عبداللطیف تانتر ے
انسان اپنی تخلیق سے تا ایں دم اس دنیا میں تمام خلقِ خُدا پر اپنی بالادستی قائم رکھ کر فطرت کے پُر پیچ اور کافی دشوار اسرار کی گتھیاں سلجھانے کا امتیازی کردار نبھاتا رہا ہےاور قانون قدرت سے چلنے والے نظامِ کائنات کا روئے زمین پر موجود مخلوقات میں سے واحد جانکار انسان نظامِ قدرت کے بہت سارے رازوں پر سے پردہ فاش کر کے تیزرفتاری سے اس دوڑ میں آگے بڑھتا رہا ہے۔ قدرت کی طرف سے مخلوقِ کائنات کے لئے رکھے گئے مخفی خزانوں کا سُراغ لگانے میں انسان کو عطا کردہ خداداد صلاحیتوں اور اپنی محنت اور لگن کی بناءپر کافی حد تک کامیابی حاصل ہوچکی ہے۔ حالانکہ کائنات کی وسعت کے تناسب سے یہ کامیابیاں کافی نہیں گردانی جاسکتی کیونکہ کائنات کی وسعتوں کا ابھی تک یہ شانِ امتیاز رکھنے والا انسان بھی احاطہ کرنے سے قاصر نظر آرہا ہے لیکن اس اِرتقائی عمل میں زمانۂ حال کا انسان تواریخی تقابل کے تناظر میں اُس مقام پر کھڑا ہے جس کی کوئی نظیر نہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی اس شانِ امتیازی کا ثمرہ یہ ہے کہ وہ دنیاوی معیار زندگی کی اُن بلندیوں پر پہنچا ہے جس کا تصور دورِ قدیم میں کسی انسان نے نہیں کیا ہوگا۔ تاہم معیارِ زندگی کی بہتری کے ساتھ ساتھ انسان کے بسر اوقات کا طریقہ کار فطری سے مصنوعی ہوتا جارہا ہے۔ قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال کے ساتھ ساتھ تیار شدہ مصنوعی سہولیات کا عادی انسان اب اتنا آرام طلب اور عیش پرست بننا شروع ہوا ہے کہ بطریقِ احسن زندگی گزارنے کے لئے دھوکا دہی، جھوٹ، فریب، مکاری جیسے بد افعال کو وہ لازمی قرار دینے پر آمادہ ہورہا ہے اور آثار وقرائن بتارہے ہیں کہ انسان کے اندر موجود ملکہ امتیازی ہی اب اسکی مصنوعی چکاچوند کے نذر ہوتا جا رہا ہے۔ جب انسان میں خیروشر کی تمیز نہیں رہے گی تو انسان کا شعوری طور بگاڑ کا شکار ہونا طے ہے اور تقریباً یہ رُجحان موجودہ دور میں اپنی جڑے جما چکا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ انسان نے شعوری طور بیدار ہونے اور بیدار کرنے کا اپنا اساسی کردار بھی پسِ پشت ڈال دیا ہے۔
آج کے دور کے تربیتی نظام پر اگر نظر دوڑائی جائے تو چشمِ زدن میں یہ حقیقت منکشف ہو گی کہ مقصدِ حیات کا تصور یکسر بدل چکا ہے اور اب انسان اپنے بنائے ہوئے محدود مصنوعی جالے میں ہی اپنی کامیابی اور مقصدیت پانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔ ایسے حالات میں ہمیں انفرادی سطح کے ساتھ ساتھ اجتماعی سطح پر بھی اپنی زندگیوں کو فطری اصولوں پر گزارنے کا شعور بیدار کرنا ہوگا تاکہ دورِ آغاز سے جاری انسان کا اِرتقائی سفر بہال بھی رہے اور نظامِ کائنات میں اپنے مقصدِ حیات کا پورا نقشہ کھینچ کر اصل کامیابی تک رسائی بھی پائی جاسکے۔ ہمیں چاہیے کہ ہمارے اندر ودیعت شدہ اصل تصورِ کامیابی یعنی مقصدِ حیات کو بھانپ کر اُسے پانے کی راہ پر استقامت کے ساتھ دنیا کے فطری اصولوں سے ہم آہنگ ہوکر گامزن ہو جائیں۔
زندگی کے تمام تر میدانوں میں انسان کو ایک ڈگر یا راہ اختیار کرکے ہی منزل مقصود تک رسائی ممکن ہے، وہ چاہے کسی کا تعلیمی سفر ہو یا حصولِ روزگار کا سفر، کسی کا دینی سفر ہو یا دنیاوی سفر، کسی کا تخلیقی سفر ہو یا تنقیدی سفر، کسی کا گھریلو سفر ہو یا دفتری سفر، کسی کا سیاسی سفر ہو یا سماجی سفر، کسی کا روحانی سفر ہو یا نفسانی سفر، الغرض انسان کا انفرادی سفر ہو یا قوم و ملت کی ترقی کا سفر، سب کے سب ایک معین راہ کے بغیر کامیابی کے ساتھ طے پانے دشوار ہی نہیں ناممکن ہیں۔ اگر ہم دُنیاوی امور سے متعلق معاملات پر غور کریں تو انسان فطری طور اپنے اپنے انداز میں اپنے لیے اہداف یا منزلیں طے کرتے ہیں لیکن اُن اہداف تک رسائی کی صحیح راہ پکڑنا ایک کارِ محال سمجھا جاتا ہے کیونکہ ہدف یا منزل تَخَیُل سے تعلق رکھتا ہے اور راہ کا تعلق عمل سے ہے۔ عملی میدان میں انسان ایک راہ اختیار کر کے صرف اور صرف منزل پر پہنچنے کا متمنی ہوتا ہے اور اگر متعین کردہ راہ اُسے منزل تک رسائی فراہم نہ کر سکی تو فطری تقاضے کی بناء پر وہ خود کو ناکام سمجھ کر نااُمیدی سے دوچار ہوسکتا ہے اور خدا نخواستہ ایسی نوبت آگئی تو انسان میں منازل کا تعین کرنے کا تَخَیُّلی مادہ اتنا نحیف ہوسکتا ہے کہ وہ اُس مسافر کی مانند اپنی زندگی کا باقی مانندہ سفر طے کرے گا جس کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ جانا کدھر ہے ۔
یہاں تک یہ بات واضح ہو گئی کہ ایک انسان کے لیے کامیاب زندگی گزارنے کیلئے ایک منزلِ مقصود اور اس تک رسائی کی صحیح راہ پانا ناگزیر ہے۔ تاہم صرف منزل مقصود اور تعینِ راہ کو کامیابی کی ضمانت تصور کرنا بھی کوئی دانائی نہیں ہوگی بلکہ منزلِ مقصود کی طرف راہِ راست پر گامزن ہو کر سفر کی دشواریوں اور پیچیدگیوں سےلڑکر استقامت کے ساتھ چلتے رہنا ہی کامیابی کی روح ہےکیونکہ کارگاہِ حیات کا یہ پُر پیچ سفر بڑا پُر خطر ہے۔ کئی قوتیں انسان کو راہِ راست سے بھٹکانے پر لگی ہوتی ہیں۔ لہٰذا عین ممکن ہے کہ کوئی شخص منزل اور صحیح راستے کی خبر پا کر سفر پر نکلے، لیکن راستے میں بہک جائے اور باوجود پوری تگ ودو کے منزل مقصود تک نہ پہنچ سکے۔ اسلئے کہا جاسکتا ہے کہ زندگی کے مراحل کو بحُسن خُوبی طے کرنے کیلئے یہ تین نکاتی منشور ہی انسان کا سامانِ تسکین ہوسکتا ہے۔دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ منزل کا تعین، راہ کی معرفت اور ثابت قدمی کامیابی کے تین ستون ہیں۔ اس منشور کے مطابق چلنے والا ہر کوئی انسان قانونِ فطرت کےمطابق اپنے مقرر کردہ تصورِ کامیابی سے ہمکنار ہوگااور یہی وجہ ہے کہ حصولِ دنیا میں منزل کی اور استقامت کے ساتھ گامزن ہو نے والا کوئی بھی انسان بلا لحاظِ مذہب و ملت، رنگ و نسل یا ذات پات کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ یہی تین نکات ہیں جو زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کی سیڑھی کے زینیں کہلاتے ہیں ۔
موضوع کی مناسبت سے یہ بات بھی برمحل ہوگی کہ جہاں دُنیا کے تمام تر فلسفیانہ نظریات کامیابی سے متعلق اپنے اپنے نظریات پیش کررہے ہیں وہی قرآن پاک بھی حیاتِ انسانی کے مقصد اور نصب العین کے شعور سے لیکر اس کے حصول کی حتمی ضمانت تک رہنمائی فرما رہا ہے۔ علماء حق قرآن کی پہلی سورہ فاتحہ کی پانچویں آیت اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ سے ان تین مدارجِ کامیابی کا استدلال لیتے ہیں۔ یہ آیت تین حصول پر ہی مشتمل ہے۔ اھدنا، الصراط اور المستقيم۔ علمائے حق کے مطابق اھدنا کی پکار کے ذریعے انسان بارگاہِ ایزدی سے شعوری ہدایت طلب کرتا ہے۔ وہ اپنے خالق و مالک سے ایسا شعور مانگتا ہے جس کے باعث اُسے اپنی منزل کی خبر ہو سکے۔ صدقِ دل سے نکلنے والی اس پکار پر ہدایتِ حق متوجہ ہوتی ہےاور انسان کو شعورِ مقصد عطا کر دیتی ہے۔ اس کے بعد ایک نئی طلب جنم لیتی ہے اور وہ ہے راستے کے تعین کی ضرورت اور الصراط کی پکار کے ذریعے انسان بارگاہِ ایزدی سے راستے کے تعین کی ہدایت طلب کرتا ہے۔ اب وہ اپنے خالق و مالک سے ایسی رہنمائی مانگتا ہے جس کے باعث اُسے منزل تک پہنچانے والے راستے کی خبر ہوسکے۔ جب ہدایتِ حق متوجہ ہوکر انسان کو صحیح راستے کے تعین کی توفیق سے بھی نواز دیتی ہے تو اُسے ایک اور طلب دامن گیر ہوجاتی ہے اور وہ ہے حصولِ مقصد کی ضمانت۔ یہاں المستقيم کی پکار کے ذریعے انسان بارگاہِ ایزدی سے استقامت اور حصولِ مقصد کی ضمانت کی درخواست کرتا ہے۔ اب وہ اپنے خالق و مالک سے اس امر کی یقین دہانی مانگتا ہے کہ وہ صحیح راستے پر استقامت کے ساتھ گامزن رہ سکےکیونکہ استقامت ہی منزلِ مقصود تک پہنچنے کی اصل ضمانت ہے۔