راجیہ سبھا میں دم توڑدینے والے تین طلاق بل کا مختلف پس منظر میں تجزیہ کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ایک طرف سیاسی بازی گرو ں کی زور آزمائی تھی تو دوسری طرف مسلم قائدین کا ایک امتحان تھا۔لوک سبھا میں اس بل کی منظوری کے بعد راجیہ سبھا میں اپوزیشن پارٹیوں نے اس کی مخالفت میں جو کردار ادا کیا، اس میں کہیں نہ کہیں مسلم سیاسی اور ملی قائدین کا سیاسی شعور چھپا ہواہے ۔ اگر قائدین بروقت بیدار نہ ہوتے تو وہ اپنے امتحان میں انتہائی ناکام ہوتے ہی، ساتھ ان کے سیاسی شعور کا کھلا مزاق بھی اڑایا جاتا ہے اور مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی ایک بھدی مثال قائم ہوجاتی۔یہ اورچیزوں کے علاوہ ایک جمہوری ملک اور ہمہ رنگ آئین کے ماتھے پر بھی بدنما داغ ہوتا۔ گویا اس بل کے زیر التواء ہوجانے سے جہاں جمہوریت مجروح ہونے سے بچ گئی ، وہیں مسلم قائدین کسی حدتک اپنے امتحان میں کام یاب ہوئے۔ اس کامیابی کو مزید دیرپا بنانے کے لیے مسلسل سیاسی بیداری کا ثبوت دینا ضروری ہے ۔
اس نازک موقع پر ایک طرف جہاں مسلم پرسنل لا ء بور ڈ کے اراکین نے زمینی سطح پر سیاسی رُخ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا، وہیں مولانا اسرارالحق قاسمی (ایم پی)نے بروقت اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا کیوں کہ بورڈ کے اراکین نے ملک کے بڑے لیڈروں سے ملاقاتیں کیںاور لوک سبھا سے منظور ہوجانے والے بل کے نکات کو واضح کیا تو دوسری طرف مولانا قاسمی نے انفرادی محنت کرتے ہوئے راجیہ سبھا میں اہم کردار ادا کرنے والے سیاست دانوں کی ذہن سازی کی۔ ان کے اس کردار میں جہاں سیاسی بصیرت کی کارفرمائی نظر آتی ہے ، وہیں ملی درد کا احساس بھی چھپا نظر آتا ہے ۔
مولانا اسرارالحق قاسمی نے لوک سبھا میں بل پاس ہونے سے عین قبل کچھ اہم لوگوں سے مشورے کا جو فیصلہ کیا تھا، اس کی سیاسی نوعیت پر کئی بات کی جاسکتی ہے، لیکن انہوں نے راجیہ سبھا میں اس بل پر ہونے والی بات چیت سے قبل جو کردار ادا کیا ، وہ ان کی سیاسی بصیرت کی مثال ہے ۔ بالفر ض اگر وہ لوک سبھا میں مخالفت کرہی دیتے تو خود مولانا کانگریس کے حریف کی شکل میں سامنے آتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ راجیہ سبھا کی کارروائی سے قبل وہ نہ کانگریس کو کچھ سمجھا پاتے اور نہ ہی کانگریس اپنے موقف میں نرم پڑتی ۔ یہ بات اپنی جگہ مسلّمہ ہے کہ لوک سبھا میں بل پاس ہونے کے بعد مسلمانوں میں پائے جانے والے غم وغصہ کا احساس کانگریس کو ہوا ، لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مولانا نے کانگریس صدر اور دیگر سیاستدانوں کی ذہن سازی میںجو اہم کردار ادا کیا وہ راجیہ سبھا میں بارآور ثابت ہوا۔ مثبت رائے رکھنے والے سیاسی مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر مولانا اسرارلحق قاسمی اس بل کی مخالفت لوک سبھا میں کردیتے تو منٹوں میں وہ مسلمانوں کے جذباتی ہنرو بن جاتے۔ چند دنوں میڈیا میں چھائے رہتے، مگر ایک سیاسی لیڈر کی شبیہ نہیں اُبھرتی اور نہ ہی کانگریس کے سامنے اس بل کے کمزور پہلوؤں کو وہ رکھ پاتے ۔ اسی طرح نہ وہ دوسرے لیڈروں کے پاس جاکر فوری طور پر کچھ کہنے پانے میں حق بہ جانب ہوتے۔ البتہ وہ مسلمانوں کے شو پیس ہیر و ہوتے ، لیکن سیاسی اعتبار سے مسلمان پارلیمنٹ کے ایوانوں میں کمزور نظر آتے۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ بل پیش ہوتے وقت ان کی غیر موجودگی میں چاہے جو بھی وجہ رہی ہو ، وہ ایک اعتبار سے بل کو زیر التوا ء رکھنے میں بہتر ثابت ہوا ۔ چنانچہ یہ کہنا کہ پارٹی کے حق میں محبوب بننے کے لیے مولانا اسرارالحق قاسمی پارلیمنٹ میں موجود نہیں تھے ، زیادہ مناسب بات نہیں لگتی۔ اگر طلاق بل کے معاملہ میں پارٹی کی رائے سے ہی متفق ہوتے تو وہ شاید اس بل کی مخالفت میں پریس ریلیز جاری نہیں کرتے اورنہ ہی تین طلا ق ثلاثہ کے خلاف مضمون لکھتے۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ ایک طرف مسلم پرسنل لاء بور ڈ نے قائدانہ کردار ادا کیا، وہیں دوسری طرف بروقت مولانا اسرارلحق قاسمی نے سیاسی بصیرت کو بروئے کار لایا ۔اس کے نتیجہ میں ٹرپل طلاق بل نے راجیہ سبھا میں تاحال دم توڑ دیا ۔
ملک کاجو منظرنامہ ہے ، اس میں خوش فہمی پالنا انتہائی تساہلی کی بات ہوگی۔ اس لیے پارلیمنٹ میںآئند ہ ہونے والے اجلاس سے قبل مسلم علماء،رہنما اور قائدین کو ہم آواز ہوکر کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ بھی یہ بل اور اس جیسے سر ابھارنے والے دوسرے بل سرد بستے میں رہے۔ البتہ طلاق ثلاثہ بل پر ہونے والی ہنگامہ آرائی سے اتنا تو طے ہوگیا کہ کسی نہ کسی سطح پر مسلم عمائدین نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا ۔ لوک سبھا میں اس بل کو ملنے والی منظوری نے ہمارے قائدین کو جھنجھوڑا ہے ۔ اس لیے وہ بیدار ہوئے اور زمینی سطح پر اپنے قدم جماتے ہوئے سیاسی لیڈروں کو سمجھانے میں کامیاب ہوئے۔ اس موقع سے مولانا اسرارلحق قاسمی کا یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ انھوں نے عوامی دباؤ کی بنیاد پر جذباتی کوئی قدم نہیں اٹھایا۔اگر وہ جذبات کی رو میں بہہ کر استعفیٰ کا کہیں فیصلہ لے لیتے تو کم ازکم تین طلاق بل پر مسلمان ضرور کمزور ثابت ہوتے ، کیوں کہ ماضی میں کئی ایسے جذباتی فیصلے ہوئے ، جن سے مسلمانوں کو نقصان ہی اٹھانا پڑا ۔
یہ بات بھی اپنی جگہ قابل توجہ ہے کہ جمہوریت میں پنپنے والی سیاسی پارٹیوں کے مفادات مختلف ہوتے ہیں ۔ ایسے میں لیڈروں کے لیے عوامی ایشوز سے کہیں زیادہ پارٹی کے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ چنانچہ مسلم لیڈروں کو کم از کم پرسنل لاء پر یک جٹ ہونا پڑ ے گا۔یہاں پر بطور مثال ایم جے اکبر(راجیہ سبھا ایم پی اور وزیر مملکت برائے خارجہ امور) کی مثال پیش کرسکتے ہیں۔ انہوں نے لوک سبھا میں جس انداز سے مسلمانوں کے دیگر قوانین اور پرسنل لاء کو خلط ملط کرکے پیش کیا ، اس سے مسلم پرسنل لاء کا ڈھانچہ کمزور بن کر اُبھرتا ہے یعنی ان کی نگاہ میں پرسنل لاء اور دیگر قوانین کا فرق واضح نہیں ہے ۔ اس لیے یہ کہنا پڑتاہے کہ پارٹی کے مفادات سے اوپر اٹھ کر پرسنل لاء کو سمجھنے اور عوام کو سمجھانے کی ضرورت ہے ۔
چند سطری تجزیے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ راجیہ سبھا میںتین طلاق بل کو رکوا کر مسلم قائدین کسی حدتک اپنے امتحان میں کامیاب ہوئے۔ اس کامیابی میں جہاں مسلم پرسنل بورڈ کا اہم کردار ہے، وہیں اپوزیشن پارٹیوںسمیت مولانا اسرارالحق قاسمی کی سیاسی بصیرت بھی شامل ہے۔ ایسے موقع پر نہ خوش گمانی پالنے کی ضرورت ہے اور نہ فقط بے جاکریڈٹ لینے کی، اسی طرح نہ باہم دگر طعن وتشنیع میں ملوث ہونے کی کوئی وجہ۔ البتہ زمینی سطح پر جنہوں نے محنت کی ہے ،انھیں تحسین آمیز نظروں سے دیکھا جائے اورسیاسی بصیرتوں کو مزید جلا بخشنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں ۔