Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

جانتا ہوں طاقت فریاد نہیں

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: July 31, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
14 Min Read
SHARE
یہ جولائی کا مہینہ ہے ہی ایسا کہ ارباب اقتدار بھونچکے رہ جاتے ہیں اور پھر حواس باختہ ہو کر نہ جانے کیا کر جاتے ہیں۔سن ۳۱ ء کا جولائی تو اہل کشمیر جیل کے اندر باہر ایسے اٹھ کھڑے ہوئے کہ ایوان لرز اٹھے ۔کہاںسنہ ۱۶ کا ۸ جولائی کہ ارباب اقتدار کی نس نس میں خوف طاری ہوگیا اور کہاں عام لوگ کہ رگ رگ میں پاوا ،مرچی کی بدبو پھیلی بلکہ جسم کے انگ انگ میں پیلٹ کا زہر بھر گیا بلکہ اتنا ہی نہیں کئی ایک کے ہڈی پسلی میں گولیاں پیوست ہوگئیں ۔مانا کہ سن ۱۷ کا ۸ جولائی ٹھیک ٹھاک گزرا لیکن جولائی کا جھول گیا نہیں، ابھی سر منڈوایا نہیں اولوں کے بدلے گولیاں چلیںاور ارباب اختیار بھونچکے رہ گئے ۔ بوٹنگو میں یاتری بس پر حملہ ہوا۔پھر جان میں جان آئی کہ چلو کرسی بچی مگرادھر جان کے لالے پڑے ۔یاتری بس لہولہاں ہوئی تو وزارت داخلہ نے طلب کیا کہ میڈم جی ! جواب دو خون کا حساب دو۔بادل نخواستہ دلی دربار میںحاضری دی ۔ اپنے ملک کشمیر میں سینکڑوں  لاشوں ،ہزاروں زخموں کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ ان کا حساب میڈم اپنے پیشرو سے بار بار مانگتی رہی لیکن اب کی بار سنگ باری کے کھاتے میں ، دودھ ٹافی کے زمرے میںڈال دیا تو بھول گئے اور ادھر ہر کشمیری کے مذمت کے باوجود خون کا حساب مانگا گیا۔بھلے ہی کشمیری خون اور گجراتی خون لال ہو لیکن شاید قدر و قیمت الگ الگ ہے۔ ویسے ہو کیوں نہیں، کنول اور ناگپور نواسی چھوٹی چڑی پہننے والے سائینس کی نئی کتابیں جو لکھ رہے ہیں کہ بھارت ورش میں ہوائی جہاز ہزاروں سال پہلے اڑتا تھا اور شاید اس میں بیٹھ کر ہنومان پہاڑ اٹھاکر لنکا لے آیا تھا ۔یہ سائینس تو بالکل صاف ہے کہ خون میں کوئی ساٹھ ستر فیصد پانی ہوتا ہے۔اسی لئے کشمیری خون کا حساب لگانا ہو تو پانی کی بوتل پر لکھی قیمت بتاتے ہیں اور اب تو اس پر جی ایس ٹی بھی چڑھتا ہے لیکن یاتری خون تو بھارت کے آر پار شدھی کرن کیا ہوا ہوتا ہے جس کی قیمت اونچی رہتی ہے۔پھر جنید کیا پہلو خان کیا رنگ یکسان ہے لیکن ڈھنگ مختلف تو ہے ہی۔دل کے بہلاوے کو یہ خیال اچھا ہے کہ خون کا حساب دینے کے بہانے یہ بات بھی کر ڈالی کہ پھول والو زیادہ فول بنے نہ رہو بلکہ بات چیت کا دروازہ کھلا چھوڑ دونہیں تو اور خون بہے گا کہ یہ موقعہ ہے غنیمت جان لو ۔مگر کمل والوں کی ککڑی جم کر سخت ہوگئی ہے کہ اور فوج چاہئے تو طلب کرو ، بلکہ وہ جو ہر بات پر ہڑتال کی دھمکی دیتے ہیں انہیں بھی اب بانہال پار دربار کے قریب لا کر حساب مانگو ۔کتنا پایا،کس سے پایا اور کتنا خرچ کیا ، کس پر خرچ کیا ۔اور لے دے کے قلم والے اس بات پر رضا مند کہ خاکی والوں کا  الائونس بڑھادو کہ ان ہی کے دم سے ہمارا سیاسی بونس جاری ہے ۔ ان ہی کے ڈنڈے بندوق سے اہل کشمیر پر خوف طاری ہے اور ہمارا سیاسی  قدم جاری ہے ساری ہے۔ ایسے میں وہ فارن ہینڈ پھر دکھائی دیا ۔حالانکہ چینی ہاتھ ،پائوں، آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن ارباب اقتدار کو نہ جانے کہاں سے دکھائی دئے کہ ان ہی کے سبب ملک کشمیر میں بوال ہے۔اچھال ہے اور کرسی کا جنجال ہے کہ رات دن کھٹکا رہتا ہے اب گئی تو گئی۔شاید اس لئے کہ یہ کرسی بھی چینی مال کی طرح کوئی گارنٹی نہیں رکھتی اور بدل جانے کا بھی سوال نہیں۔ مگر مودی مہارج کے چیلوں اور الیکٹرانک صحافت کے مچھواروں کو یہ چینی مال بہت سخت نظر آتا ہے اسی لئے بس چپ سادھے ہیں کہ کہیں چینی ڈریگن ڈس نہ لے بلکہ کھا ہی نہ لے ۔ 
 اپنے ہل والے قائد ثانی سات اور دو  فیصد کے بیچ چپکے سے کامیابی کے بعد پارلیمان پہنچے تو پھولے نہ سمائے۔جو کرسی اڑھائی سال پہلے لوہے کے چنے چبوا کر قرہ نے ہتھیا لی تھی اسے نذرو نیاز کے سہارے اہل کشمیر کا خون چڑھاوے میں دے کردوبارہ حاصل کی ۔ ترنگ میں آ کر فرزند ارجمند نے مبارک باد دی کہ کرسی خاندان کی لونڈی ہے جائے گی کہاں بھلے کچھ دیر روٹھی رہے لیکن پہنچنا تو ہمارے در پر ہی ہے۔بے چارے فاروق ڈار کے ساتھ ہیومن رائٹس کمیشن بھی قربان کہ ان کی بات کہاں ماننے والے ہیں، اس لئے وہ تو دس لاکھ سے گیا لیکن دوسرا فاروق کرسی کے ساتھ ساتھ نہ جانے کتنے لاکھوں کا حقدار بنا۔اور ہل والا قائد ثانی تو جانتا ہے کہ اہل کشمیر کو آسانی سے ٹرخایا جاتا ہے کہ یہی کام باپ دادا کے وقت سے کرتے آئے ہیں۔کبھی سبز رومالی نمک سے، کبھی عزِ ہیند یزت ۳۷۰ سے اور کبھی آوارہ گردی چھوڑ کر عزت و آبرو کے مقام کے ساتھ اُلجھایا گیا اور اب تو نیا شوشہ کہ کشمیری زبان میں حلف وفا داری لیا ۔یہ اور بات کہ پورا خاندان واٹہ پارم(ٹوٹی پھوٹی کشمیری) بولتا ہے جس میں کشمیری کی گردن پر اُلٹی چھری پھیرتی ہے۔اب کی بار جو  بڑی مشکل سے کرسی ہاتھ آئی تو قائد ثانی بول ہی پڑے کہ دوستوں سے یارانہ گانٹھ کر مسلٔہ کشمیر پر بات چیت کرائو ۔واہ کیا زمانہ تھا کہ کرسی ہاتھ سے گئی تو بول پڑے تھے دشمنوں سے ہاتھ ملائو اور مملکت خداداد پر بم برسائو بلکہ کشمیر کو بھی گولی مارو ۔ حریت والوں سے روپے پیسے کا حساب مانگا گیا اور دلی والے کہنے لگے کہ ہم خود حساب لیں گے بلکہ دلی لے جا کر جی ایس ٹی بھی کاٹ دیں گے تو جانے کیسے قائد ثانی کو اپنا ستارہ چمکتا نظر آیا کہ ہو نہ ہو خود ان کی کرسی کے پائیدان سنبھلنے لگے ہیں ۔وہ جو خود الیکشن کے دوران پیران جماعت اسلامی سے ماضی کا وہ حال بد درگزر کرنے کی دہائی دے رہے تھے جو ان کا پار والے جنرل کے ٹائم کروایا گیا تھااور اب پیر بزرگ آف حیدر پورہ کا قلم والی باجی سے پدرانہ رشتہ کھوج نکال لے آیا۔ بانہال پار سے لگتا ہے کہ کچھ ٹھنڈی ہوائیں سائیں سائیں کرتی  گپکارروڑ سے گزریں کہ قائد ثانی کے فرزند نے اسمبلی میں جی ایس ٹی قانون پر زبان نہ کھولی بلکہ اپنے چیلے چانٹوں کو چوکے چھکے اڑانے کی آزادی دی کہ شاید سلاگSlog) (اوور چل رہے ہیں بھرپور بلا گھمائو   ؎ 
رازداری سے یہ فضل و کرم ہوتا ہے 
کیا عجب کل کو میرے پاس بھی سرکار آجائے
اس طرح کام کر جائے میری چاپلوسی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
کسے نہیں معلوم جب دلی دربار میں زکام چلتا ہے تو ملک کشمیر میں چھینکوں کی بارش ہوتی ہے اور اپنے ملک کشمیر میں سب چلتا ہے اسی لئے ہل والے کرسی پر بیٹھے ایک بولی بولتے ہیں تب قلم والے گولی سے نہیں بولی سے بات بناتے ہیں لیکن اب کی بار جو مفتی سرکار کا مرد مومن والا خواب تعبیر مانگتا ہے تو بولی کے ساتھ گولی بھی بدل جاتی ہے ۔پھر پیلٹ کیا ، پاوا کیا اور گھر بار کا سامان کیا، سب ہوا میں اڑتے ہیں ،آنکھیں اندھی کرتے ہیں ،نان شبینہ کو ترساتے ہیں۔مانا کہ اہل کشمیر اللہ میاں کی گائے ہیں اور جدھر ہانکو ادھر چلتے ہیں لیکن سن باسٹھ کی چینی جنگ کے وقت کے دمحال ہانجی پورہ کے سرپنچ کی چو این لائی کو دی ہوئی دھمکی یاد کرکے بول دیتے ہیں کہ امریکہ چین کس کھیت کی مولی ہیں ہم تو مسلٔہ کشمیر آپس میں چائے، ہریسہ کھاتے وازہ وان پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے حل کردیں گے کہ گشتابہ ابھی میدان عمل میں کودا بھی نہ ہوگا کہ ہم ڈکار لے کر کشمیر کا اڑدم تیرا اڑدم میرا اختتام تک پہنچا دیں گے۔ بھلے کنول والے کسی مسئلے پر ہمیں سنجیدہ نظروں سے دیکھیں نہ دیکھیںاور پھر پوری دنیا کو بلا کسی تفریق ایک ہی آنکھ سے دیکھنے والے بابا رام دیو نے تابڑ توڑ دھمکی دے ڈالی کہ چینی مال کا بائیکاٹ کر دو پھر دیکھو چینی سرحد سے کیسے تیزی سے بھاگ جاتے ہیں اور ہم سوچتے رہے کہ بھارت ورش میں بھلے ہی زمینی جنگ کے لئے دس روز کے لئے ہی ہتھیار موجود ہوں لیکن زبانی اور کاغذی میزائل و بارود کی کمی نہیں جس سے چین جیسی طاقت کو پچھا ڑا جا سکتا ہے، لتاڑا جا سکتا ہے۔اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ،دمحال کے سرپنچ اور کانگریس کے اخبار خدمت کو جنہوں نے بڑی طاقتوں کو ہرانے کا نرالا انداز سکھایااور اپنے ملک کشمیر میں کشمیری لہو سستا ہے۔ساٹھ سالہ بیجبہاڑہ شخص فوج کی گولی سے جان کھو بیٹھا ،اگلر کی نو سالہ بچی فوجی گاڑی نے کچل ڈالی، اور بیروہ کا تنویرفوجی گولی کا شکار ہوالیکن اب کی بار چونکہ قلم دوات اور کنول کی سرکار ہے، اس لئے آرڈر لکھا لکھایا ہے کہ کوئی کشمیری پھول نہ کھلنے پائے۔اس کی تو تحقیقات بھی نہ ہوگی،صحافت کے مچھلی بازار میں کوئی بات بھی نہیں ہو گی۔کوئی مذمت بھی نہیں ہوگی کہ یہ تو بانہال کے اس پار والے لوگ ہیں، اس پار والے ہوتے تو قلم دوات ،ہل، کنول والے سب مل کر آنسو بہاتے کیونکہ انہی آنسوں سے کرسی کی آبیاری ہوتی ہے ۔ادھر کے آنسو بہت قیمتی ہیں ادھر کا لہو سستا ہے ۔نہ ہوتا تو مژھل فرضی جھڑپ میں تین لوگوں کا کشمیری خون اس قدر سستا نہ ہوتا کہ ملزمین کی سزا روک دی جاتی اور آزاد کردیا جاتا کہ ڈراکیولا کی مانند جتنا چاہے کشمیری لہو کی چسکیاں لو۔ 
ادھر یاتری حملے کا شکار ہوئے تو فوراً اہل اسلام آباد خون دینے ہسپتال پہنچے ۔یہ تو معلوم ہے کہ کشمیریت سے لدے بھرے ہیں اور رگ رگ میں انسانیت رواں دواں ہے بھلے ہی جمہوریت نام کی کوئی چیز انہیں دور سے بھی نہیں دکھائی گئی لیکن جانے اپنے اہل کشمیر کس مٹی کے مادھو ہیں کہ جو مارتے پیٹتے ہیں ،ان کی بھی مدد کرتے ہیں۔کبھی لسجن میں فوجی گاڑی حادثے میں پھنس گئی تو جوان کود پڑے اور فوجیوں کو نکالا، کاکہ پورہ میں فورسز سیلاب میں پھنسے تو فوراً جان جوکھم میں ڈال انہیں نکالا اور اب کی بار جو پولیس والوں پر فوجی یلغار ہوگئی تو گنڈ گاندربل میں ناک توڑ، منہ پھوڑ، ٹانگ بریک گھنٹہ جو گزرا تو فوجیوں کو یہ معمولی واقعہ لگا لیکن اپنے اللہ میاں کی گائے والے فوراً میدان میں آئے ،انہیں فوجیوں کے تائو سے بچایا جو صبح شام ان کی مرمت کرتے رہتے ہیں ،ان کے جوانوں کو ایسے کیسوں میں پھنساتے ہیں کہ چھ چھ مہینے داروغۂ زندان سے خلاصی نہیں ملتی اور اگر عدالت امداد پر آ بھی جائے تو بھی تھانے میں لکھا پرچہ کالج نوکری کے آڑے آتا ہے۔ سڑک پر چلو مان لیا کسی وجہ سے ان بن ہوگئی، دماغی درجہ حرارت چڑھ گیا لیکن ہم سوچتے ہیں کہ تھانے میں جا کر جو دودھ ٹافی لینے پہنچے ۔اتنی رات گئے جب دودھ ٹافی نہ ملی تو آپا کھویا اور تھانے کا روزنامچہ بھی اڑا لے گئے ۔ان روزنامچوں میں حساب کتاب ہوتا ہے ۔ سرکاری کا تو مسلہ نہیں، کہیں پرایئویٹ حساب کھویا تو آفت آجائے گی     ؎
راج تھا جن کا وہ تاراج ہوئے دیکھے ہیں
تاج والے بھی تو محتاج ہوئے دیکھے ہیں
………………………..
رابط[email protected]/9419009169   
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

کشمیر سے کنیا کماری تک اب محض ایک نعرہ نہیں بلکہ حقیقت ہے: منوج سنہا
تازہ ترین
وزیر اعظم نریندر مودی نے کٹرا سے سری نگر وندے بھارت ایکسپریس کو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا
تازہ ترین
جموں و کشمیر: وزیر اعظم نریندرمودی نے دنیا کے سب سے اونچے ‘چناب ریل پل’ کا افتتاح کیا
تازہ ترین
لیفٹیننٹ جنرل پراتیک شرما کا دورہ بسنت گڑھ، سیکورٹی صورتحال کا لیا جائزہ
تازہ ترین

Related

کالممضامین

آدابِ فرزندی اور ہماری نوجوان نسل غور طلب

June 5, 2025
کالممضامین

عیدایک رسم نہیں جینے کا پیغام ہے فکر و فہم

June 5, 2025
کالممضامین

یوم ِعرفہ ۔بخشش اور انعامات کا دن‎ فہم و فراست

June 5, 2025
کالممضامین

حجتہ الوداع۔ حقوق انسانی کاپہلا منشور فکر انگیز

June 5, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?