غو ر و فکر کرنے سے بڑے بڑے لایئخل مسائل حل ہوجاتے ہیں اور پیچیدہ گتھیاں وا ہوجاتی ہیں ۔اسی لئے جلد بازی میں اٹھایا گیا قدم یا لیا ہوا(Rash Decisinon)شیطان کا فیصلہ اورصبر و تحمل سے سوچ سمجھ کر یا مشورہ فیصلہ، خدائی فیصلہ مانا جاتا ہے ۔شاید اسی لئے قرآن کریم نے بار بار اور با اصرار غور و فکر کرنے،تدبر سے کام لینے ،سوچ سمجھ کر عقل کا استعمال کرنے اور فہم و ادراک کو روبہ عمل لانے کی تلقین کی ہے۔میرا ایسا ماننا ہی نہیں بلکہ پختہ یقین ہے کہ منہ اندھیرے تھال گھنٹے پیٹنے والے ،ناقوس و شنکھ بجانے والے ، خدا کے ساتھ کئی خدائوں سے مدد چاہنے والے ،غیر فطری حربے اپنانے والے ، اہرمن اور یزدا معبودوں کی پرستش کرنے والے ،انسانوں کی ترتیب و تالیف کی ہوئی ایک کتاب کو مجسم اور بہ روح و جسد تصور کرنے والے اگر رب کریم کی ایک معمولی سے معمولی یا ادنیٰ ترین(Pertiest)عنایت پر صرف ایک بار صحیح سوچ سمجھ ،سوجھ بوجھ اور شیطانی وساوس کو چھوڑ کر سچے دل وذہن سے غور کریں گے تو وہ یقیناً شرکیات ،بدعات اور کفریات کو خیر باد کہہ کر آقائے عرش کے لئے ہی اپنی زندگی وقف کرکے اُسے ہی ہمہ از اوست کا اقرار کریںگے۔اُس کی کبریائی کا اقرار کرکے اُسی کے سامنے سر بسجود ہوکر اپنے سابقہ کئے پر پچھتاکر سچے دل سے توبہ معافی اور عفو و درگذر کے طلب گار ہوں گے تو یقیناً وہ صراط مستقیم پر آجائیں گے۔
کہتے ہیں چہرہ دل کی کتاب ہوتا ہے ،چلئے دل کی کتاب کھول کر اُس میں اپنے چہرے کو ہی پڑھ لیتے ہیں ۔لیجئے ! میں پڑھتا ہوں آپ پلیز دھیان سے سنئے۔چہرے پر آپ کو چار خاص چیزیں رب کی طرف سے عنایت ہوئی ہیں :دو آنکھیں ،ناک ،منہ اور زبان ۔اللہ تعالیٰ نے آدم کو بہترین ناک و نقشے اور صورت کے ساتھ تخلیق کیا ہے ،پھر اگر موجودہ صورت سے قطع نظر صورت حال مختلف ہوتی ۔مان لیجئے اگر رب العزت انسان کو کسی اور ہی شکل و صورت سے تراشتا ، اس کی آنکھیں ماتھے پر رکھتا ،ناک کو سر کی پشت پر کردیتا اور منہ کو تھڈی کے نیچے رکھتا ۔ہم اِسے ہئیت کذائی کہہ سکتے ہیں مگر صورت حال یہ ہے کہ جب سبھی انسان ،انسانوں کی آبادی ایک ہی ناک نقشے کے ہوتے تو پھر کسی کو نہ اپنی اور نہ دوسرے کی عجیب و غریب شکل ہیت کذائی لگتی ۔ نہ کوئی کسی کو بھوت کہتا نہ وہ کسی کو بھوت سمجھتا مگر واللہ اگر رب نے ہم کو اسی طرح اُسی جمالیاتی نہج (Fair method)پر تراشا ہوتا تو آپ اپنی زندگی سے عاجز آکر سن ِشعور کو پہنچتے پہنچتے ہی خود کشی کرلیتے کیونکہ آپ کو اپنی زندگی کی بقا ء کے لئے حد سے زیادہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ۔وہ اس طرح سے کہ جب آپ کھانے کا لقمہ اٹھاتے تو پہلے اسے ماتھے پر لے جاکر آنکھوں کو دکھاتے یا ملاحظہ کے لئے پیش کرتے کہ آیا اُس میں کوئی میل ،کھوٹ ،گندگی یا کوئی قابل اعتراض پدارت تو نہیں،پھر سر کے پیچھے لے جاکر ناک کے حضور پیش کرتے تاکہ وہ سونگھ کر بتائے کہ لقمہ گلا سڑا ،ناقص یا بدبودار تو نہیں اور ان سب مراحل سے گزر کر ہی لقمے کو تھڈی کے پیچھے لے جاکر منہ میں ڈالنے کی باری آتی ۔اس صورت میں لقمہ دائیں بائیں بھی جاسکتا ہے اور ایک وقت کی غذا کھانے میں خاصا وقت لگ سکتا ہے ۔
غور فرمایئے موجودہ صورت حال میں یہ سب مراحل یکبار گی ایک ہی ثانیے میں روبہ عمل آجاتی ہیں ،ہاتھ لقمہ اٹھاتا ،آنکھیں دیکھتی ہیں ،ناک چلتے چلتے سونگ لیتی ہے اور منہ اسے قبول کرنے کے لئے پہلے سے ہی مستعد ہوتا ہے اور یہ سب پراسس بغیر کسی دِقت کے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ چاروں عمل ایک ساتھ وقوع پذیر ہوجاتے ہیں۔
لذات یوں تو سات آٹھ طرح کی ہوتی ہیں جیسے میٹھا ،نمکین ،کھٹا میٹھا ،کوڑا ، کڑوا ،ترش ،تلخ،پھیکا ،کھٹا وغیرہ ۔۔۔۔مگر حیرانگی ہوتی ہے جب ہم یہ جان پاتے ہیں کہ اللہ رب ِ خالق الباری نے جو زبان انسان کو عطا کی ہے وہ نہ صرف الفاظ کی ادائیگی ،بات چیت اور کھانے کومنہ میںہلانے جلانے میں ممدو معاون ہے بلکہ زائد از ایک ہزار لذات (Tastes)پرکھنے کی بھی متحمل ہے ۔کیا یہ صورت حال نظر اور مشاہدے میں ہوکر بھی ’’لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ‘‘کو بھول کر اور اُس واحد ذات کو ،مالک ِکون ومکاں کو چھوڑ کر ہم غیر اللہ اور دیوی دیوتائوں کو ہی پکارتے رہیں گے جبکہ بجز اُس قادر مطلق اور خالق ِ ارض و سماوات کے علاوہ کوئی ناصر و مددگار اور رزق رساں ہو ہی نہیں سکتا ۔ ہم کس قدر ناسمجھ و نافہم ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سوچیں،سمجھیں ،غور و فکر اور تدبیر کریں کہ یہ چھوٹی سی دنیاوی زندگی صرف ایک ہی بار ملتی ہے ،جو کچھ کرنا ہے زندگی میں ہی کرنا ہے ۔مٹی کے اندھیر گڈھے میں گئے تو دنیا کے سارے کنکشنوں کے فیوزاُڑ جاتے ہیں ۔اس لئے وہاں کا ویزا آنے سے قبل پائیدار اور اُخروی زندگی کے لئے کچھ پونجی جٹانی ضروری ہے ۔کوئی پونجی زاد راہ نہ ہو تو دنیا میں تہی دستوں کو سواریوں میں سفر کرنے کی اجازت نہیں ملتی ہے ۔وہاں کا معاملہ ہی دوسرا ہے ،کیا کانٹوں پر گھسیٹ گھسیٹ کر چلنا کچھ اچھا لگتا ہے ۔ اس لئے یہ دنیا چھوڑ دینے سے پہلے اور آنکھیں موند لینے سے قبل ،کسی اور دنیا کے لئے رخت سفر باندھنے سے بہت پہلے اس بات پر سوچنا ہے ،غور کرنا ہے بلکہ اس بات کو اپنے پلے باندھنا ضروری ہے ؎
سب ٹھاٹھ پڑ ا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارا
نظیر ؔ
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995