشی نے اسے مینڈک کے قریب آنے پر مجبور کیا۔
“تم ہر وقت مراقبے کی حالت میں کیوں لگتے ہو؟” سانپ نے پوچھا۔
مینڈک نے آنکھیں بند کئے کہا، “کیونکہ میں اپنے اندر کے شور کو سننے کی کوشش کرتا ہوں، وہی شور جو تمہارے زہر کی جڑ ہے۔”
سانپ تِلملایا، لیکن کچھ بولا نہیں۔
وقت گزرا۔ سانپ اب ہر رات مینڈک کے پاس بیٹھتا۔ وہ سنتا ۔ اپنی ہی فطرت کے خلاف کچھ نرمی کی باتیں۔ مینڈک کہتا:
“نفس، اگر قابو میں نہ ہو، تو شیطان بن جاتا ہے۔ لیکن اگر توبہ کی رسی سے باندھا جائے، تو وہی نفس روح کا زینہ بن جاتا ہے۔”
سانپ کے اندر ایک عجیب کشمکش شروع ہو گئی۔ کبھی وہ مینڈک کی باتوں پر سر دھنتا، کبھی زہر پینے کو دل چاہتا۔ یہ تصوف کی راہ تھی، جہادِ اکبر، جو باہر نہیں، اپنے اندر لڑنا پڑتا ہے۔
ایک رات، مینڈک نے کہا:
“تم نے سنا ہے؟ حضرت بایزید بسطامی نے کہا تھا: ‘میں نے اپنے نفس کو اس طرح پامال کیا، جیسے کوئی درندہ اپنے شکار کو چیرتا ہے۔’ کیا تم اپنے نفس کو کبھی چیر سکتے ہو؟”
سانپ کے بدن میں سرد لہر دوڑ گئی۔ وہ اپنے زہر سے خود ہی ڈرنے لگا۔
پھر ایک دن، سانپ نے مینڈک سے پوچھا:
“کیا ہم دوست ہو سکتے ہیں؟”
مینڈک نے آنکھیں کھولیں، اور مسکرا کر بولا:
“دوستی تو اس وقت ہوتی ہے جب کوئی اپنے نفس کو پالنے کے بجائے، مارنے پر آمادہ ہو۔ تم اگر اپنی زہریلی جبلت سے تائب ہو، تو ہم صرف دوست نہیں، ایک ہی سفر کے راہی ہیں۔”
یہ سفر تزکیۂ نفس کا تھا۔
رفتہ رفتہ سانپ بدلنے لگا۔ اب وہ شکار نہیں کرتا، بس چپ چاپ مینڈک کی باتیں سنتا۔ وہ ذکر میں آتا، حمد سنتا اور تسبیح کے بول اس کے زہریلے کانوں کو نرم کرتے۔
لیکن… ۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی نفس بدلنے لگتا ہے، شیطان ایک نیا وار کرتا ہے۔
ایک دن، دلدل میں ایک جوان، طاقتور اور زہریلا سانپ آیا ۔ وہ نفسِ امّارہ کی مکمل شکل تھا ۔ تکبر، انا، جاہ، شہوت اور حرص کا پتلا۔
اس نے بوڑھے سانپ کو دیکھا، جو مینڈک کے ساتھ خاموش بیٹھا تھا۔
“تو نے یہ کیا کیا؟” جوان سانپ نے پھنکارتے ہوئے کہا، “تو نے خود کو کمزور کر لیا؟ مینڈکوں کے در پہ جا بیٹھا؟ تو نے نسل، فطرت اور طاقت کی توہین کی ہے!”
بوڑھے سانپ نے نظریں نیچی رکھیں۔
“یہ طاقت نہیں، بوجھ ہے،” وہ بولا۔ “میں اب وہ زہر نہیں چاہتا، جو مجھے اندر سے کھوکھلا کرے۔ میں وہ خامشی چاہتا ہوں، جو مجھے میرے رب کے قریب کرے۔”
جوان سانپ چیخا، “نفس کبھی معافی نہیں مانگتا! نفس صرف فتح چاہتا ہے!”
مینڈک درمیان میں آیا۔ وہ اب صرف ایک مینڈک نہیں رہا تھا، وہ نَفَسِ مطمئنہ کی علامت بن چکا تھا ۔وہ نفس جو کہتا ہے:
“یا ایتھا النفس المطمئنہ، ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیہ”
“اگر زہر ہی پہچان ہے، تو تم خود کو کبھی نہیں پہچان سکو گے،” مینڈک بولا۔
جوان سانپ نے جھپٹا مارا۔ مینڈک کی طرف بڑھا۔ لیکن وہی لمحہ تھا جب بوڑھے سانپ نے اپنا جسم آگے کر دیا۔ زہر نے اس کو اندر جھلسا دیا مگر وہ مر کر جیت گیا۔
مینڈک اس کی لاش کے پاس بیٹھا روتا رہا، لیکن آنکھوں میں آنسو کم، دعا زیادہ تھی۔
“اے میرے رب! وہ جو زہر تھا، آج تیرے حضور توبہ کی مٹی میں تحلیل ہو گیا۔ اس کے اندر کا نفس امّارہ، مطمئنہ میں ڈھل گیا۔”
بارش ہونے لگی۔ دلدل کی زمین، جو پہلے کیچڑ تھی، اب تقدیس میں بھیگی لگتی تھی۔ اور جہاں وہ سانپ مرا تھا، وہاں اگلے دن ایک سفید کنول کھل گیا۔
���
اوٹو اہربل کولگام ،کشمیر
[email protected]