سرینگر//ریاستی حکومت نے ڈویژنل کمشنر کشمیر اور انسپکٹر جنرل آف پولیس کی وساست سے وادی کے تمام ہائر سکنڈری ، ہائی ، مڈل اور پرائمری ا سکولوں میں تعینات خواتین اور مرد اساتذہ کو رات اور دن سکولوں کی چوکیداری کرنے پرمامور کردیا ہے ۔اس سلسلے میں باضابطہ طور پر ڈائریکٹر سکول ایجوکیشن کی طرف سے حکم نامہ بھی اُجرا کیا گیا ہے ۔ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے شمالی ، جنوبی اور وسطی کشمیر میں تمام سکولوں کی حفاظت کرنے کیلئے 2نومبر سے اساتذہ نے دن اور رات کی ڈیوٹی دینے کی شروعات کر دی ہے ۔ کشمیر عظمیٰ کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یکم نومبر کو ڈویژنل کمشنر کشمیر اور آئی جی کشمیر نے وادی کے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں ، چیف ایجوکیشن ،زونل ایجوکیشن افسران ، ضلع پلاننگ افسران کے علاوہ ایس ایس پیز کیساتھ ایک ویڈیو کانفرنس طلب کی جس میں کہا گیا کہ وادی بھر میں آئے روز سکول جلانے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور سکولوںکے عملے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سکولوں کو بچانے کیلئے اپنا تعاون پیش کریں اور ولیج کمیٹی، دہی کمیٹیوں، دیہات کے نمبرداروں، سر پنچوں اور چوکیداروں کو بھی اس عمل میں شامل کر کے ان سے مدد لیں۔27اکتوبر2016کو آڈر زیر نمبر DSEK/plg/105اور 30اکتوبر 2016 آڈرزیرنمبر /105 DSEK/PLG/GUTEDکے تحت زمینی سطح پر سکولوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے چیف ایجوکیشن افسروں کو اپنے حدود کے تحت آنے والے اسکولوں اور تعلیمی اداروں کی فہرست مرتب کی گئی اور پولیس کی طرف سے ان سکولوں کو حساس، انتہائی حساس اور پرامن زمروں کے تحت مرتب کرنے کی ہدایت دی گئی ۔چوکیداروں ، سی پی ڈبلیو اور مقامی اساتذہ کو بھی دن کے وقت اسکولوں میں موجود رہنے کی ہدایت دی گئی ۔جبکہ زونل ایجوکیشن دفتروں ، اداروں کے سربراہوں کی سطح پر مقامی پولیس تھانوں اور نزدیکی فائر اینڈ امریجنسی عملے کے فون نمبرات کو دستیاب رکھنیکی بھی ہدایات دی گئیں ہیں ۔ناظم تعلیمات کی طرف سے اس ضمن میں باضابطہ ایک حکم نامہ جاری کیا گیا جس کی ایک کاپی کشمیر عظمیٰ کے پاس دستیاب ہے۔اس حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ڈویژنل کمشنر اور انسپکٹر جنرل آف پولیس کیساتھ ہوئی میٹنگ کی رو سے اگر کسی سکول کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو اسکی ذمہ داری، پرنسپل یا ہیڈماسٹر پر ڈال دی جائے گی۔قابل غور بات یہ ہے کہ اس حکم نامے میں رات کی پہرے داری کرنے کیلئے متعلقہ سکولوں میں کام کررہے سٹاف کو مامور کرنے کیلئے کہا گیا ہے، تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن سکولوں میں پہلے سے چوکیدار موجود ہیں انکی خدمات کو بھی بروئے کار لایاجائے۔ناظم تعلیمات کے حکم نامے کی کاپیاں متعلقہ چیف ایجوکیشن افسران کو ارسال کردی گئیں ہیں اور حکم نامے پر فوری طور شمال و جنوب میں عمل درآمد شروع کردیا گیا ہے۔پوری وادی کے ہائر سکنڈری، ہائی، مڈل اور پرائمری سکولوں کے پرنسپل اورہیڈ ماسٹروں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ متعلقہ سکولوں کے روسٹر بنائیں تاکہ اساتذہ کو ڈیوٹیوں پر مامور کیا جائے۔سب سے حرین کن بات یہ ہے کہ سکولوں میں تعینات خواتین ٹیچروں کو رات اور دن کی ڈیوٹیوں سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا ہے بلکہ اکی ڈیوٹیاں بھی چوکیداری کرنے پر لگا دی گئی ہیں۔شمالی کشمیر کے کپوارہ، بانڈی پورہ اور بارہمولہ اضلاع میں خواتین ٹیچروں کو دوران شب سکولوں کی چوکیداری پر مامور کیا جاچکا ہے اور وہ پچھلے تین روز سے ڈیوٹیاں دے رہی ہیں۔جو خاتون ٹیچر غیر شادی شدہ ہے اس سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے والد یا بھائی کو ساتھ رکھیں، اور جو شادی شدہ ہیں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے خاوند کو ساتھ رکھیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ ڈیوٹی روسٹر اس طرح بنایا گیا ہے کہ سکول میں تعینات سٹاف کی تعداد کے حساب سے مرد اور خواتین کو ایک ساتھ رات اور دن کی ڈیوٹی پر مامور کیا جاچکا ہے۔وسطی کشمیر میں بھی تمام سکولوں کے اساتذہ کو اسی طرح رات اور دن کی ڈیوٹی پر مامور کیا جاچکا ہے۔بڈگام ضلع میں خواتین اساتذہ کو صرف دن کی چوکیداری کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔سرینگر میں بھی اسی طرح کا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔جنوبی کشمیر کے چاروں اضلاع اننت ناگ، کولگام، شوپیان اور پلوامہ میں خواتین اساتذہ کو دن کی چوکیداری کرنے کیلئے کہا گیا ہے جبکہ رات کو صرف مرد اساتذہ چوکیداری کریں گے۔تعلیمی اداروں کی آتش زنی کے بعد سکولی اساتذہ کو چوکیداری پر مامور رکھنے کے فیصلے کے خلاف دوسرے روز بھی اساتذہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کے اس فیصلہ کو غلط قرار دیکر کہا کہ سکولوں میں ڈنڈا اٹھا کر رات بھر چوکیداری کرنا اُن کے بس سے باہر ہے جبکہ سکولوں میں بجلی، پانی ،کھانے پینے کا انتظام تک نہیں ہے اور نہ ہی کسی سکول میں گرمی کا کوئی بندوبست ہے ۔کپوارہ ضلع میں دوسری رات بھی خاتون اساتذہ کی ڈیوٹیاں سکولوں کی حفاظت کیلئے رکھی گئیں تھیںجبکہ چیف ایجو کیشن افسر کپوارہ نے یہ یقین دلایا تھا کہ حکومت نے یہ فیصلہ واپس لے لیا ہے اور اب خواتین اساتذہ کو ڈیوٹی سے مستثنیٰ رکھا جائے گا، تاہم ضلع کے ویلگام اور دیگر علاقوں سے کشمیر عظمیٰ کو خواتین اساتذہ نے فون پر بتایا کہ ان کے نام روسٹر لسٹ میں رکھے گئے ہیں ۔کئی ایک استانیوں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ انہیں کہا گیا ہے کہ وہ اگر ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہو سکتی تو انہیں گھر کے کسی فرد کو ڈیوٹی پر بھیجناہو گا ۔انہوں نے کہا کہ اساتذہ کا پیشہ ایک مقدس پیشہ ہے اور وہ فوجی یا پولیس اہلکار نہیں جنہیں اس طرح کی صورتحال سے نپٹنے کیلئے تربیت فرہم کی گئی ہو ۔انہوں نے کہا کہ پہلے اساتذہ ہاتھوں میں چھڑی بچوں کو ڈرانے کیلئے اٹھاتے تھے لیکن اب ہاتھ میں ڈنڈا اس لئے دیا گیا ہے تاکہ ہم لوگ رات بھر بیدار ہو کر سکول کی چوکیداری کریں اور جاگتے رہو کی آوازین بلند کریں ۔انہوں نے کہا کہ کئی ایک خواتین اساتذہ بیمار ہیں جبکہ کئی ایک زچگی میں مبتلا ہیں ،اتنا ہی نہیں بلکہ کئی ایک کو کئی کلو میٹر دور سے سکولوں کی چوکیداری کرنے کیلئے پہنچناپڑرہا ہے ۔اساتذہ نے سرکار پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وادی کے اکثر علاقے ایسے ہیں جہاں کافی سردی کا زور ہے وہاں دوران شب تعلیمی اداروں کی نگرانی کرنا کوئی معمولی بات نہیں ۔ان اساتذہ کا کہنا ہے کہ خاص طور پر سرحدی اور دور دراز علاقوں، جہاں دوران شب فوج،ٹاسک فورس اور دیگر فورسز کی ایجنسیاں گشت پر ہوتی ہیں،میں چوکیداری کرنا اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے برابر ہے کیونکہ ماضی میں ایسے کئی ایک واقعات رونما ہوئے ہیں جب’’مس ایڈنٹٹی‘‘ یا شناخت میں غلطی کے سبب عام شہریوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔اس حوالے سے کشمیر عظمیٰ نے کئی مرتبہ ڈائریکٹر سکول ایجوکیشن سے رابطہ قائم کیا تاہم انہوں نے فون اٹھانے کی زحمت گوارہ نہیں کی ۔