عارف شفیق نے کیا خوب کہا ہے ؎
غریبِ شہر تو فاقے سے مر گیا عارف
امیرِ شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی
دورِ حاضر میں غریب دو وقت کی روٹی کیلئے چند سکے کمانے میں رات دن محنت و مشقت مشغول ہے، جب کہ امیر رات دن روپیہ پیسے بنانے میں لگا ہوا ہے ۔ غریب پیسہ کمانے اور امیر پیسہ سنبھالنے میں مصروف ہے۔ نگہت پروین نے کتنا کھرا سچ کہا ؎
غریب لوگوں کی عمر بھر کی غریبی مٹ جائے گی اے امیرو!
بس اک دن کے لیے ذرا سا جو خود کو تم سب غریب کر لو
امیر کبھی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا اور غریب کے ناک پر مکھی خود ہی نہیں بیٹھتی ۔ مکھیوں کا بھی اپنا ایک معیار ہے، انہیں بھی غرور پسند نہیں ،یہ بھاگ بھاگ کر وہی جاتی ہیں جہاں انّا ہو ،تکبر ہو ،خود پسندی،ظاہری مٹھاس ہو۔ آج کل تقریباً سب ہی غریبوں نے امیروں کو گود لے رکھا ہے۔غریب سب سے زیادہ حقوق العباد نبھاتے نظر آتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اگر غریب امیروں کے ہاں نوکریاں نہیں کرتے تو کیا ہوتا اور کیا نہیں ہوتا۔صاحب صبح صبح مالی بنا پودوں کو سیراب کرتا ؟ ڈرائیور کی وردی پہن کر خود کو گاڑی صاف کرجاتا ؟ گھر آکر سوٹ بوٹ پہنے کسی رکشے میں بیٹھےبازار گھومنے جاتا ؟اپنے آپ کو خود چھ چھ ماہ کی بقایا تنخواہ دینے کی تکلیف سہتا؟ بات بات پراپنی ڈانٹ دپٹ کرتا ؟اپنی ٹانگیں خود ہی دباتا ؟مہمانوں سے جا کر کہتا ابھی صاحب آتے ہیں، پھر خود بال سنوارے کوٹ پتلون پہنے مہمان خانےچائے لےآتا؟خود کو گن گن کر سودا سلف کیلئے پیسے دیتا ؟ خود پر ہی شک کرتے ہوئے ہر ماہ نہ دینے والی تنخواہ میں سے ایک چوتھائی کاٹ لیتا ؟اس کے آگے وغیرہ وغیرہ کی لمبی سوالیہ فہرست چلی جاتی ہے۔میں نے زندگی بھر غریب سے بڑا حقوق العباد کا محافظ نہیں دیکھا۔غریب کے گھر آٹے کا کنستر ہوتا تو ہے مگر صرف کچن کی زینت بڑھانے کے لئے۔بچارے امیر کے گھر تو آٹے کے بڑے بڑے ڈرم ہوتے ہیں ۔غریب بھی گوشت کھاتا ہے مگر صرف بقر عید ،عقیقہ یا ہمسایہ رشتہ کی شادی پر۔امیر کے ہاں کبھی دال نہیں پکتی کیونکہ اس کے پاس اتنے کھلے پیسے ہی نہیں ہوتے کہ دال منگوا سکے۔دال تو بیس پچاس کا گیم ہے جو امیر کیلئے شیم ہے۔امیری ایک ایسا نشہ ہے جِس کے ہوتے امیر آدمی صرف وہ دیکھتا ہے جو وہ چاہتا ہے، جب کہ غربت انسان کو نہ چاہتے ہوئے بھی سب کچھ دکھا دیتی ہے۔ارسطو نے لکھا ہےکہ ایک دن شاہ حیرون کی ملکہ نے سمانا ویس سے پوچھا دانش مند ہونا بہتر ہے کہ دولت مند ؟ سمانا نے جواب دیا :دولت مند ہونا بہتر ہے ۔ہم دانش مندوں کو دیکھتے ہیں کہ ہر وقت امراء کے دروازوں پر منتظر کرم بیٹھے رہتے ہیں ۔کسی دانشور نے غریب کے جذبات کی کیا خوب منظر کشی کی ہے :ایک مرتبہ بستر ناریہ میں ایک ماریا (قدیم باشندہ)کو موت کی سزا دی گئی، پھانسی سے قبل اس سے پوچھا گیا کہ آخری خواہش کیا ہے؟کوئی دل پسند کھانا؟اس نے کچھ چپاتیاں اور مچھلی کا ایسا سالن مانگا جو شہری طریقے سے تیار کیا گیا ہو، یہ اُسے مہیا کر دیا گیا تو اس نے اس میں سے آدھا بڑی رغبت سے کھایا اور باقی ماندہ ایک پتے میں لپیٹ کر جیلر کو یہ کہہ کر دیاکہ اس کا چھوٹا سا پوتا جیل کے دروازے کے باہر کھڑا میری لاش کا انتظار کر رہا ہے، لڑکے نے کبھی ایسی لذیز چیز نہیں چکھی ہےلیکن اب اسے یہ تو ملنی چاہیے۔ویریر ایلون لکھتا ہے ’’ایک دن ایک خاندان ہمارے پاس روتا ہوا آیا کیونکہ ان کی جھگی مع تمام اثاثہ آگ سے تباہ ہو گیا تھا ۔جب میں نے ان سے پوچھا کہ انہیں اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کیلئے کتنے روپے کی ضرورت ہے ؟ تو انہوں نے کہا:چار روپے۔ یہ ہے غربت کا سکھایا ہوا توکل!!!