چند سال قبل میں اپنے علاج ومعالجہ کی خاطر بترا انسٹی چیوٹ کی طرف جارہی تھی ، راستے میں مجھے حوضِ رانی گاندھی پارک کے متصل کافی گہما گہمی دیکھنے کو ملی ۔ لوگوں کی بھیڑ میں چند افراد کچھ پمپلٹ تقسیم کررہے تھے، جو اُردو زبان میں شائع کئے گئے تھے۔ جی للچایا اور میں نے رکشا ڈرائیور کو رُکنے کے لئے کہا۔ دل جمعی کی خاطر ایک بندے نے دو چار پمفلٹ میرے ہاتھ میں تھمادئے اور میں دُزدیدہ نگاہوں سے اُن کا شکریہ ادا کرکے اپنے منزل کی طرف رواں دواں ہوئی۔ میں نے پمفلٹ کھول کے دیکھا ، یہ اسلامک ریسرچ سنٹر نئی دہلی سے شائع ہوا تھا اور اس کا مصنف ڈاکٹر امجد خان صاحب تھے۔اس کا موضوعِ تحقیق’’جانئے اسلام کو اور جگائیے ایمان کو‘‘ ۔ اس میںمسلم سماج کے اشیائے خوردنی پر مکمل اور مدلل تحقیق تھی اور جس کی تقسیم کاری میں ڈاکٹر موصوف خود بھی عارضی سٹیج پر براجمان تھے۔ اس کتابچے کو دیکھ کر ہی میں نے بھی مصّمم ارادہ کیا کہ گھر آتے ہی میں اس کی سینکڑوں کاپیاں بناکر اپنے لوگوں میں تقسیم کروں گی تاکہ ہم بھی حلال وحرام ، پاک و ناپاک اور نجس وپلید چیزوں سے اپنی روزمرہ خوراک کو بچاسکیں۔ بدقسمتی سے یہ پمفلٹ۲۰۱۴کے تباہ کن سیلاب کی لہروں میں میری ذاتی لائبریری سمیت تباہ ہوگئی اور میری یہ آرزو میرے من ہی من میں دَب کر رہی۔ کاش یہ کتابچہ آج میرے پاس ہوتا اور میں چند قیمتی اقتباسات قارئین کی نذر نواز کرتی۔
دراصل یہ کاوش اُمت مسلمہ کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور بال سوچ بچار کے خوردونوش کے اجناس سے شکم پروری کر نے والوں کے لئے ایک تازیانہ ٔ عبرت ہے۔ ’’جانئے اسلام کو اور جگائے ایمان کو‘ ‘اس موضوع پر میں بھی قارئین کرام کے لئے آج خامہ فرسائی کرنے بیٹھی ہوں۔ اُمید ہے کہ اُن کی خدمت میں میری یہ مخلصانہ کاوش صدابہ صحرا ثابت نہ ہوگی۔جن اہم نکات کی طرف ڈاکٹر صاحب موصوف نے ارشاہ فرمایا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے تجارتی دائرے نے بھی اُمت مسلمہ کے عقیدتی، ذہنی اور قلبی احساسات کو کافی حد تک مجروح کر رکھا ہےکہ ان کی بھینٹ چڑھ کر آج کی نسل ذلت وانحطاط کی پستی میں گرچکی ہے۔ ذرائع ابلاغ اخلاقی حدود و قیود سے ماورا کمپنیوںکے کاروبار کو فروغ دینے کے لئے ان کے تیار کردہ اشیائے خوردونوش کو حسین وخوشنما اشتہارات میں لپیٹ کر اُمت مسلمہ کے لئے جائز وناجائز کی تمیز مٹا ر ہے ہیں۔ یہ خوشنما اشتہار بازی دیکھ کر ہمارے منہ میں بھی پانی آنے لگتا ہے۔ ایک معصوم بچے ہی کیا، بزرگ آدمی کا من بھی ا نہیں دیکھ کر مچل اُٹھتا ہے۔ یوں اُمت ِ مرحومہ کا ایمان کمزور کرنے والی حرام غذائی اجناس کی بازار وںمیں وافر خریدوفروخت ہورہی ہے۔ ان کمپنیوں کے بد اخلاق مالکان نت نئے تجربات کرکے مسلم اُمہ کے دین وایمان کو ایک منظم سازش کے تحت تباہ وبرباد کرنے پر تلے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اللہ کا کرم ہے کہ قوم کی فلاح وبہبود کی فکر میں لگے افراد آج بھی زندہ جاوید ہیں اور ان کمپنیوں کے پروڈکٹس کے بارے میں سماجی میڈیا کے ذریعے اطلاعات دیتے رہتے ہیں۔یہاں پر ڈاکٹر امجد خان صاحب کی اشیائے خوردنی پر تحقیق ملحوظ نظر رکھ کر انہوں نے تاکید فرمائی ہے کہ کھانے پینے کے اشیاء پر E-100 سے E-904تک کوئی بھی کوڈاندراج ہوگا تو اُسے ہر حال میں خریدنے سے احتراز کریں۔ یہ بسکٹ، یہ چاکلیٹ ، آئس کریم، ٹافی، کے علاوہ تمام ڈبہ بند غذائوں کے پیکٹ پر حیوانی چربی لکھنےکے بجائے اب E-Codeکا استعمال بے تحاشا کیا جارہا ہے ۔
یہ بات غور سے سنئے ! ہماری بچیاں مصنوعی خوبصورتی کو چار چاند لگانے کی خاطر بازار سے آرائش وزیبائش کا سازوسامان خریدتے وقت کی رنگ برنگے لپ اسٹک کی چھڑی اپنے ہونٹوں پر گھما کر محفلوں، انجمنوں ،ا سکولوں اور کالجوں میں اپنے حُسن وجمال کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ کچھ پتہ ہے اس خالص خنزیر کی چربی بطور ایک مشمولہ ہے، جسے لپ اسٹک کی شوقین بچیاں گاہے گاہے چیونگم کے ساتھ ہضم بھی کر جاتی ہیں۔ اس طرح یہ دین سے دور ہوتی جاتی ہیں۔ مغرب کی اندھی تقلید کرتے کرتے ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں؟ ہمارے ہوٹلوں میں ، شادی بیاہ کی تقریبات میں اور ہمارے روز مرہ استعمال میں ہماری دانست سے باہر ایک اور بند لفافہ آتا ہے، جسے اجنو موٹو (Taste Maker)کے نام سے پُکارا جاتا ہے، یہ خالص خنزیر کی چربی سے بنایا جاتا ہے، جو صرف ہمارے قسم قسم کے پکوانوں میں مل کر لذت کام و دہن کا کام دیتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ کہیں کہیں اگر محفل نسواںکا پروگرام ہوتا ہے ، تو میں اس میں شریک لپ سٹک لگائی بہنوں بیٹیوں سے برملا اپنی ناپسندیدگی کا برملا اظہار کرتی ہوں اور وہ تو ہاً و کرہا اس کے ترک ِاستعمال کا وعدہ بھی دیتی ہیں۔
معصوم بچیو! اگر آپ میری اس دردمندانہ اپیل کی طرف توجہ نہ دیں (جو ہم سب کے لئے وقت کی پکار ہے) تو بھی آخر پر آپ سے گذارش کرنا چاہتی ہوں کہ بعض مخصوص نام کمپنی کی صابن، شیمپو ، لوشن وغیرہ استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔ اس طرح ایک اور کمپنی کے ڈائیپر، صابن، شیمپو ، ٹوتھ پیسٹ، تیل وغیرہ سے اپنے پاکیزہ بالوں اور معصوم بچوں کو ناپاک نہ بنائیں۔ یہ دُشمنان اخلاق کے بنائے ہوئے پروڈکٹس ہماری پاکیزگی اور سادہ لوحی کو متاثر کئے بغیر رہ نہ سکیں گے۔مکرر عرض کرتی ہوں کہ یہ سازوسامان خریدتے وقت خصوصاً ڈبہ بند غذائوں پر E-100سے E-904تک ہر کوڈ کا مطالعہ کرکے ہی انہیں خریدیں۔ یہی ہمارے لئے بہتر رہے گا۔ آخر پر بس اس شعر پر اپنی التجا مختصر کر تی ہوں ؎
مانو نہ مانوجانِ جہاں تم کو اختیار
ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں