ثالثی کے عمل سے مقدمات کا مصالحانہ حل تلاش کرنا غالبا ہمارے وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور جموںوکشمیر ہائی کورٹ کی کمیٹی برائے ثالثی و مصالحت نے گزشتہ دنوں شیر کشمیر انٹرنیشنل کنونیشن سنٹر میں اس حوالے سے ایک سہ روزہ ریاست گیر ورکشاپ کا اہتمام کرکے اس ضرورت کے تئیں عدلیہ کے مثبت احساس کا پیغام فراہم کیا ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ہماری عدالتوں میں ہزاروں کی تعداد میں مقدمات زیر سماعت ہیں اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اس میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے عدالتوں پر بوجھ میں بے پناہ اضافہ ہونے کے بہ سبب مقدمات کے فصیل ہونے میں لازمی طور پر تاخیر کا عنصر داخل ہوجاتا ہے۔چنانچہ بعض اوقات معاملات برسہابرس تک زیر سماعت رہنے کے باوجود فصیل نہیں ہو پاتے اور جب فیصلے ہو جاتے ہیں تو فریقین کی جانب سے اعلیٰ عدالتوں کی طرف رجوع کرنے کے رجحان سے سماعت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو تاہے، جو بالآخر انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا سبب بن جاتا ہے۔ چنانچہ مقدمات کے طول کھینچنے سے وقت اور سرمائے کا بے حد و حساب زیاں در پیش آنا ایک قدرتی امر ہے ۔ ایسے حالات میں فریقین کوکن مشکل مراحل سےگزرنا پڑتا ہوگا ، وہ ہر معاملے میں ایک منفرد کہانی ہوسکتی ہے۔چونکہ موجودہ دور میں ہر شخص کو وقت کی کمی کا مسئلہ درپیش ہےلہٰذ اسکا تقاضا ہے کہ مقدمات اور تنازعات کے طے ہونے میں جتنی جلدی ہوسکے اُسی قدر متاثرین کو بہتر انصاف فراہم ہوسکتا ہے اور سماجی ڈھانچہ کو استحکام مل سکتا ہے۔اس موضوع پر محولہ بالا ورکشاپ میں جج حضرات اور ماہرین قانون نے اپنی آراء اور تجربات پیش کرکے عدلیہ سے وابستہ حضرات یہ بات اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے فریقین کے درمیان ثالثی کے ذریعہ مصالحت کرواکر نہ صرف انصاف کے تقاضوں کو بہتر طریقے پر پورا کہا جاسکتا ہے بلکہ یہ ہے مجموعی طور پر سماج کے اندر ایک مثبت سوچ پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ چنانچہ ریاستی ہائی کورٹ کی چیف جسٹس، جسٹس گتا متل نے ثالثی کو کھیل بدل(Game Changer) قرار دے کر اسے فراہمی انصاف کے ایک متبادل ذریعہ کے طور پر اختیا کرنے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے مقدمات میں الجھے فریقین کے درمیان مصالحت کا احساس اُجاگر کرنے کے عمل کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا ہے۔ یہ ایک اہم حقیقت ہے اور مختلف ممالک ،خاص کر مغربی دنیا ،میں اس عمل نے فراہمی انصاف کے عمل میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ جس کے طفیل وہاں فریقین کے درمیان تنازعات اور معاملات سرعت کے ساتھ فصیل ہو جاتے ہیں، نتیجتاً عدالتوں میں مقدمات کے انبار جمع ہو نے کی نوبت نہیں آتی اور اس طرح عدلیہ بھی اضافی بوجھ سے بچ جاتی ہے۔ ہماری عدالتوں میں فی الوقت زیر سماعت کیسوں کی ایک بڑی تعدا موجود ہے، لہٰذا اُنہیں فصیل کرنے کےلئے متبادل ذرایعہ کی بہت ضرورت ہے۔ عدالت عالیہ کی جانب سے منعقدہ مذکورہ ورکشاپ میں ماہرین نے تربیت کے کئی سیشن منعقد کرکے جج صاحبان اور وکلاء حضرات کو ثالثی اور سماعت کے نئے طور طریقوں سے آگاہ کیا ہے، جو یقینی طور پر عملی میدان میں بہتر نتائج کی فراہمی میں ممدو معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہمارے سماج میں مقدمہ بازی کے ذریعہ معاملات طے کرنے کا مزاج جس عنوان سے راست ہو چکا ہے، اُسکا تقاضا ہے کہ عوامی سطح پر بھی لوگوں کے درمیان ثالثی کے فوائداور اسکے مثبت نتائج کے بارے میں بیداری مہم چلائی جائے۔ یقینی طور پر عدالت عالیہ کی مذکورہ کمیٹی کی جانب سے کی گئی یہ کوشش عوامی حلقوں کے اندر اس حوالے سے بیداری پیدا کرنے کےلئے ایک تحریک فراہم کرسکتی ہے، لہٰذا ایسے پروگراموں کا بھر پور خیر مقدم کرنے کی ضرورت ہے۔