ریاست جموں و کشمیر عالمی سطح پر ایک جدا گانہ حیثیت اور منفردمقام کی حامل سرزمین ہے۔ اس کی چند اہم وجوہات ہیں۔ سب سے اول یہ کہ اس مسلم اکثریتی ریاست میں دیگر مذاہب ماننے والے اور مختلف رنگ و نسل کے انسان عزت و آرام سے آباد ہیں کیونکہ یہاں کوئی بھید بھاؤ اور میںاورتُو کی لڑائی نہیں ۔ عملی طور یہی وہ جنت نظیر خطۂ ارض ہے جو کثرت میں وحدت کا قابل رشک مناظر جابجا پیش کرتی ہے ، یہاں اخلاقی قدروں کی بھر پور محافظت ہوتی ہے، یہاں کا سماجی تانا بانا دیگر قوموں کے بر عکس پیار محبت ،اخوت و روا داری، انسانیت کی رعایت و پاسداری کی اینٹ گارے پر اُٹھتا ہے۔ یہاں کا طرزِ بود و باش، رہن سہن ، لباس، ثقافت و تہذیب ،چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں کا پاس لحاظ ہماری اجتماعی تہذیب کے جزولاینفک ہیں۔ یہاں سماج میں بالعموم خواتین کی عزت وتکریم پائی جاتی ہے ،اس لئے دیگر اقوام کے مقابلے میں یہ خطہ عریانیت و فحاشی ، بے حیائی و بے پردگی اور اخلاقی جرائم سے قدرے محفوظ ہیں ۔ یہ اس وطن عزیز کی وہ امتیازی خصوصیات ہیں جن کی حفاظت و صیانت ہمارے پرکھوں نے بلا تفریق مذہب و ملت ہمیشہ کی اور ہمیں یہ اعلیٰ انسانی قدریں سونپ کر زندگی کے دھارے سے جوڑ دیا ۔ آج اکثرو بیشتر ہماری ماں بہن بیٹی کے چہرے پر بُرقعہ یا گھونگھٹ یاحجاب، سر پہ آنچل اور جسم پر چادر یہاں کی پاکی ٔ تہذیب کی منہ بولتی علامتیں ہیں ۔ نیز عورت اور مرد کے ما بین دائرہ عمل میں فرق اور امتیاز یہاں کی صحت مند دیرینہ روایت ہے ۔لیکن آہ ۔۔۔!پچھلی چند دہائیوں سے ہم نے عروج و ترقی کے نام پر مغربی تہذیب کے منفی اثرات قبولنے شروع کر دئے ۔ اس بناپر وہ تمام حباثتیں اور برائیاں ہمارے گھر کی آنگن میں پنپنے لگی ہیں جن کا تصور بھی ہمارے آبا و اجداد کے یہاں نہ پایا جاتا تھا ۔ان چیزوں کو باعث ندا مت اور موجب شرمندگی تسلیم کیا جاتا تھا۔
مرور زمانہ سے اب ہمارے یہاں بودو باش، لباس وپوشاک، گھروں کی بناوٹ اور سجاوٹ، غمی اور خوشی کی مجالس ، اسکول و کالج ،سرکاری و غیر سرکاری دفاتر، شادی بیاہ کے بے ہنگم رسوم و رواج مختلف شیطانی دروازوں سے مغربیت کی شکل میں گھس رہے ہیں۔ اس لئے ہماری زندگیوں پر لگ بھگ مغربیت پوری طرح مسلط ہو چکی ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ دو تین دہائیاں قبل تک ریاست کا سماجی ڈھانچہ اور ما حول کسی قدر روح پرورتھا ، اس میں تہذیب وشرافت کی جو لطافت گندھی ہوئی تھی ،وہ یکسر دم توڑ چکی ہے۔ ہم نے اپنے بچے ور بچیاں ڈگریاں حاصل کرنے کے لئے امریکہ، کینڈا، فرانس اور بر طانیہ جیسے صف اول کے ترقی یافتہ ممالک بھیج دئے جہاں انہوں نے اہل مغرب کے شانہ بہ شانہ چل کر بہت کچھ سیکھ بھی لیا لیکن جو تہذیب و ثقافت اور قابل رشک سماجی قدریں اس دوران انہوں نے کھو دیں، اس کی بھر پائی ممکن نہیں ۔ تعجب تو یہ ہے کہ مغرب کی دیکھا دیکھی میں اب اکثر ہماری لڑکیوں کے جسم سے روایتی کپڑے کہیں گھٹنے اور کہیں صاف اُتر نے لگے ہیں۔ پینٹ شرٹ اور جینس وغیرہ کا استعمال عام ہو چکا ہے۔ اس سے کشمیری ، ڈوگری اور لداخی بود و باش، لباس وثقافت اور تہذیب و زبان کا شیشہ خانہ ٹوٹ پھوٹ رہاہے ۔ اس توڑ پھوڑکور وکنے کی ذمہ داری والدین، تعلیم گاہوں ،سماجی مصلحین ، مذہبی علماء اور اربابِ سیاست پر عائد ہوتی ہے مگر وہ کوئی اصلاحی لائحہ عمل اپنانے کے برعکس خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں ۔ ان میں یا تو شعور ہی نہیں یا درد دل نہیں۔ اگر اس مغرب زدگی کے خلاف موثر اصلاحی اقدامات فوراً نہ گئے گئے تو نتائج ایسی بھیا نک شکل اختیار کر سکتے ہیںکہ ہماری ریاست کی تہذیبی شناخت ہی ختم ہو کر رہے گی۔
یہاں راقم کو ایک واقعہ یاد آرہاہے۔ ریاست پنجاب کے ضلع پٹیالہ میں1972ء کوپٹیالہ زنانہ کالج سے ایک جوان سال طالبہ نکل کر رکشے میں چڑ ھ گئی ۔ سوئے اتفاق سے اس لڑکی کا شلوار پھٹ گیا ۔ان دنوں پنجاب میں لڑکیاں سکن ٹایٹ شلوار یعنی (سُتنہ) اورسکن ٹائٹ فراک پہنا کرتی تھیں۔ا یک بزرگ سکھ راستے سے گزر رہا تھا، اس سے لڑکی کی یہ حالت غیر نہ دیکھی گئی ، جھٹ سے اپنی عزت کی علامت یعنی پگڑی اُتارکر لڑکی کو ا س سے اپنا جسم ڈھاپنے کو کہا۔ یہ بزرگ اس طالبہ کو اسی رکشے میں گوردوارہ لے آیا ور اس کے والدین کو خبر کی۔ اس نے فوراً سکھ مذہب کے رہنمائوں کو یہ منظر دیکھ کر کچھ کر نے کے لئے بلایا۔ وہ لوگ یہ منظر دیکھ کر شرمندہ ہو گئے ، بر وقت فیصلہ لیا گیاکہ سات دن کے ا ندر اس فیشن زدگی کے خلاف موثر اصلاحی کارروائی کی جائے گی۔ اُنہوں نے اپنی پنچایت گوردوارہ پٹیالہ میں بلائی جس میں سکھ ، ہندو مسلم اور سماجی اصلاح کار شریک گفتگو و مشاورت ہوئے۔ پنچایت میں پنجاب کے ہر ضلع سے چیدہ چیدہ ماہر درزیوں کو بھی بلایا گیاجن کے صلح مشورہ سے پنجابی لباس کا لاج شرم والا ڈیزائین منظور کیا گیا۔ چندی گڑھ کے ماہر درزی سردار ستونت سنگھ نے زنانہ لباس کا ڈیزائین تیار کیا جسے بہ اتفاق رائے منظوری دے دی گئی۔ اس لباس کی ٹیلرنگ میں کل ملاکر ساڑھے چھ میٹر کپڑے کی ضرورت ہوتی جس سے کھلا شلوار تین میٹر کا اور لمبا سا فراک کا ڈیزائن متفقہ طور تسلیم کیا گیا ۔ پنچایت میں کئی اور بھی فیصلے لئے گئے جن میں قومِ پنجاب کے تشخص کو قائم رکھنے کے لئے پنجابی زبان کو کالجوں ، سکولوں ، دفتروں، عدالتوں سمیت زندگی کے ہر شعبے میں لازم قرار دیا گیا۔ غور طلب یہ ہے کہ زبان وثقافت کو زمانے کے دست بُرد سے بچانے کا یہ اہم فیصلہ کسی پارلیمنٹ میں ہوا ، نہ کسی قانون ساز یہ میں بلکہ یہ سیدھے عوامی ایوان میں بغیر شور وغل سلیقہ مندی اور فکروشعور کے ساتھ لیا گیا۔اس فیصلے کے پیچھے سماجی اقدار ا ور مذہبی افکار بھی کافرما تھے اور یہ عوامی فیصلہ آج بھی وہاں من وعن نافذالعمل ہے۔ آج کی تاریخ میں پٹیالہ کی پہچان شلوار ملک بھر میں مانی جاتی ہے ۔ حتیٰ کہ اس کا اثر ہماری ریاست پر بھی پڑ گیا کہ ہم نے بھی اس لباس کو اپنا لیا۔ پٹیالہ شلوار نہ صرف بھارت بلکہ امریکہ، کینڈا، فرانس ، وغیرہ میں بھی مقبول ہے۔ افسوس ہمیں پھرین کی لاج اپنی ہی ریاست میں رکھنی نہ آئے ، حالانکہ یہ دنیا میں بہت ہی مشہور ہے، ہمیں اس کی لاج رکھنی بھی نہ آئی۔ سردار ستونت سنگھ جو کہ پٹیالہ شلوار کے ڈیزائنر ہے، سے میری ملاقات چندی گڑھ 2002 ء میں ہوئی ۔ انہوں نے اس لباس کے بارے میں پوری تفصیل سے راقم کوآگاہ کیا ۔ خود بھی پٹیالہ جاکر اس ضمن مشاہدہ کر نے کا موقع ملا ۔ عقائد ،افکار ، تہذ یب، ثقافت، زبان ، رہن سہن اور دیر امور حیات کسی قوم کے تشخص کی علامات ہوتی ہیں اور جب کوئی قوم خود اس کی ناقدری کرنے لگے تو خدائے مہربان سے سنبھلنے کا موقع دیتا ہے لیکن اگر پھر بھی انسان اپنے اوپر ظلم کی روش لازم بنالے تو وہ اپنی بربادی کا آپ ذمہ دار بنتاہے ۔ ارشاد ربانی بھی ہے :اور اﷲ نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے پنے آپ پر ظلم کیا تھا (العنکبوت ۴۰)۔ اس لئے آیئے اپنی تہذیب وثقافت کا نہ صرف احیاء کریں بلکہ ان کا دفاع بھی کریں۔
رابطہ 9469679449
ای میل : [email protected]