صحافت کے مچھلی بازار میں،ٹی وی اسٹیڈیو میں بیٹھے وہ زبان کا لانچر استعمال کرکے لفظی میزائل داغنے والے جنگ باز آج کل خاموش ہیں ۔ہم نے سنا ہے سانپ سونگھ جاتا ہے اور تب کوئی آواز نہیں نکلتی لیکن افواہ گرم ہے کہ چینی ڈریگن (Dragon) نے ڈس لیا ہے اور ڈریگن کا ڈسا تو پانی نہیں مانگتا بلکہ بڑے مگوں میں موجود کافی کو بھی ہاتھ نہیں لگانے دیتا۔کہاں اہل کشمیر اور مملکت خداد والوں کو دھمکی پہ دھمکی اور وار پہ وار کئے جاتے ہیں اور سرجیکل اسٹرائیک کا طعنہ بھی ملتا تھا بلکہ کبھی کبھی لگتا ہے کہ اسکرین توڑ کر باہر آئیں گے اور فوراًسرحد کا رُخ کردیں گے، اور ہم ہیں کہ ڈر کے مارے کونوں کھدروں میں سہمے سہمے دُبک جاتے ہیں کہیں کوئی زبانی ہتھیار نہ چھو لے۔چیخ و پکار میں آوازیں دب جاتی ہیں ۔ٹی آر پی کمانے کے لئے گالی گلوچ ، دشنام طرازی، حتیٰ کہ فقرے بازی سے بھی کام لیا جاتا ہے اور پھر شور ہی شور سنائی دیتا ہے ۔اتنا شور کہ ہمیں بچپن کا وہ ریڈیو سیٹ یاد آتا ہے جس پر کچھ سنتے ہوئے آرا ء مشین جیسا کھر کھر کانوں سے ٹکراتا ہے۔جانے آج کل اتنا سناٹا ہے کیوں ہے بھائی؟وہ جو سکم اور بھوٹان سرحد پر چھوٹی چھوٹی آنکھوں والے ہندی چینی بھائی بھائی کامسکہ قبول نہ کرنے والے فوجی گھس آئے ہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے منہ سے بڑی بڑی دھمکیاں دیتے ہیں کہ ہٹ جائو نہیں تو ہمارے بلڈوزر کے سامنے بنکر سمیت گم ہوجائو گے ، گھس کر دھما دھکا ،تھما تھپڑ لگا مکہ والا منظر بنایا اور نوچنے کھانے والی نظروں کا برتائو کرڈالا اور ادھر سے بس ڈسپلن کا مظاہرہ ہوا بلکہ اس نظم و ضبط کی تصویرکشی ہوئی کہ دیکھو بھائی لوگو! ہم نے کوئی جذباتیت( بمعنی جرأت) سے کام نہیں لیا تاکہ کہیں تم لوگ آپے سے باہر نہ جانامگر ادھر سے دھمکی اس قدر زور دار ہے کہ ۱۹۶۲ ء والا سبق یاد کرو۔جب بھی کسی سرحد پر چھینا جھپٹی ہوتی ہے اہل کشمیر خوف کھاتے ہیں کہ لڑتے وہ ہیں مگر خمیازہ ہم اٹھاتے ہیںاور ۱۹۶۲ تو ہندی چینی بھائی بھائی کہتے ہوئے ہمارے چین کرال محلہ تک اپنی زمین کا دعویٰ ٹھوک ڈالا تھا ۔ ہم تو ابھی نوگام، بھمبر گلی کا مسلٔہ حل نہیں کر پائے چنکرال محلہ کا کیا کریں گے!!!ہم تو کہتے ہیں کہ یادِ ماضی عذاب ہے یارب اسلئے بھول جائو لیکن وشال بھارت کے وزیر جنگ نے فوراً پلٹ وار کیا کہ ہم تو ادھر اپنے اٹوٹ انگ میں بھی جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ ہم باسٹھ والے اب نہیں رہے ۔ابھی ہمارے پاس تمہارے جیسے میزائل نہ ہوں لیکن صحافت کے مچھلی بازار میں ہم حافظ سید سے لے کر ینگ میرواعظ اور پیر بزرگوار ساکنہ سویہ بُگ کو بھی زیر کردیتے ہیں کہ سدھر جائو نہیں تو ارناب کا تائو مہنگا پڑے گا، معروف کا جلال دیکھو، مونچھڑ جنرل کے منہ سے ٹپکتی رال دیکھو، سابق کرنل کا گالی گلوچ، پیشگی فوجی ملازمت چھوڑنے والے آریہ کی توپ ،جو وہ ڈر کے مارے فوجی سرشتے کو دکھا کر بھاگا تھا،میدان عمل میں کود جائیں گے اور آپ سب کو کان پکڑ لے آئیں گے اور اے این آئی اے کوتوالوں کے سپرد کردیں گے کی نانی یاد آجائے۔پھر بھلے روپے پیسے کا کیس نہ بنے لیکن وارنٹ تو نکل ہی جائے گاکیونکہ کسے کن الزامات کے دلدل سے گزارنا ہے وہ کوئی اسٹیڈیو جنگ بازوں سے سیکھے اور پھر اہل سیاست تو اُن کی پیٹھ بھی تھپتھپاتے ہیں جیبیں بھی پھرتے ہیں کہ چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے۔تم شور مچاتے رہو ہم اصل مدوں سے بچے رہیں گے۔کوئی بے روزگاری کا سوال نہیں اٹھائے گا، کسانوں کی خودکشی کا بھوال نہیں پوچھے گا۔پندرہ پندرہ لاکھ جمع نہ کرانے کا ملال نہیں رکھے گا۔ایسے میں مودی مہاراج فلائٹ موڈ میں ہیں گے اور خلاء سے واپس زمین پر آنے سے کترائیںگے۔ سات سمندر پار سے پریوں کے بازار سے نت نئی کہانیاں بن کر لائیں گے۔وہاںموجود اپنے ہی زعفران زار سے سواگت کروا کر ہمیں اس خوب خراگوش میں رکھیں گے کہ عیش کرو ، بھارت ماتا کی جے بولو، مودی مہاراج کے گن گائو کہ ٹرمپ تانیتن یاہو تک یہی ترانۂ ہندی گاتے ہیں ۔اسی لئے تو پیر صاحب ساکن سویہ بُگ کو ہم نے آشیاں سے اٹھاکر آسمان تک پہنچا دیا کہ اب چٹکیوں میں وہ ایک بین الاقوامی شخصیت بن گئے ۔ابھی تک درویش خدا مست کو بھارت پاک کے لوگ ہی جانتے تھے، پہچانتے تھے لیکن اب کی بار مودی ٹرمپ سرکار نے عالم عالم خبر کردی کہ حضرات ان مہاپُر ش سے ملئے، یہ ہمارے سات لاکھ باسلح سامان نفری کو سونے دیتے ہیں نہ رونے دیتے ہیں ۔
ادھر گئو ماتا کے بھگت مارکٹائی کا مشغلہ پالیں گے۔مودی مہاراج مذمت کریں گے اور بھکتوں کے کان پر جوں نہ رینگے گی کیونکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ کوئی کتنا ہی شور کیوں نہ مچائے مار پیٹ کا کارخانہ چلتا رہے گا کیونکہ بھارت ورش کو گھسیٹواور پھونک دو کے اکھاڑے میں تبدیل جو کرنا ہے۔ یہی اچھے دن ہوتے ہیں ، یہی میٹھی راتیں ہوتی ہیں ۔کچھ گاؤ بھگت اس آندولن میں اتنے مست ومگن ہیں کہ کسی کو بھی گھر پر ڈھونڈنے جائیے تو پتہ چلے گا کہ دکھیا، سکھیا ، رامو اور شامو کام کاج چھوڑ گائے ماتا کی رکھشا میں مسلم جا تی کومر تیو ڈنڈ دینے گئے ہیں، بچارے رام سیوکوں پر آج کل کا بوجھ کافی بڑھ گیا ہے،اس لئے دن کا چین نصیب ہے نہ رات کا آرام۔جموں سے اندور تک اور گجرات سے آسام تک گئو رکھشکوں کی وانر سینا صبح شام دن رات کام پر لگی ہوئی ہے۔ اس کا اچھا اثر اٹوٹ اَنگ پر بھی پڑا کہ ایک منتری عمران انصاری نے سنتریوں جیسے جوش میں دُبلے پتلے ایم ایل اے دیوندر راناکو کڑک دھمکی دی کہ ادھر ہی اسمبلی میں تجھے Lynch نہ کردوں تو میرانام نہیں۔ صحبت کا اثر ہے بھائی۔ادھر ایسے میں شاہ سے زیادہ وفادار کا ثبوت دینے والوں کی تعدا د بھی بڑھتی رہے گی۔وہ اپنی پسند کی بولیاںدریافت کریں گے جس سے کرسی کے چاروں پائے محفوظ رہیں ۔یقین نہ آئے تو مختار نقوی کو ہی دیکھو کہ اسے صبر و استقلال بھارتی ڈی این اے میں موجود ملتا ہے اور مسلمانوں کی مار پیٹ ہلاکتیں کہیں کچھ بھی نہیں دکھائی دیتیں۔یا ہوسکتا ہے قوموں کا ڈی این اے کرانے کا کوئی نیا طریقہ بھگوا رنگ والوں سے آڈر لے کر مختار نے ایجاد کرایا ہو جس سے سب کچھ حسین وجمیل اور دلدار ہی نظر آتا ہے ۔ یعنی مختار بھلے نام کا ہے لیکن اپنی ہی آنکھوں پر اختیار نہیں بلکہ کانوں پر بھی کم کم کہ چلتی پھرتی خبریں سنائی نہیں دیتیں۔یا ہو سکتا ہے کہ اس میں بھی مملکت خداداد والوں کے پیچھے بھی کوئی سازش ہو تاکہ امر یکہ کی راج دُلاری اسرائیل کی پیاری پیاری مودی سرکار کو بدنام کیا جائے۔مطلب کسے نہیں معلوم مملکت والے ہیضے والے چوہے، ڈینگو والے مچھر، جاسوسی والے کبوتر اور ا ب کی بار سابرملائی مندر میں بیس روپے کا نوٹ بھی پہنچانے میں کامیاب ہوئے پھر مار کاٹ والے بھکتوں کی کیا بات ہے۔ پہلو خان سے لے کرجنید اور علیم الدین اللہ کو پیارے ہوئے ہی نہیں۔انہیں کسی نے مارا پیٹا نہیں۔ لوگ تو ایسے ہی فرضی کہانیاں گھڑ لیتے ہیں۔ کچھ ہوا ہوتا تو کیا مودی سرکار کے وزیر با تقصیر کو پتہ نہیں چلتا کیا؟ایک اور ہے جو زعفران زار میں لاشوں کا کاروبار کرتا ہے، اسی لئے دادری میں گئو ماتا کے نام پر جب اخلاق کا قتل ہوا تو اس کی لاش بچھانے کے بدلے بھکت کو پچیس لاکھ ملے اور پھر ترنگے میں خود اس کی لاش لپٹ گئی ؎
ایک ہی خوف مجھے شام و سحر لگتا ہے
جان آفت میں ہے خطرے میں شہر لگتا ہے
شیر آجائے مقابل تو کوئی بات نہیں
گائے پیچھے سے گزر جائے تو ڈر لگتا ہے
خیر اپنے ملک کشمیر میں بھی لاشیں بچھتیں ہیں اور ساتھ میں زندہ لوگوں کی اتنی قیمت نہیں جتنی مردوں کی ہے۔عام لاش بچھے تو ایک لاکھ، کوئی بندوق بردار ہو تو دس، پندرہ، بارہ لاکھ جو بھی وردی والوں کا من کرے اتنے میں بیچ ڈالیں ۔ کھنہ بل سے کھادن یار تک ، کنگن سے سورسیار تک ،جب بھی انکاونٹر ہوتا ہے تو فوراً بولی لگ جاتی ہے کہ دس لاکھ ، بارہ لاکھ والا ملی ٹنٹ مارا گیا۔عام آدمی کے ایک لاکھ سے تو دفتر والے انکم ٹیکس بھی کاٹ لیتے ہیں لیکن وردی والوں کے انعام سے تو دفتر دفتر فوراً واگزاری ہوتی ہے۔ٹیکس کی بات چلی تو آج کل جی ایس ٹی سینا نے مورچہ سنبھالا ہے۔گجرات سے آسام تک کشمیر سے کنیا کماری تک اسی کا بول بالا ہے۔اس کا شوق بھی نرالا ہے،رات کے اندھیرے میں اس کے چہرے سے نقاب الٹ دی گئی جیسے کوئی نئی نویلی دلہن ہو جس کی آرتی اٹھائی جارہی ہو۔پارلیمان میں سواگت کرنے صدر ہند اور دوسرے اہل سیاست پہنچے لیکن اسے ملک کشمیر میں حجلۂ عروسی نہ ملی۔کنول قلم دوات والے اس کے سواگت کے لئے بے چین اور اس شادی کے خلاف لوگ سر بہ کفن کہ یہ شادی ممکن نہیں۔اسمبلی میں کچھ ایسا سوانگ ہوا کہ ہمیں دکھائی دیا جیسے سچ میں اے میلے صاحبان گھتا گھتم ہوئے، فائل اُڑے،دشنام طرازیاں ہوئیں، لاتیں مکے چلے۔ حد تو یہ کہ کنول والوں کا بھارتی انفیکشن اپنے قلم دوات والوں کو بھی اپنے لپیٹے میں لے آیا ۔وہ جو بھارت ورش میں لنچنگ کرتے ہیں، اپنے قلم والے وزیر نے ہل والے ممبر کو خود اسمبلی میں ہی لنچ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔کہاں ایک دوسرے کو قوم کے غم میں ڈنر اور لنچ کھلاتے تھے اور کہاں چھینا جھپٹی کے موسم میں لنچ کرانے کا حکم حاکم جاری کردیا۔ گمان یہ ہوا کہ جی ایس ٹی اصل میں فلمی دکھا وا ہے جس کے ڈائیلاگ فلم گالی، فلم تالی ، فلم طعنہ بازی ، فلم منافقت سے چرا لئے گئے ہیں تاکہ نئی فلم کے تمام کردار بس لفاظی کی جنگ میں مصروف ر ہیں اور کام مر کز کا ہو کہ اٹو نومی کا سر رہے نہ پیر ۔ ایوان اسمبلی اور کونسل میں نام کی سرد جنگ اسی لئے گرم گفتاری کے اسلحہ سے لڑی گئی، دو طرفہ بیان بازی کے تیر وتفنگ بھی چلے لیکن شام ہوتے ہی شو ختم پیسہ ہضم ہو ا۔ سب کردار ایک ودسرے سے بغل گیر ہو کر فلم کی کامیابی پرخوشی خوشی ہاتھ ملاتے ہوئے وداع لے گئے۔ چونکہ لاشوں کا کاروبار جاری ہے، اسی لئے ۳۷۰ کی کوئی میت اٹھا رہا ہے، کوئی اس کے ہڈیوں کے ڈھانچے سے گرد جھاڑ رہا ہے ،کوئی اس کے بے نور چہرے پر شوخ رنگ غازہ مل رہا ہے یعنی وہ جو ہل والے، قلم دوات والے ، ہاتھ دکھانے والے عمر بھر اس کی بیخ کنی میں مصروف رہے، زندگی بھر اس کی جڑیں کاٹ کر وقت گزارتے رہے ،و ہیں آج اس کے مرجھائے ہوئے پتوں کی آبیاری کے لئے دو لوٹا پانی لے کر ایوان میں آئے۔مطلب یہ کہ جسے نہلانے کی ضرورت ہے ،اس کے منہ پر پانی کی بوندیں چھڑکتے گئے تاکہ اس کی غشی کا عالم ختم ہو ؎
بلی جو یونہی مفت میں بدنام ہوئی ہے
تھیلے میں تھا کچھ اور ہی سامان وغیرہ
لیکن اپنی نیشنل فوج جب ترنگ میں آتی ہے تو اونچا رہے گا ہل والا جھنڈا کا نعرہ مستانہ لگا کر مرکز کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا کرتی ہے بلکہ تلاطم خیز موجوں سے نہیں ڈرتی اور بہتے دھاروں کو پلٹ دیتی ہے۔آئو دیکھتی نہ تائو با ضابط ڈرے سہمے بغیر اعلان کرتی ہے کہ قائد ثانی کا تبصرہ سنو ۔ڈفلی بجانے کا شوق پورا کرتے ہوئے خادمِ خا نیار شہر خاص نے اپنے لیڈر کے سر میں تال ملایا اور یہ بھی کوئی عام تبصرہ نہیں ہوتا بلکہ دلی دربار کو چیتاؤنی دے کر کہتے ہیں کہ ان کی نیت کبھی ٹھیک نہیں تھی۔یہ ہوئی نا بات اپنی نیشنلی فوج جب وار کرتی ہے تو نتائج سے نہیں ڈرتی ،یعنی جو پیار کیا تو پیار کیا ، جو نفرت کی تو نفرت کی۔اسی لئے جب نیشنل فوج بھاجپا سینا کا حصہ تھے تو گجرات جلتا رہا اور ہل والے بین بجاتے رہے کیونکہ اس وقت پیار کا موسم ہنی مون کا سیزن تھا ۔ اور اپنے تاجر ان عارضی نظر بندی سے چھوٹ کر سگریٹ ماچس واپس مانگتے ہیںکیونکہ یہی دھویں کا منبع ہماری ہر پریشانی کا علاج بنتا ہے۔ہم نے صدیوں سے فکر و پریشانی کا علاج خود ہی دریافت کیا اور اس علاج کے جملہ حقوق ہمارے پاس محفوظ ہیں اورموجود ہیں۔ہم ہی تو ہیں جو ہر فکر دھویں میں اُڑاتے ہیں۔بھلا جی ایس ٹی کے اس شور و غوغا میں یاسین خان اس کے سوا کریں بھی کیا؟؟
نوٹ:صاحب مضمون انگریزی ناول The Half Widowکے مصنف ہیں۔
رابط[email protected]/9419009169