تہران//ایرانی میڈیا کے مطابق روس کے وزیر توانائی الیگزینڈر نوواک نے ایران کے ساتھ ایک معاہدے کا اعلان کی ہے جس میں "تیل کے بدلے خوراک" کی ڈیل بھی شامل ہے۔ اس معاہدے پر عمل درامد آئندہ ماہ ہو گا جس کے تحت ایران سے روزانہ ایک لاکھ بیرل خام تیل خریدا جائے گا۔نوواک کے مطابق اس ڈیل سے متعلق قانونی دستاویزات اپنے حتمی مراحل میں ہیں۔ادھر روسی ایجنسی انٹرفیکس نے الیگزینڈر نوواک کے حوالے سے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ تیل کے بدلے خوراک کے اس معاہدے کے تحت روزانہ ایک لاکھ ایرانی تیل کی فروخت عمل میں آئے گی ، یہ مقدار ایک سال کے اندر 50 لاکھ ٹن کے قریب بنتی ہے۔انٹرفیکس کے مطابق ایران میں روسی تجارت کے نمائندے آندرے لوگانسکی نے بتایا ہے کہ اس پروگرام کے تحت ماسکو ایک سال کے اندر 45 ارب ڈالر کا سامان تہران برآمد کرے گا۔یاد رہے کہ ایران میں کئی نمایاں اصلاح پسند شخصیات تہران کے ماسکو کے ساتھ اتحاد کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ ان کے نزدیک ایرانی نظام مکمل صورت میں روس کے تابع ہو گیا ہے۔ ان ہی شخصیات میں شامل اصلاح پسند رہ نما اور ایرانی وزارت داخلہ کے سابق سیاسی اور سکیورٹی معاون مصطفی تاج زادہ نے گزشتہ ماہ اپنے بیان میں کہا تھا کہ روس نے شام میں ایران کے کردار کو مٹا دیا ہے اور ایرانی فوجی روس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے ہمدان کا ایرانی عسکری اڈہ روسی فضائیہ کو پیش کرنے کے فیصلے کو بھی نکتہ چینی کا نشانہ بنایا۔ تاج زادہ نے باور کرایا کہ "نہ مشرق، نہ مغرب" کا نعرہ لگانے والے ایرانی نظام نے مغرب کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ کیا اور ہمدان کا فضائی اڈہ مشرق (روس) کو پیش کر دیا۔ اس کا مطلب ہوا کہ "یہ نعرہ ختم ہو چکا ہے اور ہم محض روس کے ایجنٹ بن کر رہ گئے ہیں"۔ایرانی حکومت کے سابق ترجامن اور اصلاح پسند رہ نما عبداللہ رمضان زادہ کے مطابق "ایران کو اندیشہ ہے کہ شام میں جب ایران کی موجودگی کی ضرورت پوری ہو جائے گی تو روس تہران کی پیٹھ میں چْھرا گھونپ دے گا"۔اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے "ایران ڈیموکریٹک فرنٹ" نے ایرانی عسکری اڈوں کا روس کو پیش کیا جانا "غداری" قرار دیا تھا۔ اپنے ایک بیان میں فرنٹ کا کہنا تھا کہ "روس کے ساتھ ایران کے عسکری معاہدے اور اسی طرح مشرق اور مغرب کے ساتھ تیل کے اور اقتصادی معاہدوں کے نتیجے میں ولایت فقیہ کے نظام کے جرائم، پھانسیوں اور ایرانی عوام اور خطے کی دیگر اقوام کے خلاف نظام کی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈھانپا گیا ہے"۔بیان میں باور کرایا گیا ہے کہ ایران میں روسی فوجی موجودگی محض فضائی میدان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ جب سے تہران بحیرہ قزوین میں ماسکو کے حق میں اپنے حقوق سے دست بردار ہوا ، اْس وقت سے ایران پر روسی غلبے کا دور ہے"۔