سرینگر// کرالہ پورہ کپوارہ میں29جون کو فوج کے ساتھ جھڑپ میں جاں بحق جنگجو کو مدثر احمد قرار دیتے ہوئے برزلہ سرینگر کے ایک کنبے نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ انکا بیٹا ہے۔ مدثر نامی نوجوان کے رشتہ داروں نے پریس انکلیو اور برزلہ میں احتجاج کرتے ہوئے لاش کی سپردگی کا مطالبہ کیا۔ اس دوران برزلہ میں میں مقامی نوجوانوں اور فورسز کے درمیان سنگبازی اور شلنگ کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ سرینگر کی پریس کالونی میں برزلہ علاقے سے آئی ہوئی بیسوں خواتین نے احتجاج کرتے ہوئے کرالہ پورہ جنگل میں جاں بحق ہوئے نوجوان کی لاش کا مطالبہ کیا۔مقامی لوگوں کے مطابق مدثر احمد بٹ ولد غلام محمد بٹ نامی یہ نوجوان2سال قبل تک عیدگاہ برزلہ کے نزدیک کریانہ کی ایک دکان چلا رہا تھا،جس کے بعد وہ لاپتہ ہوا۔اہل خانہ کے مطابق مدثر احمد نے جنوری2017میں کنبے کو بتایا کہ وہ سعودی عرب جائے گا،جس کے بعد اپنی اسناد لیکر وہ دہلی چلا گیا،اور ایک ہفتے کے بعد اس کا گھر والوں کیساتھ رابطہ ٹوٹ گیا۔ مدثر کے بھائی نے بتایا چونکہ مدثر کسی بات پر گھر والوں سے ناراض تھا،اس لئے انہوں نے سوچا اسی لئے وہ گھر والوں سے رابطہ نہیں کر رہا ہے،تاہم29جون کوکپوارہ سیکٹر میں ایک عسکریت پسند کے جاں بحق ہونے کے بعد انہیں اطلاع ملی کہ جاں بحق ہوا نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ مدثر ہے۔انہوں نے بتایا’’میں شام کو گھر کے باہر تھا،اور اسی اثناء میں موٹر سائیکل پر سوال ایک نوجوان آیاجس کے سر پر ہیلمٹ تھی،اور اس نے مجھ سے مدثر کا پتہ پوچھا،جب میں نے اس کو بتایا تو ایک کاغذ کی پرچی ہاتھ میں تھما گیا‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ جب میں نے کاغذ کی پرچی کھولی تو اس میں مدثر احمد ولد غلام محمد بٹ ساکن اولڈ برزلہ عرف ابو عبداللہ تحریر کیا گیا تھا،اور اسی اثناء میں مذکورہ نوجوان بھی چلا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ بعد میں انہوں نے کرالہ پورہ تھانہ سے رابطہ قائم کیا،مگر کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مدثر کے بھائی نے بتایا کہ انہیں لگ رہا تھا کہ مدثر سعودی میں ہے۔ادھر معلوم ہوا ہے کہ2016کے آخر میں مدثر کو سنگبازی کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا،اور انکے خلاف کئی ایف آئی آر بھی درج تھے،تاہم انہیں بعد میں ضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔ادھر ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس امن و قانون منیر احمد خان نے کہا کہ وہ متاثرہ اہل خانہ کو مدد کرنے کی کوشش کریںگے۔احتجاجی خواتین میں مدثر احمد کی بہنیں اور قریبی رشتہ دار بھی تھے،جنہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ2سال قبل مدثر لاپتہ ہوا،اور گزشتہ روز انہیں بات کی اطلاع موصول ہوئی کہ کیرن سیکٹر میں29جون کو جھڑپ کے دوران جو عسکریت پسند جاں بحق ہوا،وہ انکا مدثر ہے۔ احتجاج میں شامل ایک دوشیزہ نے کہا کہ مہلوک مدثر کی نعش کیلئے انہوں نے کپوارہ پولیس سے بھی رابطہ قائم کیا تھا،تاہم انہیں نعش کی سپردگی نہیں کی گئی۔اس سے قبل برزلہ میں تحریک حریت کے اہتمام سے ایک تقریب کا انعقاد ہوا،جس میں مدثر کے بزرگ والد نے بھی شرکت کی۔ تقریب کے دوران مدثر کے بزرگ والدین نے کہا کہ گزشتہ2روز سے وہ نعش کی حصولیابی کیلئے در در پھر رہے ہیں،تاہم ابھی تک انہیں نعش نہیں دی گئی۔انکا کہنا تھا کہ وہ اپنے لخت جگر کی نعش کو اپنے طریقے سے سپرد خاک کرنا چاہتے ہیں،جبکہ2برسوں سے اسکا چہرہ بھی نہیں دیکھاہے۔ادھرسنیچر اور اتوار کو علاقے میں سنگبازی اور شلنگ ہوئی۔