راجہ یوسف
عامرجب بھی کبھی شام دیر گئے اس راستے سے گزرتا تھا تو اسے لگتا تھا کہ کوئی اور بھی اس کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔یہ ایک انجانا سا خوف تھا جو اس کے دل میں بیٹھ چکا تھا۔ سڑک آج بھی سنسان پڑی تھی۔ بجلی کے کھمبوں سے آنے والی روشنی رات کی تاریکی کو دورکرنے میں ناکام ہو رہی تھی۔ عامر تیز تیز قدم اٹھا رہا تھا ۔ وہ بار بارکبھی دائیں تو کبھی بائیں دیکھتاتھا۔ اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی ڈرائونی قوت اس کا پیچھا کررہی ہے۔۔ اچانک اس کے دائیں طرف کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی تو وہ چونک گیا۔ قدم جیسے منجمد ہوگئے۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور جسم پسینے سے شرابور ہوگیا۔ تھوڑا سا سنبھلنے کے بعد اپنی دائیں طرف دیکھا تو دھنگ رہ گیا ۔ سامنے ہی ایک سوٹ کیس پڑا تھا ۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہیں رکا رہا۔ کچھ دیر بعد جب اس کے حواس بحال ہوگئے تو اس نے گہری نظروں سے سوٹ کیس کی طرف دیکھا۔ تھوڑا سا انتظارکیا۔دور تک نظریں دوڑائیں مگر سڑک پہلے ہی کی طرح سنسان تھی۔ اس نے ہمت کر کے سوٹ کیس اٹھایا جو اسے کچھ زیادہ ہی بھاری لگا تھا۔ایک بار پھر اپنے آگے پیچھے دیکھا اور سوٹ کیس لے کر سیدھا آگے نکل گیا۔
(دور سے دو آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔ )
میز پر سوٹ کیس رکھتے ہی وہ دھب سے آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کے ذہن میں ہزاروں وسوسے پلنے لگے ۔ سوچوں کی گٹھری کا گلا باندھنے کے بعد وہ سوٹ کیس کی جانب متوجہ ہو گیا۔ کانپتے ہاتھوں سے اُسے کھولا۔ تو ششدر ہوکر رہ گیا آنکھیں پتھرا سی گئیں۔ سوٹ کیس نوٹوں سے پُر تھا ۔ اس کی تھر تھراتی انگلیاں نوٹوں کے بنڈل چھونے لگیں ۔
” اتنے سارے روپئے۔” اس کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ کافی دیر تک نوٹوں کو اُٹھاتے رکھتے وہ جانے کیا کیا سوچتا جا رہا تھا۔ تب اچانک اس کی نظر جیسے ایک جگہ پر ساکت ہوکر رہ گئی۔ نوٹوں کے اوپر تہہ کیا ہوا کاغذ کا ایک پرزہ تھا۔ اس نے کانپتی انگلیوں سے کاغذ کھولا ۔مختصر تحریر تھی ۔ جو دراصل ایک ہدایت نامہ تھا۔
” یہ دس لاکھ روپے ہیں ۔ یہ آپ کے پاس امانت رہیں گے ۔ ہم جب چاہیں آپ سے واپس لیں گے۔”
نیچے کسی کے دستخط نہیں تھے۔ اس نے جلدی سے سوٹ کیس بند کر دیا۔ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑکر بیٹھ گیا ۔ پھرکسی سوچ میں گم ہو گیا۔ وہی انجانا سا ڈر اس کے سارے وجود میں سرائیت کر گیا۔ اس کے ماتھے پر ٹھنڈے ٹھنڈے پسینے پھوٹ رہے تھے۔
ـ ’’ آخریہ اتنے سارے روپے کس کے ہونگے۔ میرے پاس امانت کیوں چھوڑ دیئے۔ اگر دینے ہی تھے تو سامنے کیوں نہیں آیا۔ کیا یہ میرا کوئی جان پہچان والاہے جس نے مجھ پر اتنا بھروسہ کیا۔ وہ پریشان آنکھوں سے روپیوں سے بھرے سوٹ کیس کو دیکھتا ہی جا رہا تھا ۔ پھر بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا ۔ سوٹ کیس کو الماری میں بند کر دیا اور خود سونے کے لئے بیڈ پر چلا گیا۔ لیکن خیالوں کا ایک سیلاب تھا جو اسے سونے نہیں دے رہا تھا۔ پھر جانے کب وہ نیند کی وادی میں چلا گیا۔
کال بیل کی ڈراونی چیخ اس کی سماعت سے ٹکرائی تو وہ اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ کافی دیر تک وہ سمجھ بھی نہیں پا رہا تھا کہ وہ کہاں ہے اور اسے کرنا کیا ہے۔ لیکن دوسری بار گھنٹی بجنے سے اسے یاد آ یا کہ وہ دیر تک سویا ہے ۔اس نے جلدی سے دروازہ کھولا سامنے اس کا دوست ارشد مسکرا رہا تھا۔ دونوں واپس کمرے میں آگئے۔
’’ اتنی دیر تک سوتے رہے۔ کیا کرتے رہے رات بھر ۔‘‘ ارشد نے مذاق میں کہہ دیا اور زور سے قہقہ مارا۔ لیکن عامر اسے کوئی جواب نہیں دے پایا ۔ وہ ابھی تک رات والی گتھی میں ہی الجھا ہواتھا ۔ اس کی پریشانیاں اس کی آنکھوں سے صاف مترشح تھیں۔ ارشد نے اس کا مایوس اور اداس چہرہ دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا ۔
’’ عامر کیا بات ہے، کچھ پریشان سے لگ رہے ہو؟”
’’ کچھ نہیں یار، سر میں درد ہے ” وہ ارشد سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔
” عامر تم مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو ” ارشد نے اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی
” نہیں یار۔ تم سے کیا چھپانا۔ بس یونہی.۔۔ ‘‘ عامرنے بات ٹالنے کی کوشش کی لیکن ارشد اپنی بات پر بضد رہا۔ وہ اسے کھوجتا رہا ۔ کھروچتا رہا اور آخر عامر ہار گیا اور مجبور ہوکر اس نے ارشد کو سب کچھ بتا دیا۔
” بڑے خوش قسمت ہو یار۔ تم۔۔۔ تمہیں ایک دم اتنی دولت ملے گی، میں نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔ اب تو تم شہر کے بڑے آدمی بن گئے ہویار۔ کہیں ہمیں بھول تو نہیں جائو گے اب۔ ‘‘
” کیسی باتیں کر رہے ہو ارشد ۔ تہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ رو پے کسی اور کے ہیں اور میرے پاس امانت ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ مجھ سے بے وجہ اس کی خیانت ہو جائے ”
”بڑا بے وقوف ہے تو۔ آج کے لوگ دوسروں کی گردن پر ہاتھ رکھ کر جی لیتے ہیں، جیت لیتے ہیں، تمہیں گھر بیٹھے خدانے دیا اور تم اسے ٹھکرا رہے ہو‘‘ ارشد نے اسے لاکھ سمجھایا لیکن عامر اپنی بات پر اُڑا رہا کہ یہ بریف کیس میرے پاس کسی کی امانت ہے اور میں اسے امانت کے طور ہی اپنے پاس رکھوں گا۔ اس میں کوئی خیانت نہیں کروں گا۔ جب ارشد کو لگا کہ یہ بیوقوف آدمی اس لائق ہی نہیں کہ اسے اور سمجھایا جائے تو وہ غصے سے نکل آیا۔
(دور سے دو آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔ )
عامر آج آفس بھی نہیں گیا۔ وہ دن بھر اسی ادھیڑبن میں الجھتا رہا کہ وہ کیا کرے ۔ کبھی کبھی اسے ارشد کی بات سچ بھی لگ رہی تھی۔ لیکن ساتھ ہی اسے وہ خط یاد آرہا تھاجو اس کے لئے کسی ہدایت نامے سے کم نہ تھا۔پھر بھی اس نے ذہن بنالیا کہ وہ اس میں سے ایک روپیہ بھی اپنے او پر خرچ نہیں کرے گا۔
شام آہستہ آستہ رینگ رہی تھی اور رات ڈیرہ ڈال رہی تھا۔۔ عامرآج بھی کرسی پر بیٹھا سوچ کی بستی میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ آتش دان میں لکڑیاں چٹخ رہی تھیں۔ آگ سے اٹھی چنگاریاں ہوا میں لہرا لہرا کے دم توڑ رہی تھیں۔ عامرنے روپیوں سے بھرا بریف کیس دو بار الماری سے نکالا اور واپس رکھ دیا تھا۔ لگ تو رہا تھا کہ وہ اپنے ذہن کے تانے بانے اور دل کی دھڑکنیں درست کرنے کی کوشش میں لگا ہے لیکن بیچ بیچ میں وہ الماری کوبھی تکتا جا رہا تھا ۔ جانے اس کی سوچ کا پرندہ کہاں سے کس طرف محوِ پرواز تھا کہ اچانک کال بیل کی چیختی آواز نے اسے چونکا دیا۔ ہزار ہا وسوسے اور خوف اس کے ناتواں جسم کو جھکڑنے کے لئے آگے بڑھ رہے تھے ۔ اس نے خود کو سنبھالا اورایک دم کھڑا ہوگیا ۔ وہ کچھ عجیب نظروں سے دروازے کو دیکھنے لگا۔ مضبوط قدموں کے ساتھ وہ دروازے کی طرف بڑھا۔ کال بیل دوسری بار بجنے سے پہلے ہی اس نے دھڑ ام سے دروازہ کھول دیا ۔ یہ کیا ۔۔۔ دروازہ کھولتے ہی وہ مشکوک نظروں سے آنے والے کو دیکھنے لگا۔
”کیا دیکھ رہے ہو عامر” آنے والے نے کہا اور اندر آگیا
” ارشد۔۔۔ تم۔۔ اتنی رات گئے۔۔ کیا بات ہے؟”
”کیا ابھی تک بیٹھے ہو۔ سوئے نہیں‘‘ ارشد نے عامر کا سوال نظرانداز کرتے ہوئے کہا اور آگے بڑھتے ہوئے آتش داں کے قریب کرسی پر بیٹھ گیا۔ عامر کھڑا اسے گھور رہا تھا ۔
’’ بیٹھ جائو عامر ۔ باہر ٹھنڈ بہت ہے ۔ بس ہاتھ گرم کرلوں گا تو چلا جائوں گا۔۔۔ ویسے۔ کیا سوچا ہے تم نے اب؟ ”
”کس بارے میں؟ ”
’’ کس بارے میں ؟؟؟ ارے رپیوں کے بارے میں ۔۔۔ روپیوں کے ۔۔۔ ‘‘ ارشد ماتھا پیٹتے ہوئے چلانے لگا
” تم تو جانتے ہی ہو کہ یہ میرے پاس امانت ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ میں انہیں اپنی ملکیت سمجھوں۔”
” او کے ۔۔۔ او کے ۔۔۔ تو پھر وہ بریف کیس مجھے سونپ دو‘‘
” کیا کہتے ہو؟ کیا میں کسی اور کی امانت تمہیں سونپ دوں۔
” ہاں! کیونکہ میں اس کی قدر کرنا جانتا ہوں۔”
”لیکن یہ کسی بھی قیمت پر نہیں ہو سکتا‘‘
”میں تمہیں اس کی قیمت بھی دینے آیا ہوں‘‘ ارشد ایکدم کھڑا ہوگیا ۔ چمکتا ہوا خنجر اس کے ہاتھ میں جگمگانے لگا۔
” ارشد۔ کیا دس لاکھ روپے کی چمک نے تجھے پاگل بنا دیا ہے۔
”اتنے روپے دیکھ کر کس کا دل قابو میں رہے گا۔ یا شاید وہ تمہاری طرح بے وقوف ہی ہو گا۔ خیر تم جو ہو ، سو ہو۔ لیکن میرے دل میں ہزاروں ارمان انگڑائیاں لے رہے ہیں۔ آنکھوں میں ہزاروں خواب جاگ رہے ہیں۔ مجھ سے اب اور برداشت نہیں ہوتا ”
”لیکن تیرے ان خوابوں کی تعبیر نہیں نکلے گی چاہے میری جان ہی کیوں نہ نکل جائے۔ یہ میرے پاس امانت ہے اور اس کی حفاظت میں اپنے خون سے کرونگا‘‘ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوگئے۔
ہوا کا سینہ چیرتا ہوا خنجر اس کے جسم میں پیوست ہو گیا اورفضا میں ایک چیخ بلند ہوئی۔ عامر لڑکھڑایا، ارشد کے قہقہے میں اس کی چیخ گم ہوگئی۔ ارشد نے اس کی جیب سے الماری کی چابیاں نکالیں۔ عامر نیم وا آنکھوں سے ارشد کو بریف کیس کے ساتھ باہر جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔ اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں تھیں کہ نیم مردہ حالت میں بھی اس نے ارشد کی خوفناک چیخ سنی۔
(دور سے دو آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔ )
صبح صادق ہونے سے پہلے ہی عامر اسپتال سے گھر لوٹ آیا تھا۔اس کے پیٹ میں معمول زخم لگ چکا تھا۔آتش دان کے قریب آرام دہ کرسی پر آنکھیں بند کئے وہ سوچوں میں گم تھا۔ کل سے ابھی تک کے سارے واقعات کسی فلم کی طرح اس کے ذہن کے سکرین پر رواں دواں تھے۔ اچانک اسے کچھ یاد آیا ۔ جبیں ٹٹولیں۔ چابیاں موجود تھیں۔ وہ آہستہ سے اٹھا اور الماری کا دروازہ کھولا ۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بریف کیس جوں کا توں الماری میں رکھا ہوا تھا۔
(دور سے دو آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔)
���
اسلا م آباد،اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419734234
تیسری آنکھ
