ضیاء مقبول
“ہائے ہائے۔ اپنے گھر والوں کا ہی خیال کیا ہوتا ” ملاح علی بیگ نے لہروں کی دوش پر دوڑتا کپڑے کا ایک چیتھڑا چپو سے اٹھا کر کہا
“تین دن سے ریڈیو پر وارننگ چل رہی ہے۔ دریا سے دور رہو۔دریا سے دور رہو”سامنے ہی رافٹ میں سوار این ۔ڈی-آر -ایف کا اہلکار ایک ہاتھ سے پانی میں راڈار ڈالے بائیں ہاتھ سے منہ پر لگے بارش کے قطرے پونچھتے ہوئے بولا۔
دور کنارے سے کسی میڈیا والے نے ہانک لگائی ” لگاتار کوششوں کے باوجود عامر احمد ڈار کی لاش اب تک بازیاب نہیں ہوسکی ہے۔اس میں کس کا قصور؟”
اسں شور وغل کے الاؤ سے اچانک ایک دلخراش آواز چنگاری کی طرح نکل کر جہلم کی طغیانی لہروں سے جا ٹکرائی۔دریا کے پانیوں میں جیسے آگ لگ گئ اور دیکھتے ہی دیکھتے پانیوں نے ابلتے لاوے کی شکل اختیار کر لی۔
” آ بیٹا۔گھر چل۔میں کل سے تیرا انتظار کر رہی ہوں۔آ۔آکے گھر چل۔میں آج تیرے لیے گوشت پکاؤں گی” یہ عامر کی ماں کی آواز تھی جو کنارے پر عورتوں کی گرفت سے خود کو چھڑاکر دریا میں اترنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اسے نہ پانی نظر آرہا تھا نہ لاوا۔بس اس کی آنکھوں کے سامنےایک کالی دھند چھائی ہوئی تھی جس کی گہرائی میں کہیں اس کا بیٹا ریت نکالنے میں مگن تھا ۔
میڈیا والوں کا غول اس آواز کے مرکز کی جانب دوڑا اور یہ منظر کٹاک کٹاک اپنے کیمروں میں قید کرنے لگا۔چشم زَدن میں عامر کی ماں کی چنگاڑیں ارض و سماء کی وسعتوں پھلانگ کر ہر طرف گونجنے لگیں۔
“ایک دن اندر نہیں بیٹھ سکتے یہ لوگ”حمام کے گرم گرم فرش پر لوٹ لگاتے ہوئے ریٹائرڈ انجینئر کلیم احمد نے من ہی من سوچا۔
”اُف ! صرف بری خبریں”یونیورسٹی میں ٹیکنیکل اسسٹنٹ صابرہ بانو منہ بنا کر بڑبڑائی اور ڈرامے کی اگلی قسط ڈھونڈنے کیلئے فون سکرال کرنے لگی۔
آخر جب عامر احمد کی لاش چار دن بعد نکالی گئ تو میڈیا والوں نے اس کے گھر پر یلغار کی۔ایک ایک آنسو انار کے دانے کی طرح سینکڑوں چینلوں کی کمزوری اور بیماری کی شفا کا باعث بنا ۔آہوں اور سسکیوں بھرے کمروں میں جرنلسٹ اپنی اردو اور انگریزی کے دانے بے ترتیب بکھیرنے لگے۔ادھر سیاسی جماعتیں بھی اہل خانہ سے اظہار تعزیت کے کام میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی فکر میں بھاگ دوڑ کرنے لگے۔ایسا لگ رہا تھا کہ عامر احمد نے اپنی جانِ ارزاں سے چھٹکارا پاکر ایک الگ ہی مقام حاصل کر لیا ہو۔
���
سوپور، بارہمولہ کشمیر،موبائل نمبر؛9419744094