وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ روز سبھی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے وزرائے اعلیٰ سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے تین گھنٹوں تک گفتگو کی ۔یہ حالیہ ایام کے دوران ایسی تیسری کانفرنس تھی جس میں وزیراعظم مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے ہم کلام ہوئے اور اُن سے کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے نہ صرف معلومات حاصل کیںبلکہ ان کی دی ہوئی تجاویز کو بعد میں روبہ عمل بھی لایاگیا۔وزیراعظم کی جانب سے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ یہ تازہ ویڈیو گفتگو دراصل 3مئی کے بعد اپنائی جانے والی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے جس کے تحت نریندر مودی ایک بار پھر سبھی فریقین اور ریاستوں کو اعتماد میں لیکر پورے ملک کیلئے اگلا لائحہ عمل وضع کریں گے ۔چونکہ3مئی کو لاک ڈائون کا دوسرا مرحلہ ختم ہونے والا ہے اور عین ممکن ہے کہ تین مئی کو ہی وزیراعظم قوم سے ایک بار پھر مخاطب ہوں تو وزیراعظم اور ملکی قیادت اس سے پہلے ہی آنے والے ایام کیلئے ایک واضح لائحہ عمل مرتب کرنا چاہتے ہیں تاکہ سبھی اس پر چل کر اس ملک کو موجود بحران سے نکال سکیں۔
ویڈیو کانفرنس میں حسب توقع جن 9وزرائے اعلیٰ نے بات کی ،ان میں سے4نے مکمل لاک ڈائون کی توسیع کی حمایت کی جبکہ دیگرپانچ نے مشروط اور جزوی لاک ڈائون جاری رکھنے کی حمایت کی ۔گوکہ ابھی اس ضمن میں حتمی فیصلہ لیاجاناباقی ہے اور اس میں ابھی کچھ دن لگ سکتے ہیں تاہم اس ویڈیو کانفرنس اجلاس کے دوران وزیراعظم نے جو باتیں کیں،وہ حکومت کی مستقبل کی پالیسی کا کسی حد تک اشارہ دے رہی ہیں ۔وزیراعظم نریندر مودی نے بلا شبہ وزرائے اعلیٰ سے گفتگو میں کہا کہ لاک ڈائون کامیاب رہا ہے اور اس ضمن میںانہوںنے دلائل بھی پیش کئے ۔وزیراعظم کا یہ کہنا کہ اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود اتنی کم تعداد میں کیسوںکا آنا اس بات کا مظہر ہے کہ یہاں کورونا قابو میں ہے،حقیقت پر مبنی تجزیہ اور بیان ہے کیونکہ جس طرح اس وائرس نے ترقی یافتہ ممالک میں تباہی مچائی ہے ،ایسے میں خدشہ ظاہر کیاجارہا تھا کہ جب یہ وائرس بھارت پہنچ جائے گا تو یہاں اُس سے بھی زیاد ہ تباہی ہوگی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ فی الحال حالات کافی حد تک قابو میں ہیں اور جو خدشے ظاہر کئے جارہے ہیں،وہ صحیح نہیں نکلے ۔
لیکن اب جبکہ ہم ایک ماہ سے زائد عرصہ سے لاک ڈائون کی کیفیت میںہیں اور بقول وزیراعظم یہ طویل جنگ ہے جو مستقبل قریب میں ختم ہونے والی نہیں ہے تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم کس طرح کورونا وائرس سے لڑنے کے ساتھ ساتھ اپنی معیشت کو بھی پٹری پر واپس لائیں۔اس ضمن میں وزیراعظم مودی کا یہ کہنا بالکل برمحل تھا کہ ہمیں دو گز کی دوری بنائے رکھ کر گرین زونوںمیں بند پڑی اقتصادی سرگرمیوںکو بحال کرنا ہوگا تاکہ معاشی سرگرمیاں پھر سے شروع ہوں۔وزیراعظم کے مطابق ہمیں سماجی دوریوں کو بنائے رکھ کر فیس ماسک لگائے اپنی سرگرمیاں شروع کرنی چاہئے اور اپنے روز مرہ کے معمولات کو کچھ اس طرح تبدیل کردینا چاہئے کہ کورونا سے بچائو کی سبیل بھی بنی رہے اور روزگار بھی متاثر نہ ہو۔
وزیراعظم بالکل بجا فرمارہے ہیں کیونکہ یہ جنگ طویل ہے اور ہمیں یہ مان کر چلنا پڑے گا کہ سماج میں کورونا کے ہوتے ہوئے بھی ہمیں کام پر جانا ہے ۔عالمی معیشت لرزہ براندام ہوچکی ہے۔سٹاک ایکسچینج کی حالت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔عالمی سطح پر سٹاک مارکیٹ ٹھپ ہیں اور مندی کا رجحان اس قدر غالب آچکا ہے کہ امریکہ میں تیل کی قیمتیں صفر ڈالر تک پہنچ گئیں۔یہ صورتحال کسی بھی طرح کسی بھی ملک کیلئے اطمینان بخش نہیںہوسکتی ہے اور بھارت جیسے ملک کے لئے یقینی طور پر اس میں پریشانی کے بہت زیادہ اسباب ہیں۔ہمارے ملک میں کام گاروںکی تعداد 100کروڑ سے زیادہے جن میں بیشتر نجی سیکٹر جبکہ ایک اچھی خاصی تعداد سرکاری سیکٹر میں کام کررہے ہیں۔اگر لاک ڈائون جاری رہا تونجی سیکٹر کی بنیادیں ختم ہوجائیں گی اور یوں ملک کا دیوالیہ نکلے گا۔شاید اسی لئے لازمی ہے کہ ہم اپنے معمولات بحال کریں کیونکہ ملک اب مزید مکمل اور ہمہ گیر لاک ڈائون کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے ۔
کورونا سے بری طرح متاثرہ علاقوں میں سخت ترین بندشیں عائد رکھنا اچھی بات ہے اور ان علاقوںکے اندر یا باہر نقل وحمل بندرکھی جانی چاہئے تاہم باقی علاقوںمیں معمولات زندگی بحال کرنے کی سبیل پیدا کی جانی چاہئے۔اس ضمن میں یقینی طور پر بہت کچھ کیا جاسکتا ہے اور احتیاطی اقدامات کے ساتھ معیشی سرگرمیوںکو بحال کرنے کی راہ نکالی جاسکتی ہے تاہم اس سارے عمل میں ہمیں اس بات کو قطعی نہیں بھولنا چاہئے کہ لاک ڈائون کی وجہ سے ہم نے اب تک کورونا کے خلاف جو کامیابی حاصل کی ہے ،وہ ضائع نہ ہو کیونکہ اگر اس وقت بھی ہم نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا اور دوریوںکا کوئی پاس و لحاظ نہ رکھا تو یہ وائرس اس وقت بھی ہم پر حملہ آور ہوسکتا ہے اور پھر ساری محنت پر پانی پھیر جائے گا۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ معیشت کو پٹری پر لانے کیلئے معاشی سرگرمیاں بحال کی جائیں لیکن یہ سب انسانی زندگیوںکی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔