سرینگر // گرمائی دارالحکومت سرینگر کے پائین شہر میں واقع سب سے بڑی عبادت گاہ ’تاریخی و مرکزی جامع مسجد‘ میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر عائد پابندی سات ہفتوں کے بعد ہٹالی گئی جس کے بعد اس623 برس قدیم تاریخی مسجد میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے نماز جمعہ اجتماعی طور ادا کی۔ تاہم گذشتہ قریب 50 دنوں سے اپنی رہائش گاہ پر نظربند حریت (ع) چیئرمین میرواعظ عمر فاروق کو تاریخی جامع مسجد جانے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ میرواعظ نے مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ’سات ہفتوں کے بعد نماز ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ میں نے بذریعہ فون لوگوں سے خطاب کیا‘۔ جامع مسجد میں 23 جون کو جمعتہ الوداع کے موقع پر سخت ترین بندشوں کے ذریعے نماز جمعہ کی ادائیگی ناممکن بنائی گئی اور بعدازاں یہ سلسلہ مسلسل چھ جمعوں تک جاری رکھا گیا۔ وادی کی مختلف تجارتی انجمنوں کے اراکین نے جمعرات کو نوہٹہ میں جامع مسجد کے احاطے میں احتجاجی دھرنا دیاتھا۔شیش باغ راجوری کدل کے محمد یوسف نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ قریب60برسوں سے وہ جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ ادا کرتے آرہے ہیں،تاہم گزشتہ برس پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ وہ19ہفتوں تک جامع مسجد سے دور رہے اور امسال بھی لگاتار6ہفتوں تک وہ جامع مسجد میںنماز جمعہ ادا کرنے سے رہ گئے۔عیدگاہ سے تعلق رکھنے والے ایک معمر شہری نے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ کی ادائیگی جہاں انکے لئے روحانی غذا ہے وہیں پرانے دوستوں اور رفیقوں سے ملنے کا ایک بہانہ بھی بن جاتا ہے۔