عظمیٰ نیوزڈیسک
اقوام متحدہ// ایران نے اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بحالی پر ہفتہ کے روز جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں تعینات اپنے سفیروں کو مشاورت کے لیے واپس بلا لیا۔ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب سلامتی کونسل میں روس اور چین کی حمایت یافتہ ایک قرارداد ناکام ہو گئی، جس کا مقصد ایران پر پابندیوں کے نفاذ کو چھ ماہ کے لیے مؤخر کرنا تھا۔ اس قرارداد کے حق میں صرف چار ملکوں نے ووٹ دیا جبکہ نو نے مخالفت اور دو نے غیر حاضری اختیار کی۔ایرانی خبر رساں ادارے ’مہر‘ کے مطابق تہران نے اس فیصلے کو مغربی طاقتوں کی جانب سے سفارت کاری کی راہ دفن کرنے کے مترادف قرار دیا۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ ’’امریکہ نے سفارت کاری سے غداری کی ہے مگر اصل میں ای تھری (برطانیہ، فرانس، جرمنی) نے اسے دفن کر دیا ہے۔‘‘ ان کے مطابق یہ اسنیپ بیک عمل قانونی طور پر باطل، سیاسی طور پر غیر ذمہ دارانہ اور طریقہ کار کے اعتبار سے ناقص ہے۔ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ایران کا نیوکلیئر عدم پھیلاؤ معاہدے (این پی ٹی) سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’ایران کبھی ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کرے گا، ہم اپنے افزودہ یورینیم کے بارے میں مکمل شفاف رہنے کے لیے تیار ہیں۔ ایران مسلسل اس الزام کی تردید کرتا آیا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتا ہے۔یاد رہے کہ 2015 میں طے پانے والے نیوکلیئر معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات کے بعد یورپی طاقتوں نے ایک 30 روزہ عمل شروع کیا تھا، جس کے تحت اقوام متحدہ کی تمام پابندیاں دوبارہ نافذ ہونی تھیں۔ سفارت کاروں کے مطابق آخری لمحوں میں ایران اور یورپی فریقین کے درمیان مذاکرات کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔اقوام متحدہ کی پابندیاں ہفتے کی رات سے دوبارہ لاگو ہو گئیں جبکہ یورپی یونین کی الگ پابندیاں آئندہ ہفتے نافذ ہوں گی۔ ان اقدامات سے ایران کی معیشت کو مزید دباؤ کا سامنا ہوگا، جو پہلے ہی 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں معاہدے سے علیحدگی کے بعد سخت پابندیوں کی زد میں ہے۔نئی پابندیوں کے تحت ایران پر اسلحہ جاتی پابندی، یورینیم افزودگی اور ری پروسیسنگ پر مکمل پابندی، بیلسٹک میزائل سرگرمیوں کی روک تھام، ایرانی شخصیات و اداروں پر عالمی سطح پر اثاثوں کے انجماد اور سفری پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ ان اقدامات کا سب سے بڑا اثر ایران کے توانائی شعبے پر متوقع ہے۔