پرویز مانوس
رحمان جُو پاس کی مسجد سے مغرب کی نماز ادا کرکے گھر واپس آیا تو اپنے کمرے میں سے اپنا بٹن دار فون اُٹھا کر اپنے بیٹے ساجد کے پاس آکر بولا،
ساجد بیٹا آج دوپہر سے اس پر کوئی کال نہیں آرہی ہے، ذرا دیکھنا اس میں کیا خرابی آگئی ہے –
بابا….! آپ سے کتنی بار کہا کہ آپ کو نیا اینڈرائڈ فون لاکر دیتا ہوں لیکن آپ ہیں کہ اسے چھوڑنے کے لئے تیار ہی نہیں، یہ اب پرانا ہوگیا ہے، اسے پھینک دیجئے-
اچھا …! اگر پرانی چیزیں پھینکنی ہی ہیں تو اس سے پُرانی تیری اماں ہے تو کیا اُسے بھی ……….رحمان جُو نے جُملہ ادھورا چھوڑتے ہوئے کہا۔
میرا مطلب وہ نہیں تھا بابا، میں چاہتا ہوں میرے بابا کے پاس ایپل کا فون ہو۔
بیٹا انسان اپنے لہجے کی مٹھاس سے معمولی فون کو ایپل بناسکتا ہے، ویسے بھی فون ایپل کا ہو یا اورینج کا ہمیں کون سا کھانا ہے جو ذائقہ بدل جائے گا، بات ہی تو کرنی ہوتی ہے، دیکھو مجھے ماڈرن بنانے کی کوشش مت کرو ،مجھے اسی سادگی میں رہنے دو، اب دیکھو بھی اسے یا باتیں ہی کرتے رہو گے، ارے میرے چہرے کی طرف غور سے کیا دیکھ رہا ہے؟
بابا…! دیکھنے دیجئے، آپ کی باتیں میرے ذہن میں نقش ہوجاتی ہیں، کتنی قدر ہے آپ کو پرانے رشتوں اور پرانی چیزوں کی -واقعی آپ انسان نہیں فرشتہ ہیں، دیکھئے نا آپ کے چہرے سے نُور ٹپک رہا ہے –
بیٹا اگر انسان کے دل سے ہمدردی کا جذبہ ختم ہوجائے تو وہ زندہ لاش رہ جائے گا، رہا سوال پرانے رشتوں کا تو وہ کسی برگد کے درخت کی مانند ہوتے ہیں جو ہمیں جوڑے رکھتے ہیں، آپ کی طرح نہیں کہ نئی چیز کو اپنا لیا اور پرانی کو چھوڑ دیا -بس خدمتِ خلق کرتے رہو-
ارے بابا….! واقعی آپ سادہ ہیں، بیل کیسے نکلے گی…!
یہ تو سائلنٹ موڈ پر ہے – ساجد نے موبائل کا والیوم بڑھاتے ہوئے کہا-
سائلنٹ موڈ پر. ۔۔۔؟ رحمان جُو نے حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا، لیکن میں تو کبھی سائلنٹ رکھتا ہی نہیں ہوں –
ہو سکتا ہے، آپ نے صبح نماز کےوقت ہی سائلنٹ پر رکھا ہو، نہیں….! نماز کے اوقات میں سوئچ آف کردیتا ہوں، میں نے تو کیا نہیں، خُدا جانے کیا ہوا، میرا فون تو کوئی اُٹھاتا بھی نہیں میرے سوا یا ٹیپو کے سوا- رحمان جُو نے اپنی داڑھی کُھجاتے ہوئے کہا-
ارے بابا…! اس میں غفار چچا کی پندرہ کالیں آئی ہیں، ساجد نے انگلی سے بٹن کو مُسلسل دباتے ہوئے کہا تو رحمان جُو نے حیرت سے کہا” کیا پندرہ کالیں؟
ہاں لیکن آپ اتنے حیران کیوں ہوگئے، ساجد نے باپ کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا-
ارے بیٹا آج اُسے مُغلی کے ٹیسٹ کرانے شہر آنا تھا، جب اُس نے بتایا تو میں نے اسے سیدھا یہیں آنے کو کہا تھا، میں تو ظہر کی نماز کے بعد کھانا کھاکر سو جاتا ہوں ذرا رضیہ سے پوچھو دن کو کوئی آیا تو نہیں تھا، رحمان نے ساجد سے کہا-
ابھی دیکھتا ہوں بابا، رضیہ او رضیہ….! ساجد نے بیوی کو آواز دی تو وہ رسوئی سے نکل کر آئی” جی کیا بات ہے؟
رضیہ جب دوپہر کو بابا سوگئے تھے، کوئی آیا تو نہیں تھا؟
یہ سُن کر رضیہ فکر مند ہوگئی اور بولی ” میں تو دن بھر رسوئی میں ہی ہوتی ہوں یہاں تو کال بیل کی آواز بھی مشکل سے پہنچتی ہے، مجھے معلوم نہیں ”
اچھا ٹھیک ہے میں ٹیپو سے پوچھتا ہوں،
بیٹا ٹیپو…! ذرا ادھر تو آؤ،
جی پپا…..! بیٹا بعد دوپہر کوئی گیٹ پر آیا تو نہیں تھا؟
“پپا یہاں تو دن بھر بھکاریوں کی لائن لگی رہتی ہے، آج ایک بھکاری اور بھکارن اکٹھے آئے تھے اور بار بار بیل کر رہے تھے،
بھکاری اور بھکارن؟ رحمان جُو کے ماتھے پر بل پڑ گئے، کتنے بجے؟ رحمان جُو نے پوچھا۔
آں ں ں ں… یہی کوئی چار بجے ٹیپو نے کچھ سوچتے ہوئے کہا-
پھر تم نے گیٹ کیوں نہیں کھولا؟ رحمان نے سخت لہجے میں کہا تو ٹیپو نے جواب دیا ” ممّا نے کہا یہ بھکاری لوگ بہت تنگ کرتے ہیں‘‘۔
ذرا مجھے اُس وقت کی سی سی فوٹیج دکھاؤ، رحمان جُو نے ساجد سے کہا تو ساجد نے اُس کو فوٹیج دکھاتے ہوئے کہا، یہ دیکھئے، آخر بات کیا ہے؟
ارے…. ٹیپو یہ تُو نے کیا کردیا؟ یہ لوگ بھکاری اور بھکارن نہیں بلکہ غفارا اور مُغلی ہیں، یہ تُو نے کیا کردیا، رحمان جُو سر پکڑ کر بیٹھ گیا،
ہاں دادو اُسی وقت آپ کے فون پر کافی ساری کالیں بھی آئی تھیں، آپ سو رہے تھے ،ممّا نے نمبر دیکھ کر کہا فون سائلنٹ کردو-
میں نے تو اس لئے کہا تھا تاکہ آپ کے آرام میں خلل نہ پڑے، رضیہ نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا-
ارے یہ تم دونوں ماں بیٹیوں نے کیا کر دیا، وہ دونوں یہاں سے ہوکر گئے ہیں کہہ کر رحمان جُو نے غفارا کو کال کی تو اُس نے بتایا کہ ہمیں تمہارے گھر کا ایڈرس معلوم نہ ہو سکا اور ہم سرائے میں آگئے-
کال منقطع کرکے رحمان جُو نے ساجد سے کہا، چلو گاڑی نکالو، جلدی کرو، ساجد نے پورچ سے فوراً گاڑی نکالی اور رحمان جُو گاڑی میں سوار ہوکر غفارا کو ڈھندنے سرائے کی طرف چل پڑا-
رحمان جُو اور غفارا ایک ہی گاؤں کے باشندے تھے اور دونوں کے مکان بھی ساتھ ساتھ تھے۔
یوں سمجھ لو کہ یہ دو نہیں ایک ہی گھر تھا،ان کے درمیان نہ دیوار تھی نہ دروازہ، بلکہ ایک کھلا صحن تھا جو دونوں گھروں کو جوڑتا تھا۔ مرغیوں کے چوزے، بطخیں، اور بچے صحن میں بے خوف کھیلتے اور گھومتے رہتے۔ گھر کی عورتوں کے درمیان ایسی اپنائیت تھی کہ کوئی پردہ یا تکلف نہیں تھا۔
رحمان کی بیوی راحتی اور غفارا کی بیوی مُغلی کا رشتہ دو بہنوں جیسا تھا۔ جب بھی کسی کے گھر مہمان آتے، وہ دریچے سے ایک دوسرے کو
آواز دے دیتیں،
“بھابی ، کچھ سالن وغیرہ ہوگا؟ اچانک مہمان آ گئے ہیں۔”
مُغلی ایک برتن میں سالن بھر کر دیتی اور ساتھ میں ہنستے ہوئے کہتی-
“یہ چار انڈے بھی رکھ لو، صبح ناشتے میں کام آئیں گے۔”
لیکن یہ چار انڈے، راحتی حیرت سے انڈوں کی طرف دیکھ کر کہتی تو مُغلی کہتی، حیران ہونے کی ضرورت نہیں یہ تمہاری ہی مرغی کے انڈے ہیں جو اُس نے ہمارے ڈربے میں دئیے ہیں، پھر دونوں قہقہ لگاتیں –
دونوں خاندانوں کی یہ محبت اور بے تکلفی گاؤں میں مشہور تھی۔ لوگ ان کے رشتے کی مثال دیتے، لیکن بعض اوقات چٹکی لیتے ہوئے یہ بھی کہتے،،
“کہیں یہ رحمان کے بیٹے کل کو غفارا کی وراثت میں حصہ نہ مانگ لیں۔”
وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا رہا۔ رحمان کے بیٹے پڑھ لکھ کر بڑے افسر بن گئے اور انہوں نے شہر کی ایک پوش کالونی میں مکان بنا لیا۔ رحمان اور راحتی بھی بچوں کے ساتھ شہر چلے گئے۔ رفتہ رفتہ اُن میں شہری خصلت سرایت کرنے لگی –
گاؤں کی سادگی اور محبت اب پیچھے رہ گئی۔ دوسری طرف غفارا اور مغلی گاؤں میں ہی رہے اور اپنی زمین میں کھیتی باڑی کرتے رہے۔لیکن رحمان کے جانے کے بعد صحن کا وہ چہل پہل بھرا ماحول سنسان ہو گیا۔
شہر کی زندگی نے رحمان اور راحتی میں کچھ تبدیلیاں پیدا کر دیں۔ پہلے وہ گاؤں کی یادوں کو تازہ رکھنے کے لئے غفارا اور مغلی کو اکثر فون کرتے لیکن آہستہ آہستہ یہ رابطے کم ہوتے گئے۔ پہلے ہفتے میں تین چار بار، پھر ایک بار اور پھر صرف مہینے میں ایک بار۔
رحمان اور راحتی بار بار غفارا کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتے مگر غفارا ہر بار مصروفیت کا بہانہ بنا کر ٹال دیتا۔ گاؤں اور شہر کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے اور ان کے دلوں میں ایک نادیدہ دیوار کھڑی ہونے لگی-
ایک دن مغلی کی طبیعت شدید خراب ہو گئی۔غفارا مغلی کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا، تشخیص کے بعد ڈاکٹر نے اُسے کچھ مہنگے ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دیا جوکہ شہر میں ہی ہو سکتے تھے ۔
غفارا نے بیٹیوں سے مشورہ کیا تو یہ طے پایا کہ آپ ماں کو شہر علاج کے لئے لے جائیں تب تک ہم گھرمکان کا خیال رکھیں گے۔ پھر غفارا نے سوچا کہ رحمان روز ہی شہر آنے کو کہتا رہتا تھا ،اب تو موقعہ ملا ہے ایک تو اُس سے مل بھی لیں گے اور شہر میں مغلی کا علاج بھی بہتر طریقے سے ہوگا، اس لیے اس نے رحمان کو فون کیا-
“ہیلو….! السلام علیکم…!
وعلیکم سلام، غفارا میرے یار کیسا ہے تُو؟
کافی دنوں بعد فون کیا، گھر میں سب کیسے ہیں
خیریت ہی تو نہیں ہے میرے یار مومغلی بیمار ہے
راحتی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ میں اسے شہر لا رہا ہوں ۔”
رحمان نے فوراً پوچھا، بھابی کو کیا ہوا ہے؟
بس ذرا طبیت بگڑ گئی تھی ڈاکٹر نے کچھ ضروری ٹیسٹ کرانے کے لئے کہا ہے جو یہاں نہیں ہوتے،
ٹھیک ہے آپ نے اچھا فیصلہ کیا ہے کوئی بھی فکر کرنے کی ضرور نہیں ہے، میں ساجد سے کہوں گا وہ خود ساتھ جائے گا لیکن بھائی، سیدھا ہمارے گھر آنا۔ ہمیں بے حد خوشی ہوگی۔”
ضرور ضرور، اور ہمارا ہے ہی کون شہر میں آپ کے پاس ہی آئیں گے، فون پر ایڈرس بھیج دینا، کہہ کر اُس نے خدا حافظ کہہ کر کال منقطع کردی-
غفارا اور مُغلی نے دیسی گھی اور مکئی کی کچھ روٹیاں ایک کپڑے میں باندھیں اور ایک بیگ میں شُدھ شہد کی دو عدد بوتلیں لے کر گاؤں کے بس اڑے کی طرف چل پڑے، بس کے طویل سفر کے بعد غفارا لوگوں سے پتہ ہوچھتے پوچھتے رحمان کے گھر تک پہنچ گئے ۔ وہ تھکن سے چُور تھے، لیکن دل میں یہ اطمینان تھا کہ وہ اپنے پرانے دوست کے پاس جا رہے ہیں، مُغلی بھی خوش تھی کہ کافی عرصہ کے بعد وہ راحتی سے ملے گی-
رحمان کے گھر کے گیٹ پر پہنچ کر انہوں نے بیل بجائی مگر اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ کئی بار بیل بجانے کے بعد بھی خاموشی رہی۔ غفارا نے اپنی وایسکوٹ کی جیب سے بٹن دار فون نکال کر رحمان کو کئی کالیں کیں لیکن کوئی جواب نہ ملا۔
مُغلی نے کہا “شاید ہم غلط پتے پر آ گئے ہیں۔”
کسی سے پوچھ لیتے ہیں،
غفارا نے بھی یہی سوچا اور کہا ہاں تم ٹھیک کہتی ہو ،پھر انہوں نے ایک راہ چلتے لڑکے کو غفارا کا بھیجا ہوا ایڈرس دکھایا تواُس نے دیوار پر لگی ہوئی پلیٹ دیکھ کر کہا، آپ صحیح جگہ پہنچےہیں –
غفارا نے مُغلی سےکہا ” لگتا ہے گھر پر کوئی نہیں ہے ،اسی لئے گیٹ نہیں کھول رہے ہیں،چلو، رات کسی سرائے میں گزار لیتے ہیں، صبح ٹیسٹ کراکے واپس گاؤں چلیں جائیں گے۔”
واپسی پر مُغلی کی نظر گیٹ پر نصب چھوٹے سے کیمرے پر پڑی تو اس نے حیرانی سے پوچھا-
“یہ آنکھ جیسی کیا چیز ہے؟”
غفارا نے لاعلمی سے کہا “شاید یہ نیا قسم کا تالا ہے۔”
لیکن اُن سادہ لوحوں کو کیا معلوم تھا یہ کیمرہ ان کی ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے، مگر اندر موجود افراد ان کی حرکات و سکنات کو اسی تیسری آنکھ سے دیکھ رہے ہیں –
���
آزاد بستی ویسٹ نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622937142