جانے کیوں سب کو سانپ سونگھ گیا ، کوئی بات نہیں کرتا ، کوئی شور نہیں مچاتا ، کوئی سڑکوں پر آکر نعرے بازی نہیں کرتا ، سیاسی بیان بازی کے لئے الفاظ نہیں ،کالم نگاروں کے قلم کی روشنائی سوکھ گئی۔ویسے تو یہاں روشنائی کنول کھلانے کے کام آتی ہے ،اسی لئے شاید آصفہ کا خون ہی چاہئے نئی داستان لکھنے کے لئے۔نہیں تو ننھی سی جان سات دن تک مردار خور گدھوں کی شکار نہ بنتی ؎
کیا یہی مرد مومن کا خواب تھا
یا شیر ہل بردار کا سیاسی سراب تھا
جان و عزت دے گئی معصوم آصفہ
اہل کاشمر کا باقی ابھی عذاب تھا
اسے تو ڈیوٹی دی گئی تھی کہ سرحدوں کی حفاظت کرو، کیونکہ سرحد پہ جنگ ابھی جاری ہے ،کون ہے جو لاشوں کا بیوپاری ہے مگر وہ تو استادوں کا استاد نکلا ۔ اپنے ملک کشمیر کے چلہ کلان کی سردیوں میں منفی درجہ حرارت میں بیان بازی کا تیل ڈالا اور ماحول گرما گرم کردیا ۔ہم جو اپنے استادوں سمیت کانگڑی تاپے، کھڑکیوں پر پالی تھین چڑھا کر اندر بیٹھ کر چلہ کلان کا لمحہ لمحہ گزار رہے تھے۔کہیں کہیں ہریسہ زعفرانی کی خوشبو میں بجٹ کے ہندسوں کا حساب لگا رہے تھے ۔اور اس سرد ماحول میں کبھی کبھار ہڑتال کال کا مزہ لوٹ رہے تھے کہ اچانک ماحول گرما گیا۔ بجٹ کے ہندسے اب کی بار زرا پہلے ہی آگئے اور کوئی ہو نہ ہو پر اپنے ملازمین بشمول اساتذہ بڑے شاد دکھتے ہیں ۔اپریل میں ساتویں تنخواہ کمیشن کی سفارشات کی مٹھائی شوگر بیماری کے ڈر کے بغیر منہ میں دبائے رکھے خوش و خرم گھومتے ہیں۔ ہم تو اسے دھمکیاں دینے والاسالار ہی سمجھتے تھے کہ آئے دن مملکت خداداد کو نامہ خشم بھیجتا ہے کہ بھائی لوگو! ہوشیار خبر دار ہم تو بس آنے ہی والے ہیں ۔میزائل کی مانند ہمارے فوجی پدھاریں گے ۔نہ جانے کتنوں کو ماریں گے اور پھر اپنے جسم پر خراش لئے بغیر ہی واپس لوٹیں گے ۔اتنا ہی نہیں ہم تو ڈھائی سرحدوں پر جنگ لڑنے کی شمتا رکھتے ہیں ۔کبھی کبھار تو ہم سوچتے ہیں کہ اتنی دھمکیاں تو شمالی کوریا کا جنگ باز صدر بھی ڈونالڈ ٹرمپ کو نہیں دیتا کہ میزائل اڑ رہے ہیں کہیں تمہارے بال نہ بکھر جائیں۔خیر بات بپن راوت کی چل رہی تھی کہ اپنا محکمہ ضرب و حرب ایک طرف چھوڑ کر ملک کشمیر کے اساتذہ پر برس پڑا کہ یہ تو دو دو نقشے دکھاتے ہیں ۔اور ہمارے اساتذہ تو قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم تو ایک بھی نہیں دکھاتے اسی لئے ہمارے امتحانی نتائج پر غور کرو تو سمجھ آئے گا کہ ہم جو کہتے ہیں، سچ کہتے ہیں، سچ کے سوا کچھ نہیں کہتے۔ایسا جو اساتذہ نے کہہ دیا تو وزیر نقشہ جات و تعلیمات بپھر گئے کہ صاحب ہمارے پاس نقشے ہیں بلکہ برابر دو دو ہیں لیکن ہمارے اساتذہ دکھاتے سکھاتے نہیں ۔کب سے انہیں الماریوں میں بند رکھے ہیں۔اور ان پر یہ الزام غلط اور سراسر بے بنیادہے کہ وہ نقشہ نکال کر سکھاتے ہیں، پڑھاتے ہیں۔بھلے وزیر تعلیم اپنے محکمے پر ایسا بہتان کیوں برداشت کریں کیونکہ جو کام کیا نہیں اسکا الزام ان کے سر کیوں تھوپا جائے۔ ہماری الماریوں میں تو نقشہ جات دھول کے نیچے دبے ہیں یا پھر سلور فش کی خوراک بنے ہیں۔یقین نہ آئے تو پرکھ لو ان نقشہ جات میں کیڑوں نے اس طرح لاینیں کاٹ دیں ہیں کہ کہیں کشمیر تو کہیں شمال مشرقی ریاستیں باقی نقشے سے الگ دکھتی ہیں۔ لیکن اس پر دیش دروہہ کا مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا بلکہ کیڑے مار دوائی کی ضرورت ہے ؎
اسکولوں میں دوہری پڑھائی ہے
ہم پہ الزام بے وفائی ہے
وزیر تعلیم نے فوراً بھانپ لیا کہ سپہ سالار تعلیم کا نیا طریقہ سامنے لانے کی شاید سوچ رہے ہیں جس میں لوہے کا قلم ، خون کی دوات اور انسانی کھالوں کو کاغذ بنا کر لکھنے کی ترغیب دیں کہ وہ اپنے دور میں وہی کچھ کرتے آئے ہیں۔اور جو شاگرد ڈسپلن کا مظاہرہ نہ کریں انہیں گاڑیوں کے بانٹ ہی نہیں بلکہ سکولی عمارتوں کی چھتوں سے باندھا جائے گا۔پھر جو باقی بچے دیکھیں گے تو خود ربط و ضبط نہ سہی لیکن ڈر اور خوف ان کے اندر سرایت کر جائے گا جس کے سبب وہ وردی پوش کو دیکھتے ہی تھر تھر کانپ جائیں گے۔شاید اس کے چلتے یہ ملک ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے کی آواز دب جائے گی۔مزید بر آں اس طرح باندھنے والوں کو انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔مگر وزیر تعلیم تو کچھ نہیں کہتاگر اسے اپنی پارٹی کے قلم دوات کی فکر نہ ہوتی ۔وہ تو قلم دوات پر جملہ حقوق محفوظ سمجھتے ہیں کیونکہ اسی سے ان کی سیاسی بقا قائم ہے ۔کسے نہیں معلوم کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جو اسے قلم دوات کی روایتی عزت افزائی نہ کرنے کی پاداش میں کئی مہینے وزارت کی پری کا دیدار نہیں کرنے دیا گیا۔مشقت کے بعد جو کرسی ہاتھ لگی تو اس پر سپہ سالار کی تنقید کہاں برداشت ہوتی۔اپنے قلم سے فتویٰ لکھ ہی ڈالا کہ وردی پوش اپنے کام سے کام رکھیں جبھی تو سرحدوں سے کوئی گھس نہیں پائے گا ۔یعنی دونوں آنکھیں اپنے کام پر ٹکائے رکھو ، منہ کو بھی قابو میں کرو، سرحد کی گھس پیٹھ روکتے روکتے دوسرے محکموں میں گھسنے سے باز آئو ؎
افسپا میں اک سفر یاد آیا
ہر طرف تفتیش دِگر یاد آیا
ویسے سپہ سالار کے بارے میں وزیر تعلیم ہی خفا نہیں ہوئے بلکہ تحریک مدافعت کے لوگ بھی روٹھے روٹھے ہیں کہ اس نے انہیں بھی للکارا کہ بھائی لوگو اب کی بار آپ کو بھی بندوق برداروں کی فہرست میں شامل کیا جائے گا ۔ دروغ بر گردن راوی جس نے یہ کہا کہ سپہ سالار کشمیری دلوں میں اپنی فوجی دوربین و خورد بین سے دیکھنے کا اہل ہے جبھی اسے ملک کشمیر کے دل و دماغ میں نقاب پوشوں کے تئیں محبت میں کمی دکھائی دی ۔ اور اعلان کر دیا کہ کشمیریوں کی مطلوبہ خواہش کی تکمیل ناممکن ہے۔یہ اور بات کہ بندوق برداروں کے جنازے میں میدان بھر جاتے ہیں ،عید گاہوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی اور نماز جنازہ بھی کئی بار پڑھنی پڑتی ہے۔
بھارتی سپہ سالار کے بارے میںچینی نمایندہ بھی چیخ اٹھا کہ بھارتی سالار کا بیان غیر تعمیری اور سرحدوں پر امن قائم کرنے کے خلاف ہے۔ ایسے میںایک دلچسپ خبر آئی کہ ایک چینی کمپنی نے ایسا کپڑا ایجاد کیا جس کے پیچھے انسان غائب ہوجاتا ہے۔ایک منٹ کے ویڈیو میں ایک آدمی کو چلتے پھرتے دکھایا گیا لیکن جیسے ہی وہ پردے کی طرح اس کپڑے کو اپنے سامنے ڈالتا ہے تو وہ آدمی غائب ہوجاتا ہے ۔ڈر اس بات کا ہے کہ اگر اس کپڑے کا لباس پہن کر چینی فوجی بھارتی سرحد میں داخل ہوئے تو کیا ہوسکتا ہے ؟ البتہ یاد رہے مال چینی ہے جس کی گارنٹی ہم دینے کو تیار نہیں ۔ اس دوران یہ خبر آئی کہ چینی فوج شمالی ڈوکلام میں بکتر بند گاڑیوں اور سات ہیلی اڈوں کے ساتھ داخل ہوگئی اور وہاں دوسری فوجی تنصیبات تعمیر کی ہیں جن میں سڑک اور بنکر شامل ہیں ۔ کون جانے وہی کپڑے زیب تن کئے ہوں جن میں آدمی دکھتا نہیں ۔ایسے میں بھارتی دعوی کہ پانچ مہینے پہلے چین کے ساتھ معاملہ نپٹ گیا شاید اسی چینی کپڑے کی اوٹ میں سرک گیا اور وہ معاہدہ کہیں نظر نہیں آتا۔اب انتظار ہے کہ چین پر سرجیکل اسٹرائک کب ہو گی؟سنا ہے سکورٹی ایڈوایزر بھاجپا الیکشن میں رول نبھا رہا ہے بلکہ وزیر اعظم کے لئے مشروم کی خریداری بھی اسی کے ذمہ ہے پھر سرجیکل اسٹرائیک کون ترتیب دے؟
اب کی بار مودی سرکار نے باقی سارے کام جو نپٹالئے تو پاسپورٹ کلر اسکیم پر اس کی نذر گئی۔عام لوگ اور ارباب اقتدار کے درمیان جہاں قسمت میں تفاوت ہے ایسے ہی پاسپورٹوں میں بھی ہونا چاہئے ،یہ انہیں سوجھا۔دلت جو جھاڑو کمر سے لٹکائے پہچانے جاتے ہیں ، مسلمان جو مخصوص ٹوپی سے نظر آتے ہیں ،خود شدت پسند جو ترشول ہاتھ میں لئے پہچان میں آتے ہیں ایسے ہی ہوائی اڈوں وغیرہ پر بھی دکھنے چاہئیں ۔پاسپورٹ کا رنگ تبدیل کرنے کا جو مودی سرکار نے من بنایا تو سنا ہے کہ میرون کلر وی آئی پی یعنی ارباب اقتدار کے پاس ہوگا ، سفید رنگ کا پاسپورٹ افسروں یعنی ارباب اختیار کے پاس ہوگا ،عام خام لوگ ڈارک بلیو، بھگوا رنگ دوسرے درجوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ہم سوچ میں ڈوب گئے ہیں کہ پڑھائی سے متعلق جو اسناد پیش نہ کرپایا بھلے ہی وہ وزیر اعظم بھی بنا ہو کیا وہ دوسرے درجے کا رنگ والا پاسپورٹ لیکر خوش رہے گا۔ادھر اپنے ملک کشمیر میں ممبران قانون سازیہ کو شکایت ہے کہ وزرا اور بیروکریٹ ممبران قانون سازیہ کو خاطر میں نہیں لاتے۔یعنی ہم تو عام خام لوگ ہیں ہماری بھلا کوئی کیوں سنے مگر ارباب اقتدار جنہیں ہم عرصے سے سمجھ رہے ہیں انہیں بھی کوئی بھائو نہیں دیتا ۔مطلب ان کا پاسپورٹ بھی دوسرے درجے کے رنگ والا ہی ہوگا ۔
وہ تو اسے حج سبسڈی کہتے ہیں یعنی حج کے اخراجات میں سرکار کی طرف سے کچھ کمی اور سالہاسال اسی مغالطے میں مسلم قوم کو مشغول رکھا۔ کہ ہم ہیں جن کو آپ کی فکر ہے اور پنجہ مار کر ہاتھ کے لئے ووٹ چھینتے رہے۔ادھر کنول برداروں کی آنکھ میں یہ سبسڈی شہتیر کی مانند تکلیف دیتی رہی۔روز اول سے اسکو ختم کرنے کے درپے تھے اب تو حکم نامہ بھی جاری کردیا ۔ سیدھی سادھی مسلم قوم اس سبسڈی پر خوشی سے پھولے نہ سماتی تھی لیکن انہیں کیا معلوم یہ سبسڈی تو حج کے نام پر بھارت کی قومی ہوائی کمپنی ائر انڈیا ڈکارتی تھی ۔مسلم قوم کا نام دے کر ائر انڈیا کا وہ مہاراجہ کھاتا تھا جو اندر سے کھوکھلا ہوگیا تھا بلکہ دیوالیے پن کی دہلیز پر تھا ۔یقین نہ آئے تو مختلف ہوائی کمپنیوں کے دلی جدہ ریٹ دیکھو کہاں ایر انڈیا کا پچیس ہزار سے اوپر اور کہاں باقیوں کاتیرہ ہزار کے آس پاس ؎
بزرگ حج کیاکرتے تھے جتنے پیسوں میں
اب اس رقم میں احرام نہیں آتا
ائرانڈیا کے نام پر مسلم قوم پر احسان کرنا اور باقی مذاہب کے لئے سرکار کا پورا دھیان اس طرف۔ امر ناتھ یاترا کے لئے تمام سرکاری مشینری جانے کیوں کنول برداروں کو نظر نہیں آتی ؎
فرقہ پرستی اور بد امنی کے ہاتھوں
دلوں پر خوف طاری رہے گا
حکومت بھی یہی فرما رہی ہے
ترقی کا سفر جاری رہے گا
(رابط[email protected]/9419009169 )