اللہ تعالیٰ انبیا کے ذریعہ انسانیت کی فلاح و بہبود اور ہدایت کا انتظام فرماتا ہے جو الٰہی تعلیمات اور اپنے عملی نمونہ کے ذریعہ لوگوں کو انسانی ہمدردی کے پیکر بننے کا درس دیتے ہیں۔ بیمار کی تیمارداری کرنا، غریب، ضرورت مند، مسافر، مظلوم ایسے لوگوں کی خود آگے بڑھ کر مدد کرنا انبیاء کرام کی بعثت کی مرکزی غرض و غایت ہے اورایسی نیکیاں کرنے والے اپنے خالق و مالک کی رضا حاصل کرتے ہیں۔ ضروریات زندگی کیلئے رزق کے حصول کیلئے محنت مزدوری یا کاروبار کرنا اللہ کا حکم ہے مگر مال و دولت جمع کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنالینا اور اس دوڑ میں جائز ناجائز کی تمیز بھلا دینا گویا ہلاکت کے زمرے میں آئے گا۔ انسان اگر اس خواہش اور کوشش میں رہے کہ غربا اور حاجت مندوں پر اپنی نیک کمائی کا مال خرچ کرے تو یہ بہت بڑی سعادت اورعظیم نیکی ہوگی۔اگر ممکن ہوتو یتیم کواپنی کفالت میں لے کر بہترین پرورش اور تربیت کرنی چاہئے، کیونکہ ایسا کرنے والے کاگھر سب سے اچھا گھر بن جائے گا۔ لیکن اگر ذاتی طور پر یتیم کو پالنا کسی کیلئے ممکن نہ ہو تویتامیٰ اور غرباء کی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں حصہ ڈال کر انسان اللہ کا محبوب بندہ بن سکتا ہے۔اگر اس نیت سے صدقہ خیرات کریں کہ اللہ کی رضا حاصل ہو تواللہ کی رضا بھی حاصل ہوگی اور مال میں فراخی بھی ہو گی۔جن لوگوں کو اللہ نے مالی فراخی دی ہو،اُن کو سمجھنا چاہئے کہ اُن کے اموال میں غربا،ضرورت مندوں کا حق ہوتا ہے اور اگر وہ یہ حق ادا نہ کریں اور اپنے اوپر ہی خرچ کرتے رہیں یا جمع کرتے رہیں تو وہ اس حقداروں کو اُن کے حق دینے کی بجائے حق دبائے رکھنے کے جرم کے مرتکب ہوں گے اور اللہ کی ناراضگی مول لینے والے ہوں گے اور جن لوگوں کی ایسی حالت میں وفات ہو جائے تو ایسے گناہ کا کفارہ ممکن نہیں ہوگا ۔یہاں مانگے والوں سے مراد ایسے غریب افراد ہیں جو اپنی ضرورت کیلئے کسی سے مدد کی درخواست کریں، اسی طرح دینی ضروریات کیلئے چندہ کی ادائیگی کی یاد دہانی کرانے والے بھی مانگنے والوں میں شامل ہوتے ہیں جو اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ دینی ضروریات اور دیگر غربا کیلئے مانگ رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف جو مانگ نہیں سکتے اس میں اپنے قریبی عزیز رشتہ دار، دوست ہمسائے جو سفید پوشی میں اپنا بھرم رکھنے کیلئے اپنی بنیادی ضروریات کیلئے کسی سے قرض تک بھی مانگنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اگر چندہ کی ادائیگی کی یاد دہانی کرانے والے افراد اگر کبھی اپنا فرض ادا نہ کر پائیں تو چندہ دینے والوں کو بن مانگے اپنا چندہ خود ادا کر دینا چاہئے کیونکہ یہ اللہ کے حکم کے مطابق اپنا حق ادا کرناہے جیسا کہ اوپر درج شدہ سورہ الذاریات کی آیت میں مذکور ہے۔اگر کوئی امیر کاروباری شخص اپنے غریب مزدور کو مناسب معاوضہ نہ دے تو غریب مزدور مجبوراً کام تو کرتا رہے گا مگر اندر سے کڑھتا رہے گااور عین ممکن ہے امیر کیلئے بد دعا بھی کرنے لگے اور اگر وہ بد دعا نہ بھی کرے تب بھی غریب مجبور پر ظلم کے نتیجہ میں وہ امیر شخص اللہ کے غضب کا مورد بن سکتا ہے۔اسی طرح اگرکسی امیرفرد کے علم میں کوئی حاجت مند آئے اور امیر شخص مدد نہ کرے تو وہ امیر شخص بھی اللہ کے ہاں مجرم ہوگا۔ اکثر لوگ جن کے مالی وسائل ہوں وہ بڑے اور مہنگے گھر، نئی مہنگی گاڑی ، مہنگے اِن فیشن کپڑوں اور قسما قسم کے کھانوں پر خرچ کرتے رہتے ہیں اور بعض تو فیشن اور دوسروں کی دیکھا دیکھی کی دوڑ میں فضول خرچی کرکے مالی تنگی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ بالعموم ایسے لوگ انفاق فی سبیل اللہ میں اپنے قریبی عزیزوں کی حاجات اور غریب جاننے والوں کی بنیادی ضروریات کیلئے خرچ کرنے میں کنجوس ہوتے ہیں یعنی ایک طرف فضول خرچی اور دوسری طرف کنجوسی۔ لیکن جو لوگ اللہ کی رضا کیلئے خرچ کرتے ہیں وہ اپنی ذات کیلئے ہر ممکن بچت کرتے ہیں اور اللہ کی رضاکے حصول کیلئے دلی خوشی سے خرچ کرتے ہیں۔فضول خرچ لوگ بسا اوقات فیشن کی دوڑ اور نمود و نمائش میں پھنسے رہتے ہیں جبکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے محروم رہتے ہیں ۔یاد رہے اللہ فضول خرچوں کو پسند نہیں کرتا لیکن انفاق فی سبیل کرنے والوں کو اللہ کی رضا اور مالی وسعت حاصل ہوتی ہے اور انفاق فی سبیل کیلئے جاریہ رمضان مہینہ سے کوئی افضل مہینہ نہیں۔اس لئے دل کھول کر اس ماہ میں غرباء ،ضرورت مندوں ،مسکینوں و محتاجوں ،یتیموں و بیوائوں اور نادار مریضوں کی مدد کریں تاکہ اللہ آپ سے راضی ہو اور آپ کا دین و دنیا سنور جائے۔