شہر سرینگر میں ٹریفک کا بحران دن بن دن عام لوگوں کے لئے ایک بے بیاں مصیبت کی صورت اختیار کر رہا ہے،اگر چہ محکمہ میں نئے انسپکٹر جنرل کی تعیناتی کے بعد ایک اُمید پیدا ہو چکی ہے تاہم سرکاری دفاتر کی جلد ہی سرینگر منتقلی کے بعد یہ صورتحال مزید بگڑ جانے کا اندیشہ برقرار ہے۔ آج شہر کی جس سڑک سے بھی گزرنے کا موقع ملے، ہر جانب ایک دوسرے پرچڑھ دوڑنے کی جیسے دوڑ لگی رہتی ہے اور اس ہماہمی میں گاڑیاںچلانے والوں کی ایک بڑی تعدادٹریفک کےمسلمہ قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑا کر راہگیروں کےلئے شدید خطرات پیدا کرتے جارہے ہیں۔ اگر چہ محکمہ ٹریفک کے وردیاں ڈانئے ہوئے اہلکار جابجا نظر آتے ہیں ، لیکن اسکے باوجود گاڑیاں ڈرائیو کرنے والے لوگوں کی ایک خاصی تعداد اپنے اوتاولے پن اور جلد بازی سے قواعد و ضوابط کا تمسخر اُڑانے میں کوئی پس و پیش نہیں کرتی۔ خاص کر ٹو وہیلر سواروں کی ایک بڑی تعدا د ان خلاف ورزیوں میں پیش پیش نظر آتی ہے، لیکن انہیں روکنے ٹوکنے کے واقعات بہت ہی کم دکھنے کو ملتے ہیں۔ اور تو اور ایسی سڑکوں پر بھی ،جہاں وی آئی پی مومنٹ زیادہ رہتی ہے، اُلٹی سمت سے ٹو وہیلروں کا سفر ایک عام نظارہ بن گیا ہے، حتاکہ چوراہوں پر ٹریفک سگنل کا ٹ کے نکل جانے والے منچلوں کی تعداد بھی کسی طور کم نہیں ہے۔ اس نوعیت کے واقعات کی وجہ سے راہگیروں کے سروں کے اوپر خطرے کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سڑکوں پر دوڑنے والی گاڑیوں اور ٹووہیلروں کی تعدا دکو کنٹرول کرنے کےلئےضروری تناسب سے محکمہ ٹریفک کے پاس نفری موجود نہیں لیکن اس کمزوری کے باوجود جس طرح صورتحال کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے، وہ بہت کم نظر آتا ہے۔ کیونکہ محکمہ تیز رفتار اور غلط ڈرائیوینگ پر تادیب کو، ایسا لگتا ہے ہے، ثانوی حیثیت دے رہا ہے جبکہ اولیت غلط پارک کی گئی گاڑیوں کو اُٹھا کر لے جانےاو ر کاغذات کی جانچ کے دوران پائی جانے والی خامیوں پر جرمانے عائید کرنے کو دی جارہی ہے۔ٹریفک خلاف ورزیوں کے یہ ہولناک مناظر خاص کر صبح اور شام کے وقت دیکھنے کو ملتے ہیں جب لوگوں کو گھروں سے کام پر اور واپس لوٹنے کی جلدی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ متعلقہ محکمہ کی جانب سے ٹریفک قوانین کے حوالے سے اکثر بیداری پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں لیکن جلد بازی کی دوڑ میں قانون شکن لوگ قواعد کو پس پشت ڈالنے کے عادی بنتے جارہے ہیں۔ سماجی اعتبار سے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور اگر اسکی جانب فوری طور پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہ دی جائے تو یقینا ًآنے والے ایام زیادہ کٹھن ہوسکتے ہیں۔ شہر سرینگر میں خاص طور سےجہانگیر چوک رام باغ فلائی اُور کی تعمیر کا کام لمبا کھینچ جانے اور بار بار اسکی تکمیل کےلئے ڈیڈ لائن بدلنےکی وجہ سے سول لائنز کی ہر چھوٹی بڑی سڑک پر ٹریفک جام کی پریشانی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے اور اس حالت میں بیشتر لوگ ایک دوسرے پہ سبقت لینے کےلئے کوشاں رہتے ہیں۔ اگر چہ اس حوالے سے ٹریفک محکمہ کی طرف سے وقت وقت پر روٹ پلان جاری کئے جاتے ہیں،لیکن گاڑیوں کی بڑی تعداد کی وجہ سےزمین پر انکا کوئی اثر نہیں دیکھنے کو ملتا۔ اکثر علاقوں میںصبح اورشام کے وقت دفترجانے والے لوگوں اور سکولی بچو ں کو ان ٹریفک جاموں کی وجہ سے اپنی منزل تک پہنچنے میںبعض اوقات گھنٹوں کی تاخیر ہوجاتی ہےاور ساتھ ہی ساتھ جان کا بھی خطرہ لگا رہتا ہے۔’مرض بڑھتا گیا ،جوں جوں دوا کی‘ کے مصداق جتنا زیادہ حکومتی ادارے گرمائی دارالحکومتی شہر میں ٹریفک نظام کو چست و درست کرنے کی کوششیں کررہے ہیں،اتنا ہی نظام بگڑ تا جارہا ہے اور بدیہی طور پر اس مرض کےلئے کوئی دوائی کام کرتی نظر نہیں آرہی ہے ۔انتظامیہ آئے روز نت نئے فارمولے لیکر آتی ہے اور ہر دن کوئی نیا نسخہ پیش کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اب اس روح فرسا تکلیف سے نجات مل کرہی رہے گی لیکن اگلے ہی دن اس نسخہ کی ہوا نکل جاتی ہے۔ محکمہ اگر چہ صورتحال کی سنگینی سے غافل نہیں ہے اور محدود وسائل کے باوجود اپنی طرف سے ٹریفک نظام کو درست کرنے کی حتی المقدور کوشش کررہا ہے لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ قواعد کی دھجیاں اُڑانے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ٹریفک محکمہ کو انہیں قابو کرنے کےلئے کوئی خاص حکمت عملی تربیت دینا پڑے گی، جس کے مثبت نتائج برآمد ہوسکیں۔ وگرنہ ٹریفک حادثات کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہے گا اور راہگیروں کے سروں پر تلوار لٹکتی رہے گی۔گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران ریاست بھر میں جو خوفناک ٹریفک حادثات رونما ہوتے آئے ہیں اُن کی تفصیلات سنتے ہی ایک عام انسان اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ اگر تیز رفتار ڈرائیونگ کا یہی حال رہا تو راہگیروں کےلئے سڑکوں پر چلنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے گی اس طرح انکے بنیادی حقوق معطل ہو کر رہ جائینگے۔ اگرچہ حالیہ ایام میں نئے انسپکٹر جنرل کی قیادت میں محکمہ سڑکوں او ر فٹ پاتھوں پر ناجائز ڈھیرے جمانے والوں کےخلاف محترک ہوا ہے لیکن تیز رفتاری کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کوئی ہمہ گیر مہم شروع نہیں ہوئی ہے، جو وقت کی اہم ترین ترین ضرورت ہے اور عوام الناس کی طرف سے یہ امید باندھی جارہی ہے کہ محکمہ ٹریفک کے نئے سربراہ اس جانب بھرپور اور فوری توجہ مبذول کریں گے۔