رات کا پچھلا پہر تھا ۔میں اپنے کمرے میں آرام سے سو رہا تھا کہ اچانک ایک پُر جوش اوررنج بھری آواز میرے کانوں سے کچھ اس طرح ٹکرائی کہ میں اُٹھ کھڑا ہوگیا۔ میں نے حیرت انگیز نگاہوں سے ادھر اُدھر دیکھا مگر کمرے میں میرے سوا کوئی دوسرا موجود نہ تھا ۔میں سہما سہما سا اپنے بیڈ سے اُٹھ کھڑا ہوا اور آنکھیں موندھتا ہوا کھڑی سے کان لگا کر اس آواز کو ذرا غور سے سننے لگا تو معلوم ہوا کہ یہ تو کسی کے مرنے کا اعلان ہو رہا ہے ۔’’مگر متوفی کون ہوسکتا ہے ؟میں نے من ہی من میں اپنے آپ سے سوال کیا‘‘۔یہ اعلان سنتے ہی میں فوراََ کمرے سے باہر آگیا تو دیکھا مجھ سے پہلے ہی گھر کے باقی افراد اُٹھ گئے ہیں اور آپس میں نہایت رنج وافسوس جتا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مرحومہ کی تعریف کر رہے ہیںاور دہاییاں دے رہے ہیں ۔میں نے پاس جاکر امی سے دریافت کیا ’’امی !کیا بات ہے ؟کون انتقال کر گیا ؟‘‘امی نے نہایت ہی غمگین لہجے میں کہا ’’ارے بیٹا !یہ تو صابرہ ہماری ایک پڑوسن کی موت کا اعلان ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔آج اچانک انتقال کر گئی ۔یہ سننا تھا کہ میں نے زور سے چیخ کر کہا ’’کیا صابرہ ؟وہ تو بھلی چنگی تھی نا امی ؟پھر اچانک کیا ہوا ۔امی نے مجھے تھامتے ہوئے کہا ’’بیٹا موت صرف بیمار جسم ہی کو تو نہیں آتی ۔یہ جسے آنی ہوتی ہے بس آہی جاتی ہے، چاہے مرنے والا بیمار ہو یا کہ اچھا بھلا ‘۔ویسے شاید موت ہی صابرہ کو تھوڑا سکون فراہم کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں امی؟موت کسی کو کیا سکون فراہم کر سکتی ہے بھلا؟میں نے کہا ‘‘۔۔۔۔۔امی نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا بیٹا’’انسان زندگی کو صرف اتنا ہی سمجھ پاتا ہے جتنی اُس نے خود جھیلی ہو،سمجھی ہو ۔ہم سب زندگی کو اپنے ترازو میں ہی تولتے ہیں اور زندگی کے بارے میں ہم سب کی رائے منفرد ہوتی ہے۔
میں نے امی کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا :’’مگر امی یہاں ان باتوں کا صابرہ کی موت سے کیا واسطہ ؟‘‘امی نے میری طرف دیکھا اور پھر معصومانہ لہجہ میں بولی تم نہیں جانتے بیٹا صابرہ جیتے جی کیسا عذاب جھیل رہی تھی۔ زندگی اُس پر گویا بوجھ بن چکی تھی وہ مجھ سے اکثر اپنے شوہرسیف کی زیادتیوں اور سختیوں کا ذکر کیا کرتی تھی۔ اُس کا شوہر اُسے ہر روز مارا کرتا تھا صرف اس لیے کیوں کہ صابرہ رنگ میں ذرا کلوٹی اور سانولی تھی، اسی لئے اُس کا شوہر اُسے پسند نہیں کرتا تھا اور اس شادی کو وہ ہمیشہ اپنے ماں باپ کے ایک حکم کی تعمیل کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھتا تھا۔اُ س کا یہ ماننا تھا کہ اُس کے ما ں باپ نے زبردستی اُس کی شادی صابرہ سے کروا دی تھی ،اسی لیے وہ اس کا نزلہ بھی صابرہ پر ہی گرایا کرتا تھا ۔حالانکہ صابرہ بڑے عمدہ اوصاف اور عادات کا مجسمہ تھی مگر اس کے باوجود وہ اُسے مارا کرتا،اُس سے گالی گلوچ کیا کرتا اور طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتا رہتا جب کہ خود تو صابرہ کا شوہر اوچھے اور ناکارہ کاموں میں ملوث تھا ۔صابرہ بار بار اُسے اپنے پیار کا احساس دلاتی رہتی لیکن اُس کے شوہر نے اُس کی رنگت کا ہمیشہ مذاق اُڑا کر اُسے احساسِ کمتری کا شکار بنا دیا تھا ۔صابرہ ہمیشہ مجھ سے ایک بات کہا کرتی تھی بیٹا‘‘۔۔۔۔ می نے کہا ’’کون سے بات امی ؟کیا کہا کرتی تھی؟‘‘میں نے فوراََ پوچھ لیا۔ امی نے نم دیدہ آنکھوں سے کہا ’’بیٹا !وہ کہا کرتی تھی کہ کچھ چیزوں کی اہمیت ان کے کھو جانے کے بعد ہی سمجھ میں آتی ہے ۔اس سے پہلے کہ امی اپنی بات کو مکمل کرتی انہیں ابو کے بلانے پر اپنی بات ادھوری چھوڑنا پڑی لیکن میرے دل و دماغ پر یہ سوال بوجھ بن کر مجھے بے چین کرتا گیا ۔واقعی کچھ چیزوں کی اہمیت ان کے کھو جانے کے بعد ہی سمجھ آتی ہے ؟یہی سوال سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی اور میں گہری نیند سو گیا۔صبح جب اُٹھا تو سب سے پہلے تعزیت پرسی کے لیے مرحومہ کے گھر گیا دیکھا کہ مرحومہ کا شوہر سیف سر پکڑے ہوئے زور زور سے رو رہا تھا شاید یہ آنسوں پچھتاوے کے تھے یا پھر آج اُسے صابرہ کی اہمیت اور قدر معلوم ہو رہی تھی مگر اب پچھتانے اور رونے سے کیا ہو سکتا تھا کہا جاتاہے نا’’ اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیا چُگ گئی کھیت‘‘کسی کے کھو جانے کے بعد ہی اُس کی یادیں آتی ہیں ۔صابرہ کا کھو جانا واقعی سیف کے سنبھلنے اور سدھرنے کا بہانا بن سکتا تھا ۔مقدر میں جو کچھ لکھا ہوتا ہے اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا ۔اس بات کا سیف کو خود بھی اب احساس ہو گیا تھا کہ جیتے جی ہر ملنے والے کے ساتھ کیوں نہ اچھا برتاؤ ہی کیا جائے چاہے وہ کسی بھی رنگت ،نسل ،خاندان اور قوم کا ہی کیوں نہ ہو ۔
ہفتہ بھر بعد ایک روز سیف پر نظر پڑی دیکھا اُ س کی چال ڈھال میں ایک خاص قسم کی تبدیلی نظر آرہی تھی میرے دل و دماغ نے مجھ پر یہ باور کرا یا کہ صابرہ کی اچانک موت سے واقعی سیف میں ایک نمایاں تبدیلی آگئی تھی ۔یہ تبدیلی شاید ایک دائمی تبدیلی تھی۔۔۔۔
���
محلہ قاضی حمام بارہمولہ ،موبائل نمبر؛9469447331