Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

تہی دامن۔۔۔۔!!

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: January 3, 2021 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
21 Min Read
SHARE
”سائنس دانوں نے ہر چیز ایجاد کی ہے صرف ایک چیز نہیں!!!!!“ فاطمہ جھلائی ہوئی اسٹو صاف کررہی تھی جس پر شِیر خرما ابل کر پھیلا ہوا اس کی جھنجھلاہٹ پر تبسم بکھیر رہا تھا۔ 
عبداللہ بیوی کی جھلاہٹ سے محظوظ ہوتا ہواکچن میں داخل ہوا اور اس کی بکھری ہوئی زلفوں کو پیار سے نہارتا ہوا استفسار کیا۔”وہ کیا چیز ہے۔۔۔۔؟ “
  ” دودھ اس وقت ہی کیوں ابلتا ہے ؟جب بندہ ایک سکنڈ کو اپنی نگاہ اوجھل کرلے یا کچھ کام سے رخ پھیر لے۔۔۔۔؟ “ یہ سن کرعبداللہ بے اختیار مسکرایا۔
  ”آپ ہنس رہے ہیں۔۔۔۔؟ “ وہ غصے سے سرخ ہوتی ہوئی شوہر کو دیکھنے لگی۔عبداللہ پیار سے اس کی ناک کو چھوتا ہوا گویا ہوا۔’’ تمام سائنٹسٹ کورونا کی ریسرچ میں مصروف ہیں۔۔۔۔جب فارغ ہوجائیں گے تو تمہاری اس پروبلم پر ضرور غور فرمائیں گے۔“
  ” ہممم۔۔۔۔ایک اور پروبلم بھی ہے۔۔۔!“
 ” ارشاد۔۔۔۔۔۔ !! “
  ” بریانی کی پیازہمیشہ آخری پل میں ہی کیوں جلتی ہے؟ جبکہ ہم خواتین بیس منٹ اس پر نظر یں جمائے ہاتھ چلاتی رہتی ہیں۔ذرا دھیان ہٹا نہیں کہ پیاز سیاہ۔۔۔۔!!!!! “یہ سن کرعبداللہ زور سے ہنستا ہوا گویا ہوا۔
  ”محترمہ ! یہ بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔۔!!“
  ”بس یہی تو چاہتی تھی کہ میرے سرتاج کا رخِ روشن خوبصورت مسکراہٹ سے کِھل اٹھے۔صبح سے غور کر رہی ہوں بہت خاموش اور پریشان دکھائی دے رہے ہیں؟ اس کی وجہ جان سکتی ہوں ؟ “
” کچھ خاص نہیں۔۔۔۔ویسے آج کھانے میں اس قدر اہتمام کیوں ہورہاہے۔۔۔۔۔؟ “
” کیونکہ آپ کے چھوٹے بھائی گھر تشریف لائے ہیں “
 ”رب العالمین  اس گھر کی خوشیوں کو سلامت رکھے۔۔۔۔!!!“۔عبداللہ دعا دیتا ہوا اپنے گلے کی خراش سے پریشان کچن سے نکل گیا۔
       فاطمہ نے ساس کے حکم اور خواہش کے مطابق کھانے میں چکن سوپ ، گوشت کا قورمہ ، کباب ،لچھاپراٹھا اور کاجو رئیس بنایا تھا۔آخر میں شِیر خرما رہ گیا تھا۔آج گھر کا سب سے چھوٹا بیٹا کلیم بنگلور سے آیا تھا۔ جب لاک ڈوان شروع ہوا تو وہ بے چارہ بنگلور میں پھنس گیا تھا۔کلیم کی آمد پر گھر میں ایک بہار سی چھائی ہوئی تھی لیکن عبداللہ کافی پریشان تھا۔صبح سے وہ اندر ہی اندر ڈپریشن کا شکار تھا۔طبیعت کچھ ناساز تھی۔ ہلکا سا بخار محسوس ہورہا تھا۔ جسم ٹوٹ رہا تھا اور گاہے گاہے کھانسی بھی آرہی تھی۔وہ اپنی خواب گاہ میں چلا آیا اورآرام کرنے کے ارادے سے بیڈ پر لیٹ گیا۔ فاطمہ پریشانی کے عالم میں اس کے پیچھے چلی آئی۔
   ”کیا ہوا۔۔۔؟سب ٹھیک تو ہے۔۔۔۔۔؟ چھوٹو گھر آیاہے اورآپ کمر ے میں بند ہیں؟“
   ”فاطمہ ! طبیعت بہت بوجھل ہے۔۔۔کچھ
دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔“
      موسم بھی کافی نا خوشگوار تھا۔۔۔بارش کے آثار دکھائی دے رہے تھے آسمان پر کالی گھٹاؤں نے ڈیرہ جما رکھا تھا اور سرد ہوائیں بھی الگ سے پریشان کررہی تھیں۔ عبداللہ کے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا تھا۔ڈر وخوف کا طوفان۔۔۔۔اندیشوں اور وسوسوں کا طوفان۔۔۔ان طوفانی سوچوں نے دل ودماغ میں تباہی مچارکھی تھی اور دماغ کی نسوں کو جیسے نوچ رہی تھیں۔ دستر خواں لگ چکا تھا۔فاطمہ، عبداللہ کو آواز دیتی ہوئی دوبارہ کمرے میں داخل ہوئی۔ ” آپ ابھی تک لیٹے ہیں؟دستر لگ چکا ہے اماں بابا آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔“
  ” فاطم ! بستر سے اٹھا بھی نہیں جا رہا ہے“فاطمہ کووہ ہمیشہ پیار سے فاطم کہتا
  ”خیریت تو ہے۔۔۔۔؟ “ فاطمہ شوہر کے قریب آئی، تھکن زدہ چہرے کو تشویش بھری نگاہوں سے دیکھا اور اپنی ہتھیلی عبداللہ کی پیشانی پر رکھ دی۔ماتھے پر تپش محسوس نہ ہوئی۔ ”بخار نہیں ہے۔۔۔۔۔!“فاطمہ پر سکون انداز میں سانس لیتی ہوئی شوہر کو دیکھنے لگی۔
 ”شاید اندر ہو۔۔۔۔کیونکہ پورا بدن درد کر رہا ہے گلے میں ہلکی سی خراش بھی محسوس کررہا ہوں “
  ” آپ نے کل لیمو پانی کثیر مقدار میں پی لیا تھا حالانکہ میں نے منع بھی کیا لیکن آپ سنتے کہاں ہیں۔ “
 ”فاطم ! میرے لیے چائے بناؤ“
 ”آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے۔“ فاطمہ تشویش کا اظہار کرتی ہوئی رسوئی میں گئی اورچکن سوپ لے آئی ، عبداللہ کو زبردستی سوپ پلایا۔ کام نپٹاکر فاطمہ دوبارہ دوائی اور پانی کا گلاس تھامے کمرے میں داخل ہوئی۔
 ”گولی کھا لیجیئے۔۔۔ان شاءاللہ رات تک افاقہ ہوجائے گا “عبداللہ نے گولی کھانے سے انکار کیا اور فکر مند لہجے میں گویا ہوا۔ ” فاطم ! مجھے اسپتال جا کر ٹسٹ کروانا ہوگا۔ “
  ”کیا مطلب۔۔؟“
  ”فکرمند ہوں یار۔۔۔۔ کہیں مجھ پر اس وباءنے حملہ تو نہیں کیا ؟“
  ”یا اللہ خیر۔۔۔آپ کو نہ تو بخار ہے اور نا ہی کھانسی۔“
 ” تم نہیں سمجھو گی۔۔۔میرا ہسپتال جانا نہایت ضروری ہے۔۔۔۔ تاکہ وقت پر بیماری کا پتا چل سکے۔۔۔۔جس سے میرا کنبہ بھی محفوظ رہے گا۔۔۔تم سب کی حفاظت میرا اولین فرض اور ذمہ داری ہے“عبداللہ نے فکر ظاہر کرتے ہوئے سکوٹی کی چابی اٹھائی اور باہر نکل گیا۔ کچھ ساعتوں بعد وہ دوبارہ کمرے میں داخل ہوتا ہوا ہدایت دینے لگا۔
 ”سنو۔۔۔! میں نے مریم کی سکول فیس ادا کردی ہے کلیم کی فیس کے لئے ایس بی آئی بینک میں کچھ رقم جمع کی ہے۔۔۔۔اگر خدانخواستہ کلیم نے NEET میں نمایاں کامیابی حاصل نہیں کی تو تم اس کا داخلہ فل پے منٹ سے کروادینا۔“
  ”یہ کیا بچپنا ہے۔۔۔؟ کیا آپ محاذ پر جارہے ہیں۔۔۔؟“فاطمہ غم اور غصے تلے چلائی۔اس کی آواز میں کرب صاف عیاں تھا۔عبداللہ اداسی سے مسکراتا ہوا کمرے سے جانے لگا۔
 ”سنیں ! سکوٹی پر نہ جائیں۔۔۔برسات کے آثار نمایاں ہیں۔۔۔آپ بھیگ جائیں گے۔۔۔کیب بک کرلیں۔“
  ”اس کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔بیس منٹ کے اندر اسپتال پہنچ جاؤں گا۔۔۔۔۔جلد ہی لوٹ آؤں گا “
     شام کی تاریکی سے پہلے وہ گھر لوٹنا چاہتا تھا لیکن ہسپتال کے باہر کھڑی ایک لمبی قطار نے اس کے حوصلوں کو پست کردیا۔ اس نے گھبرا کر ماتھے کا پسینہ خشک کیا۔لوگ کئی گھنٹوں سے کھڑے بدحال نظر آ رہے تھے ڈھائی گھنٹہ بعد اس کی باری آئی۔ تین نرس اور دو ڈاکٹرز تھے جنھوں نے ماسک اور مکمل حفاظتی ڈریس پہن رکھے تھے۔عبداللہ کو ان کی سرخ آنکھیں دکھائی دیں۔پتا نہیں کیوں اس کے وجود پر خوف کے بادل چھانے لگے۔ایک نرس نے عبداللہ کا ٹمپریچر چیک کرنے کے بعد ڈاکٹر کو آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ اشارہ کیا۔ ڈاکٹر تیزی سے اٹھا ۔۔۔۔ اس کے قریب پہنچ کر سرگوشی کی۔”آپ پر کورونا کے اثرات پائے گئے ہیں۔آپ کو ہسپتال میں بھرتی کیا جائے گا۔“
یہ سن کر عبداللہ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں اور بدن میں ہلکی سی کپکپاہٹ طاری ہونے لگی۔انجانے اندیشوں نے حقیقت کا روپ دھار لیا تھا۔۔۔۔لمحہ بہ لمحہ موت کاخوف اس کے حواس پر طاری ہونے لگا۔نرس نے اسے اندر جانے کا اشارہ کیا۔۔۔جس کمرے میں عبداللہ کو رکھا جانے والا تھا وہ بہت ہی ویران اور گندگی سے پُر تھا۔یہاں عجیب قسم کی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ بیڈ بھی بہت خستہ حال نظر آیا جس کی چادر پتا نہیں کتنے دنوں سے تبدیل نہیں کی گئی تھی۔ عبداللہ کو متلی ہونے لگی اس نے بڑی بے بسی سے نرس کو دیکھا اور آگے بڑھ کر بیڈ پر جا بیٹھا۔ نرس کمرے سے چلی گئی تو وہ دوبارہ کمرے کا جائزہ لینے لگا۔دل کی بے قراری نے دماغی سکون چھین رکھاتھا کمرے میں ایک چھوٹی سی کھڑکی نظر آئی وہ دھیرے سے اٹھا کھڑکی کے قریب پہنچ کر پردہ ہٹایا اورباہر دیکھنے کی کوشش کی۔راستہ دور تک سنسان پڑا تھا۔۔۔افق پر تاریکی سمٹ رہی تھی۔ عبداللہ کو چہارسو اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دیا ۔۔۔ہوسکتا اس کے وجود کے اندر پھیلی ویرانی جیسے باہر کے موسم پر چھاتی ہوئی محسوس ہوئی ہو۔ برگد کا ایک بوڑھا درخت جس کے نیچے کتے کا ایک پلا ٹھٹھرتا ہواجو اپنی کمزور آواز میں شدید کرب سے بلکتا نظر آیا۔سورج پر ابر کی سیاہ چادر گہری ہوئی تو آسمان پر چھائے ابر آلود سائے پھٹ پڑے۔ بادلوں کی گرج،بجلیوں کی کڑک اورہواؤں کی سنسناہٹ کے ساتھ ہی موسلادھار بارش شروع ہوئی۔اس طوفانی بارش سے عبداللہ کے وجود میں پھیلے خوف کے سائے اور زیادہ وسیع ہونے لگے اس نے ایک جھرجھری سی لی اور آنکھیں بھینچ لی۔۔۔دوبارہ جب آنکھیں وا کیں تو اس کتے کے بچے کو دیکھا جو سہما ہوا اب بلند آواز میں رورہاتھا،شاید وہ اپنوں سے بچھڑ گیا تھا۔۔۔۔۔بچھڑنے کا غم اور اس کا احساس ، اس وقت عبداللہ سے بہتر کون جان سکتا تھا۔برسات بھی جو کبھی اس کے لیے رومان خیز موسم ہوا کرتا تھا آج اس نے دل کا سکون چھین رکھا تھا آج اس بات کا بھی احساس ہوا تھا کہ بارشیں ہر کسی کو لطف نہیں دیتیں !!!!اس نے دوبارہ جھرجھری لی۔کمرے کی نیم تاریکی میں ایک سایہ سا ابھرا، وہ نرس تھی جو دوا کی ٹرےاور انجکشن کے ساتھ نمودار ہوئی تھی۔اس نے چہرے کو مکمل ڈھانپ رکھا تھا۔کمرے میں اس قدر سکوت تھاجس میں صرف اس کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔ ” سنو ! اگر تم چاہو تو اپنے گھر بات کرکے اطلاع دے سکتے ہو۔۔۔کیونکہ انجکشن اور دوائی کے اثرات تم پر غنودگی پیدا کرسکتے ہیں ،جس کی وجہ سے بات کرنا مشکل ہوجائے گا۔ “
  ”جی بہتر۔۔۔۔!!“ اس نے جیب سے موبائل نکالا اور گھر اطلاع دی۔
  ” فاطم ! رپورٹ پازیٹیو آئی ہے یار۔۔۔۔میں یہاں ایڈمٹ ہوں۔۔!! “
  ” یااللہ خیر۔۔۔آپ کے اندیشے سچ ثابت ہوئے۔“ فاطمہ پریشانی سے حواس باختہ لرزاٹھی۔
 ” گھبرانا نہیں۔۔۔۔“ جواب میں فاطمہ کی سسکیاں سنائی دی۔
  ” میرے لیے دعا کرنا کہ میں جلد سے جلد لوٹ آؤں “
  ” عبداللہ اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔“ فاطمہ کی آواز میں ہجر کا نوحہ پوشیدہ تھا۔عبداللہ نے اداسی سے مسکراتے ہوئے فون بند کیا۔
نرس نے انجکشن لگایا تو چند ہی لمحوں بعد اس پر غنودگی سی طاری ہوئی اور وہ سو گیا۔ پتا نہیں رات کا کون سا پہر تھا کہ کمرے میں آہٹ سی محسوس ہوئی۔ اس نے بمشکل آنکھیں کھولیں لیکن کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔غنودگی کچھ ساعت بعد کم ہوئی۔باہر برسات میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔۔۔خنکی اب اس کے وجود پر کپکپی طاری کیے جارہی تھی۔۔۔اس نے میلی چادر کو غنیمت جانا اور اسے جسم پر پھیلالیا۔ایسا محسوس ہوا جیسے موت بالکل پاس کھڑی دستک لگائے جارہی ہو۔۔۔بھیگتی رات بہت لمبی تھی۔۔صبح پتا نہیں ہوگی بھی یا نہیں؟ اس نے بےچارگی سے سوچا۔ اس کے حواس مکمل بیدار ہو چکے تھے وہ بہت دیر تک کروٹیں بدلتا رہا۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور چلی گئی تھی۔ ہلکی سی آہٹ بھی اسے ڈرانے کو کافی تھی۔صبح صادق دو سائے دوبارہ کمرے میں داخل ہوئے۔”مجھے بھوک لگی ہے۔ “عبداللہ نے کمزور لہجے میں کہا۔
  ”بیٹا ! یہ کوئی ریستوران نہیں۔“ اس سایہ نے کافی سرد مہری سے جواب دیا تھا۔
  ”مجھے کھانے کے لئے کچھ دیں۔۔۔۔ بہت بھوکا ہوں “خوراک میں کمی کے باعث اس کی قوتِ مدافعت بھی دھیرے دھیرے کم ہوتی جارہی تھی۔ اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔”میں اپنے گھر سے ناشتہ منگوانا چاہتا ہوں۔۔۔میرا فون کہاں ہے۔۔۔؟“
  ”یہ رہا تمھارا فون۔“وہ شخص موبائل اس کے سامنے لہرایا۔اس شخص کاچہرہ ہر تاثر سے عاری تھا۔عبداللہ نے تڑپ کر ہاتھ بڑھایا۔
  ” نو۔۔۔۔۔!“ اس شخص نے غراہٹ بھری۔کچھ ساعت بعد خود ہی گویا ہوا۔
  ”فیملی سے بات کرنا چاہتے ہو۔۔۔؟“ recent call فاطمہ کی تھی جو وائف کے نام سے سیو تھی۔عبداللہ کی آنکھوں میں چمک عود آئی۔
  ”ہیلو ! اسپتال سے بات کررہا ہوں۔۔۔۔نہایت افسوس کے ساتھ آپ کو یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ صبح صبح عبداللہ کی موت واقع ہوئی ہے۔۔۔۔!!!“ یہ سن کر عبداللہ کی آنکھیں پھٹنے کی حد تک پھیل گئیں اور ریڈھ کی ہڈی پر سنسناہٹ سی محسوس ہوئی۔ سینے میں مدفن سانسیں خود کی گمشدگی کا اعلان کرنے لگیں۔”آپ نو بجے کے اندر باڈی کلیکٹ کرسکتے ہیں۔۔۔ نعش ایمبولنس میں قبرستان پہنچادی جائے گی۔۔۔۔رشتے دار جو کوئی ہوں صرف تین یا چار افراد کے علاوہ کسی کواجازت نہیں۔۔۔یاد رکھیں نعش کو اوپن کرنے، دیکھنے یا پھر چھونے کی بالکل اجازت نہیں “
عبداللہ خوف سے چلایا۔
 ” یہ کیا مذاق ہے۔۔۔۔۔؟ اتنا بڑا جھوٹ۔۔۔؟“ اس شخص نے کافی سرد نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا اورکمرے سے چلاگیا۔کچھ دیر بعدکمرے میں آہٹ ہوئی تو وہ جلدی سے بیڈ کے نیچے جا چھپا۔
  ”جہاں چاہے چھپ جاؤ..۔۔لیکن فرار حاصل نہیں۔۔۔۔!“وہ دونرسیں تھیں ایک نے مضحکہ اڑاتی ہنسی کے درمیان کہا تو وہ بڑی بے بسی کے عالم میں باہر نکل آیا۔          
  ”میرے ساتھ یہ کیسا سلوک کیا جارہا ہے۔۔۔۔؟“
  ”۔۔۔۔۔۔۔۔!!! “ جواب ندارد۔کچھ دیر بعد انھوں نے اسے ویل چیئر پر بیٹھایا۔
 ”مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے؟“
 ”آپ کی فیملی آنے والی ہے۔۔۔۔۔! “یہ سن کر عبداللہ خوش ہوا لیکن دوسرے ہی پل گزری ساعتوں کی اذیت ناک گوش گراں یاد آئی۔
    تاریکی میں ڈوبا کمرہ ،جہاں نرسیں اسے چھوڑ کر کہیں غائب ہوئیں۔۔۔ عبداللہ کے جسم میں کمزوری بہت بڑھ گئی تھی لیکن وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو پا رہا تھا اس نے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے دیواریں ٹٹولیں۔۔۔چاہتا تھا فرار کی کوئی راہ نکل آئے۔ افسوس ایک ہی دروازہ تھا جہاں سے وہ اندر داخل ہوا تھا شایداسے باہر سے لاک کیا گیاتھا۔۔۔اس نے دروازے پر جنونی انداز میں ضربیں لگائیں۔۔۔ایک جانب دیوار پر سفید رنگ کا پردہ نظرآیا عبداللہ ہزیانی انداز میں اسے کھینچا تو دیکھا وہ ایک صاف شفاف شیشے کی دیوار تھی جس کے باہر وہ دیکھ سکتا تھا لیکن باہر کسی کو وہ نظر نہیں آ سکتا تھا۔یہاں سے لاؤنچ نظر آرہا تھا۔۔۔ہسپتال کا تمام عملہ حفاظتی ڈریس میں نظر آیا۔۔۔۔اس نے دیکھا والدین کےعلاوہ بھائی کلیم ،فاطمہ اور سات سالہ بیٹی مریم کھڑی تھیں۔۔۔۔ غم کا پہاڑ اور درد کی شدت ان کے چہروں سے عیاں تھی۔وہ سب زاروقطار رورہے تھے۔ عبداللہ کو اپنی حیات کی کشتی اپنوں کے ان آنسوؤں میں ہچکولے کھاتی ہوئی محسوس ہوئی۔ انھیں حفاظتی لباس دیا گیا تو وہ لوگ وہیں کھڑے کھڑے تیزی سے اسے جسم پر چڑھانے لگے۔  ” فاطم۔۔۔۔۔! “اس نے زور سے چلایا لیکن آواز کمرے میں گونج کر رہ گئی کچھ دیر بعد ایک سٹریچر پر پلاسٹک سے مکمل طور سے پیک شدہ لاش نظر آئی۔۔۔۔ لاش کو دیکھ کر فاطمہ نے ایک دلخراش چیخ ماری اور لہرا کر زمین پر گرگئی۔شاید وہ بےہوش ہوگئی تھی۔ضعیف والدین بکھرے پتوں کی طرح لرزتے ہوئے نظر آئے۔
  ”بابا۔۔۔۔امی۔۔۔ میں زندہ ہوں۔۔۔۔!!“عبداللہ نے غم ویاس کے گہرے کنویں سے صدا بلند کی لیکن افسوس اس کی آواز اس کی اپنی سماعت سے ٹکراکر دم توڑ گئی۔ غم کی شدید لہریں عبداللہ کے رگ و پے میں پھیلتی چلی گئیں۔ دل ڈوبا جا رہا تھا۔ بدن کانپ رہا تھا۔وہ دل ہی دل میں رب العالمین سے گڑ گڑا کر منت سماجت کرنے لگا کہ اس مصیبت سے نجات حاصل ہو۔ مریم روتی ہوئی اپنی ماں کو جھنجھوڑ رہی تھی۔عبداللہ بڑی بے بسی سے اپنوں کو درد و غم کے سمندر میں غوطہ زن دیکھتا رہا۔۔۔۔وہ جب درد کی شدت سے چلاتے تو اس کا وجود تنکوں کی مانند بکھرنے لگتا۔ اپنوں کا یہ درد اور زخم اس کی روح کو چھلنی کررہاتھا۔۔ ان اذیتوں تلے وہ نڈھال ہوگیا۔ بدن سے روح رخصت ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔ زندگی کے تار جو اپنوں سے جڑے تھے اب وہ رفتہ رفتہ ٹوٹتے نظرآ ئے۔"خدایا رحم۔۔“۔اس نے بڑی بے بسی سے بال نوچے اور شیشے پر گھونسا مارا۔۔۔وہ ٹوٹ کر بکھرگیا لیکن شیشے کی دیوار پر کچھ اثر نہیں ہوا۔اس کی موت اس کے آگے یوں پیش کی جارہی تھی جیسے وہ کوئی خوفناک خواب دیکھ رہا ہو۔اس نے کسی مفکرسے سن رکھا تھا کہ مندر اور عبادت گاہیں بند ہیں کیونکہ بھگوان ، ایشور اسپتالوں میں زندگی بچانے میں مصروف ہیں۔۔۔۔۔۔۔!!!!
غلط۔۔۔بالکل غلط۔۔۔۔بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ بھگوان تو موت کا فرشتہ بنے زندگیوں کو چھیننے کا کھیل ، کھیل رہے تھے اگر ان بھگوانوں کی اصلیت دنیا پر منکشف ہو جائے توکیا ہوگا؟شاید کہ ایک اورطوفان چھاجائے گا۔۔۔اعتبار کھونے کا طوفان۔۔۔!!
    ” کاش کہ میں ہسپتال کا رخ ہی نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔!!! “ اس نے بڑی بے بسی سے بال نوچے اور سر کو شیشے کی دیوار پر مارنے لگا۔پیچھے سے وہی نرسیں آکر اسے تھام لی۔
  ” مجھے چھوڑ دو۔۔۔میں ان لاشوں کے سوداگروں کا خون پی جاؤں گا “
  ”پہلے یہ دوا پی لو۔۔۔۔۔!!! “ نرس اس کے منھ میں زبردستی کوئی سیال شئے ڈالتی ہوئی سپاٹ لہجے میں گویاتھی۔وہ دوبارہ ہوش کھونے لگا۔دوسری صبح عبداللہ بھی کسی پلاسٹک میں قید اجنبی سسکیوں کے درمیان آخری سفر کو نکل پڑا۔۔۔۔افسوس اس بات کا تھا کہ آخری سفر پر وہ بالکل تہی دامن تھا۔۔۔۔۔۔رشتوں سے۔۔۔۔۔ روح سے اور۔۔۔۔!!!!!
 
الریاض، سعودی عرب
موبائل نمبر؛00966504509215
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

رکشا بندھن پر جموں کا آسمان بنا رنگوں کا میلہ چھتوں پر پتنگوں کی جنگ، بازاروں میں خوشیوں کی گونج
جموں
بانہال میں چھوٹی مسافر گاڑیوںاور ای رکشاوالوں کے مابین ٹھن گئی الیکٹرک آٹو کو کسی ضابطے کے تحت صرف قصبہ میں چلانے کی حکام سے اپیل
خطہ چناب
جموں و کشمیر کو دہشت گردی اور منشیات سے پاک بنانے کی ذمہ داری ہر شہری پر عائد ہے | کچھ عناصر ٹی آر ایف کی زبان بولتے ہیں پولیس اور سیکورٹی فورسز امن کو یقینی بنانے اور ایسے عناصر کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کیلئے پُرعزم:ایل جی
جموں
چرارشریف میں انٹر ڈسٹرکٹ والی بال ٹورنامنٹ کا آغاز
سپورٹس

Related

ادب نامافسانے

کیچڑ میں کھلا کنول افسانہ

July 19, 2025
ادب نامافسانے

چمکتی روشنیوں کا اندھیرا افسانہ

July 19, 2025
ادب نامافسانے

آفت کے بعد افسانہ

July 19, 2025
ادب نامافسانے

تو مہکے میں مرجائوں افسانہ

July 19, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?