یہ تدریسی ادارہ ہندوستان کا فخر اور انسانیت کا سرمایہ ہے
روشن مینار
شمس آغاز
جامعہ ملیہ اسلامیہ برصغیر کے ان نادر علمی اداروں میں سے ہے جن کی بنیاد محض تعلیم کے فروغ کے لیے نہیں بلکہ ایک نظریے، ایک تحریک اور ایک خواب کی تعبیر کے طور پر رکھی گئی۔ یہ ادارہ اُن عظیم رہنماوں کی قربانیوں کا ثمر ہے جنہوں نے غلامی کے اندھیروں میں آزادی کا چراغ جلایااور جنہوں نے تعلیم کو صرف کتابوں کی بات نہیں بلکہ انسان کے باطن کی روشنی سمجھا۔ جامعہ محض ایک عمارت یا یونیورسٹی نہیںبلکہ ایک ایسی فکری و تہذیبی تحریک ہے جس نے ہندوستانی مسلمانوں کو نئی شناخت، نیا حوصلہ اور نیا وقار عطا کیا۔
انیسویں صدی کے اواخر میں، جب برصغیر کی فضا غلامی کے بوجھ سے دبی ہوئی تھی، مسلمان قوم احساسِ شکست و ندامت میں مبتلا تھی۔ شکستِ 1857 نے ان کے حوصلے پست کر دیے تھے۔ ایک طرف سر سید احمد خان نے علی گڑھ تحریک کے ذریعے مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم کے دروازے کھولنے کی کوشش کی، تو دوسری طرف بیسویں صدی کے آغاز میں ایک نئی نسل اُبھری جو یہ محسوس کر رہی تھی کہ محض مادی ترقی کافی نہیں، تعلیم میں خودی، آزادی اور قومی وقار کی روح بھی ضروری ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب آزادانہ تعلیمی نظام کے قیام کا خیال ذہنوں میں پروان چڑھااور جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے قیام کی فکری بنیاد رکھی گئی۔
جامعہ ملّیہ اسلامیہ کا قیام 29 اکتوبر 1920 کو عمل میں آیا۔ یہ وہ دور تھا جب خلافت تحریک اور عدم تعاون کی تحریک پورے ملک میں اپنے عروج پر تھیں۔ مسلمانوں کے دلوں میں اُمتِ مسلمہ کا درد بھی موجزن تھا اور ہندوستان کی آزادی کا ولولہ بھی۔ ایسے میں قوم کے چند مخلص رہنما ڈاکٹر ذاکر حسین، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا محمود حسن اور شیخ الہند کے شاگردوں نے یہ محسوس کیا کہ غیر ملکی سرپرستی میں چلنے والے تعلیمی ادارے قوم کی خودی اور آزادیِ فکر کو مجروح کر رہے ہیں۔ چنانچہ ضرورت محسوس کی گئی کہ ایک ایسا ادارہ قائم ہو جو قوم کے وسائل سے، قوم کے لیے، اور قوم کے ہاتھوں وجود میں آئے۔ یہی وہ انقلابی تصور تھا جس نے جامعہ ملّیہ اسلامیہ کو جنم دیا۔
علی گڑھ کی سرزمین پر جب جامعہ ملّیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی تو اُس وقت کے سیاسی حالات نہایت نازک تھے۔ عدم تعاون تحریک کے اعلان کے ساتھ ہی برطانوی نظامِ تعلیم کے بائیکاٹ کا آغاز ہوا۔ طلبہ نے سرکاری و نیم سرکاری تعلیمی اداروں سے علیحدگی اختیار کر لی، اساتذہ نے اپنی ملازمتیں ترک کر دیں اور قوم نے عہد کیا کہ اب تعلیم غلامی کے سائے میں نہیں بلکہ آزادی کے افق کے نیچے حاصل کی جائے گی۔ جامعہ کے بانیوں نے اعلان کیا کہ یہ ادارہ کسی حکومت کے زیرِ اثر نہیں ہوگا، بلکہ ایک ملّی و قومی ادارہ ہوگا جو اسلامی اخلاقیات، ہندوستانی تہذیب اور جدید علوم کا حسین امتزاج پیش کرے گا۔
جامعہ کے قیام میں مولانا محمد علی جوہر کا جذبۂ آزادی، حکیم اجمل خان کی فیاضی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی عملی بصیرت، اور مولانا شوکت علی کی تنظیمی صلاحیتوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ان رہنماؤں نے قوم کے نوجوانوں کو تعلیم کے ذریعے خودداری اور آزادی کی راہ دکھائی۔ جامعہ کا نصب العین ابتدا ہی سے یہ رہا کہ تعلیم محض حصولِ روزگار کا ذریعہ نہ ہو بلکہ ایک مقدس فریضہ ہو، جس کے ذریعے انسان اپنی روحانی، اخلاقی اور سماجی ذمہ داریوں سے واقف ہو۔ اس کا مقصد ’’تعلیم برائے خدمتِ خلق‘‘ تھا نہ کہ’’تعلیم برائے ملازمت‘‘۔ اسی فلسفے نے جامعہ کو ہندوستان کی دیگر درسگاہوں سے ممتاز بنا دیا۔
1925ء میں جامعہ ملّیہ اسلامیہ کو علی گڑھ سے دہلی منتقل کیا گیا۔ دہلی کی فضا نے جامعہ کو ایک نئی توانائی اور وسعتِ نظر عطا کی۔ حکیم اجمل خان نے اپنی جائیداد اور رہائش جامعہ کے لیے وقف کر دی، اور یوں جامعہ نے ایک نئے دور میں قدم رکھا۔ اُس زمانے میں ڈاکٹر ذاکر حسین، پروفیسر محمد مجیب اور اختر حسین جیسے باصلاحیت نوجوان اساتذہ نے جامعہ کو محض ایک تعلیمی ادارہ نہیں رہنے دیا، بلکہ اسے ایک زندہ فکری و قومی تحریک کی صورت دے دی۔ ان دانشوروں نے جامعہ کے فلسفۂ تعلیم کو فکری گہرائی بخشی اور تعلیم کو صرف ذہنی تربیت نہیں بلکہ انسانی شخصیت کی ہمہ گیر تعمیر قرار دیا۔ ان کے نزدیک تعلیم کا مقصد یہ تھا کہ طلبہ اپنی زندگی کو اخلاقی اقدار، محنت، سچائی اور خدمتِ خلق کے اصولوں کے مطابق ڈھالیں۔
ان کی قیادت میں جامعہ نے تعلیم کو عملی زندگی سے جوڑنے پر خاص زور دیا۔ ہاتھ سے کام کرنے، ہنر سیکھنے اور محنت کو عزت دینے کا تصور جامعہ کے نصابِ تعلیم کا بنیادی حصہ بنا۔ طلبہ کو صرف نصابی علوم نہیں پڑھائے جاتے تھے بلکہ انہیں سماجی خدمت، ثقافتی شعور اور قومی ذمہ داری کا احساس بھی دلایا جاتا تھا۔ یہی ہمہ جہت تربیت تھی جس نے جامعہ کے فارغ التحصیل طلبہ کو محض ڈگری یافتہ نہیں، بلکہ باعمل، باشعور اور باکردار شہری بنا دیا۔
جامعہ ملّیہ اسلامیہ نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں جو کردار ادا کیا، وہ تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب ہے۔ جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ نے نہ صرف برطانوی اقتدار کے خلاف آواز بلند کی بلکہ عملی طور پر تحریکِ آزادی میں صفِ اوّل کا کردار ادا کیا۔ جامعہ نے قومی اتحاد، مذہبی رواداری اور حبِّ وطن کے جذبے کو فروغ دیا۔ طلبہ کو یہ احساس دلایا گیا کہ علم کا مقصد صرف ذاتی کامیابی نہیں، بلکہ قومی بیداری اور سماجی خدمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ ملّیہ اسلامیہ کا نام ہندوستان کی تاریخِ آزادی میں سنہری حروف سے رقم ہے۔
آزادی کے بعد جامعہ ملّیہ اسلامیہ کو نئے تقاضوں اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ قوم کی تعمیرِ نو کے لیے علم، اخلاق اور جدید سائنس کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔ جامعہ کے اساتذہ نے یہ ذمہ داری نہایت خلوص اور بصیرت کے ساتھ نبھائی۔ ڈاکٹر ذاکر حسین، پروفیسر محمد مجیب اور اختر حسین جیسے مدبّر رہنماؤں نے جامعہ کو جدید خطوط پر استوار کیا اور اسے فکری و سائنسی ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ 1962ء میں جامعہ کو’’Deemed to be University‘‘کا درجہ دیا گیا اور 1988ء میں بھارتی پارلیمنٹ کے ایک خصوصی ایکٹ کے تحت اسے مرکزی یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا۔ یہ عظیم کامیابی جامعہ کی علمی، اخلاقی اور تنظیمی عظمت کا زندہ ثبوت تھی۔
اردو زبان جامعہ ملّیہ اسلامیہ کی روح اور اس کی شناخت ہے۔ آغاز ہی سے جامعہ میں اردو کو ذریعۂ تعلیم کے طور پر اختیار کیا گیا۔ اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیب، ایک رویّہ اور ایک فکری روایت کی علامت ہے، اور جامعہ نے اس کی بقا و فروغ میں بے مثال خدمات انجام دی ہیں۔ مکتبۂ جامعہ کے ذریعے جو کتابیں، مجلّے اور نصابی مواد شائع ہوا، اس نے اردو ادب، تحقیق اور تعلیم کو نئی جہتیں عطا کیں۔ جامعہ کے اساتذہ نے اردو تحقیق، تنقید، تاریخ اور لسانیات کے میدان میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے۔ یہاں سے ایسے ادیب، محقق اور دانشور نکلے جنہوں نے اردو کو قومی ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر متعارف کرایا۔
جامعہ ملّیہ اسلامیہ نے نہ صرف اردو بلکہ دیگر ہندوستانی زبانوں اور عالمی علوم کو بھی ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ یہی وہ توازن ہے جس نے جامعہ کو ’’علم و تہذیب کے سنگم‘‘ کا درجہ عطا کیا۔ یہاں سائنس، سماجی علوم، قانون، ابلاغِ عامہ، تعلیم اور فنونِ لطیفہ کے شعبے ایک دوسرے سے گہرے طور پر مربوط ہیں۔ علی گڑھ کی علمی روایت اور ہندوستانی روحانی بصیرت کا حسین امتزاج جامعہ کے ماحول میں نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے، مگر اس کا اپنا رنگ سب سے جدا ہے ۔ وہ رنگ خودداری، آزادی اور خدمتِ انسانیت کا رنگ ہے۔
وقت کے ساتھ جامعہ نے خود کو بدلتے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ آج یہ ادارہ جنوبی ایشیا کی ممتاز جامعات میں شمار ہوتا ہے۔ جامعہ کا انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی شعبہ، قانون فیکلٹی، اور ابلاغیات کا مرکز اپنی مثال آپ ہیں۔ یہاں سے نکلنے والے صحافی، ماہرینِ قانون، سائنس دان اور سماجی کارکن دنیا بھر میں ہندوستانی تعلیم و تہذیب کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
جامعہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ سماجی انصاف اور اقلیتوں کی تعلیم کو اپنی ترجیحات میں رکھا۔ جامعہ کے دروازے ہر طبقے کے لیے کھلے ہیں۔ یہاں مذہب، زبان یا ذات کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں۔ مساوات، رواداری اور انسانیت کے اصولوں کا یہ مرکز آج بھی اُن طبقات کے لیے اُمید کی کرن ہے جو تعلیم کے ذریعے اپنی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں۔جامعہ کے کردار کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس نے تعلیم کو سماجی اور سیاسی شعور کا ذریعہ بنایا۔ یہاں تعلیم یافتہ ہونا صرف کتابوں کا علم حاصل کرنا نہیں بلکہ اپنی قوم، معاشرے اور دنیا کے تقاضوں کو سمجھنا بھی ہے۔ جامعہ نے اپنے طلبہ میں یہ احساس پیدا کیا کہ علم اُس وقت تک بامعنی نہیں جب تک وہ انسان اور انسانیت کے کام نہ آئے۔
جامعہ ملّیہ اسلامیہ کی فضا میں آج بھی فکری، روحانی اور تہذیبی ہم آہنگی کی خاص کیفیت موجود ہے۔ اس کے در و دیوار محض درس و تدریس کے گواہ نہیں بلکہ کردار، قربانی اور خدمت کے عکاس ہیں۔ یہاں آنے والا طالب علم صرف کتابوں سے نہیں جُڑتا، بلکہ ایک زندہ روایت سے وابستہ ہوتا ہے ۔ ایک ایسی روایت جس کی بنیاد خلوص، خودداری اور قومی شعور پر رکھی گئی ہے۔
آج جب دنیا جدیدیت، ٹیکنالوجی اور مادیت کے دباؤ میں انسانیت کی روح کھوتی جا رہی ہے، جامعہ ملّیہ اسلامیہ اُس آواز کا نام ہے جو یاد دلاتی ہے کہ تعلیم کا اصل مقصد انسان کو انسان بنانا ہے۔ یہ ادارہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ترقی اُن قوموں کا مقدر ہوتی ہے جو اپنی شناخت اور تہذیب کو بھلائے بغیر آگے بڑھتی ہیں۔ جامعہ نے ہمیشہ ماضی کی روایات اور حال کے تقاضوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی اس کی حقیقی عظمت ہے۔
اگر علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کیا، تو جامعہ ملّیہ اسلامیہ نے انہیں تعلیم کے ساتھ خودی اور غیرتِ ملی کا شعور بھی عطا کیا۔ یہ ادارہ نہ ماضی سے منہ موڑتا ہے، نہ حال سے غافل ہوتا ہے اور نہ مستقبل سے خوف کھاتا ہے۔ جامعہ کی تاریخ دراصل اُس قوم کی تاریخ ہے جس نے غلامی کے عہد میں خودداری کے ساتھ جینا سیکھا۔ اس ادارے نے اپنے طلبہ کو یہ سبق دیا کہ قوموں کی عزت صرف ڈگریوں سے نہیں بلکہ علم، عمل اور ایمان سے تعمیر ہوتی ہے۔آج بھی جامعہ کی فضا میں وہی پیغام گونجتا ہے ۔ علم ہی آزادی ہے، اور تعلیم ہی انقلاب ہے۔
یہ ادارہ صرف ہندوستان کا فخر نہیں بلکہ انسانیت کا سرمایہ ہے۔ یہ وہ درسگاہ ہے جس نے ثابت کیا کہ اگر نیت خالص ہو، مقصد واضح ہو اور قوم کے لیے دل دھڑکتا ہو، تو ریت کے ذروں سے بھی قلعے تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ جامعہ کی روح آج بھی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ قوموں کی بقا علم، اخلاق اور خودی میں ہے اور یہی جامعہ ملّیہ اسلامیہ کی اصل پہچان ہے۔ میں نے خود جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کی ہے اور اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ دعویٰ بلا جھجک کر سکتا ہوں کہ یہاں نہ صرف علم بلکہ کردار، خدمت اور قومی شعور کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔
رابطہ۔9716518126
[email protected]