گندو// جامعہ اُم القریٰ للبنات گوگاڑہ تحصیل کاہراہ کا دوسرا سالانہ جلسہ جامع مسجد گوگاڑہ میں مفتی جاوید احمد ندوی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں ضلع بھر کے متعدد معروف علمائے کرام نے شرکت کر کے عام شرکائے اجتماع کو اپنے مواعظات سے مستفید کیا۔اجتماع کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا جس کے بعد جامعہ کی طالبات نے اپنا رنگا رنگ پروگرام پیش کیا۔مولانا فیض محمد ندوی نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔ایک روزہ اجتماع کے دوران صدر مجلس مفتی احمد ندوی کے علاوہ ڈاکٹر ریاض احمد ندوی، مولانا افضل ندوی، مولانا محمد عرفان ندوی اور مولانا لیاقت علی ندوی نے شرکائے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل پیرا ہونے اور دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے خبردار رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔تعلیم نسواں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ معاشرے کو سنوارنے یا بگاڑنے میں عورت کا بہت ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی تشکیل صرف مرد تک ہی محدود نہیں بلکہ عورت بھی اس میں برابر کی حقدار ہے۔عورت پر گھریلو ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت کے لئے امور خانہ داری کے علاوہ دنیا کے باقی کام ممنوع ہیں۔ بلکہ خانگی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد وہ اپنے ذوق اور رجحان کے لحاظ سے علمی‘ ادبی اور اصلاحی کاموں میں حصہ لے سکتی ہے۔دین اسلام نے واضح طور پر بتادیا ہے کہ مرد اور عورت کی تخلیقی بنیاد ایک ہے۔ قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی فضیلت انسانی کا ذکر آیا ہے اس میں مرد اور عورت دونوں برابر کے شریک ہیں۔ تقویٰ اور آخرت کی فلاح کا جو معیار مرد کے لئے مقرر کیا گیا ہے‘ وہی عورت کے لئے ہے۔ ہمارا دین عورت کو گھر کی چار دیواری میں اس طرح قید نہیں کرتا کہ وہ اپنی ضروریات کیلئے دوسروں کی دست نگر رہے۔ اپنی ضروریات کے حصول کے لئیاسلام کے عظیم احسانات میں سے عورت کو جس قدر حصہ ملا ہے‘ اس کی مثال دنیائے تاریخ میں نہیں ملتی اور اسی طرح تعلیمات نبوی پر عمل کرتے ہوئے جو کارنامے معزز محترم خواتین نے انجام دیئے ہیں ان سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا۔آج دینی تعلیم کی ضرورت جتنی مردوں کو ہے، اس سے کہیں زیادہ عورتوں کو ہے۔ عورت کا قلب اگر دینی تعلیمات سے منور ہو تو اس چراغ سے کئی چراغ روشن ہوسکتے ہیں۔ وہ دیندار بیوی ثابت ہوسکتی ہے، وہ ہر دل عزیز بہو بن سکتی ہے اور نیک اور شفیق ساس ہوسکتی ہے، وہ اپنے بچوں کی معلم اوّل ہوسکتی ہے، وہ خاندانی نظام کو مربوط رکھ سکتی ہے، معاشی تنگی کو خوش حالی سے بدل کر معاشی نظام مضبوط کرسکتی ہے، وہ شوہر کے مرجھائے اور افسردہ چہرے پر گل افشانی کرسکتی ہے، میخانے کو مسجد اور بت خانے کو عبادت خانہ بناسکتی ہے، اولاد کو جذبہ? جہاد سے سرشار کرسکتی ہے۔ الغرض دینی تعلیم یافتہ عورت وہ سب کچھ بہت آسانی سے کرسکتی ہے جو اسلام چاہتا ہ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوجائے تو منفی نتیجہ کیسا خوف ناک ہوگا، اندازہ کرنا مشکل نہیں اور دینی تعلیم سے بے انتہاء غفلت عورت کوشیطان بنادیتا ہے۔