سرینگر//تہاڑ جیل میں کشمیری قیدیوں کو زد کوب کرنے اور وزارت داخلہ کو تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کے بیچ ماضی میں نظر بند رہے کشمیریوں نے جیل کے ماحول کو دہشت ناک قرار دیا ہے۔دہلی کے تہاڑ جیل میں21نومبر کو حزب سپریموسید صلاح الدین کے فرزند شاہد یوسف سمیت دیگر نظر بندوں کو تامل ناڑو سپیشل پولیس کی طرف سے زدکوب کرنے اور انکی ہڈی پسلی ایک کی گئی،جس کے بعد مرکزی وزارت داخلہ نے معاملے کی تحقیقات کی اور عملے کو معطل کیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں اس بدنام زمانہ اور ایشا کے سب سے زنداں خانے میں اس طرح کے واقعات رونما ہوئے،جس کے دوران قیدیوں کو جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ ماضی میں اس جیل میں نظر بند کشمیریوں کا کہنا ہے کہ جیل میں ہمیشہ عدم تحفظ کا ماحول رہتا ہے،بالخصوص کشمیری قیدیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا جاتا ہے۔ خاتون مزاحمت کار اور تحریک خواتین کشمیر کی سربراہ زمردہ حبیب کا کہنا ہے کہ کہ آج بھی انہیں تہار جیل کے شب و روز یاد آتے ہیں تو انکی آنکھیں نمناک ہوتی ہے۔انہوں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا’’ جیل میں فرقہ پرست اور کشمیری مخالف ماحول تھااور انہیں نہ صرف جیل عملے بلکہ وہاں پر نظر بند غیر کشمیریوں سے بھی خود کو بچانا پڑتا تھا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ بیشتر اوقات جیل عملہ پیشہ ور مجرموں کو کشمیری قیدیوں کو ستانے اور انہیںزد کوب کرنے کیلئے استعمال کرتی ہے۔انہوں نے اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہر صبح انہیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سورج کی پہلی کرن ان کیلئے موت کا پیغام لیکر آئی ہے اور رات کو انہیں نیند نہیں آتی تھی اور یہ خدشہ رہتا تھا کہ کئی نیند میں ہی انکا کام تمام نہ کیا جائے‘‘۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں جو واقعہ پیش آیا،انہیں اس بارے میں کوئی بھی شبہ نہیں ہے کہ دانستہ طور پر کشمیری قیدیوں کو ہراساں کرنے کیلئے اس کو نہیں کیا ہوگا۔انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے چیئرمین محمد احسن اونتو نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ2009میں وہ بھی تہاڑ جیل میں بند تھے اور اس دوران وہاں کے ماحول سے بھی وہ واقف ہیں۔انہوں نے کہا کہ جیل ضوابط کے تحت صبح5بجکر30منٹ پر جیل سیلوں اور وارڈوں کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور دن میں11بجکر30منٹ پر بند کیا جاتا ہے جبکہ بعد میں دوپہر کو3بجکر30منٹ پر ایک مرتبہ پھر دروازہ کھولا جاتا ہے اور شام6بجکر30منٹ پر بند کیا جاتا ہے۔انہوں نے بھی کہا کہ اس جیل میں ہر وقت ایک قیدی بالخصوص کشمیری قیدیوں کو عدم تحفظ کا احساس ستاتا رہتا ہے۔ان کا کہنا تھا’’میرا ایک دانت بھی تہاڑ جیل سے کورٹ لئے جاتے ہوئے گاڑی میں توڑا گیا تھا‘‘۔ان کا کہنا ہے کہ تاہم تامل ناڑو سپیشل فورس اسی وقت کاروائی کرتا ہے جب جیل میں کوئی امن و قانون کی صورتحال پیدا ہوتی ہے،اور’’ چونکہ یہ واقعہ شام کو پیش آیا،اس لئے تمام قیدی بارکوں میں بند ہونگے اور اس میں صرف ان قیدیوں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جاسکتی تھی جو اس کے مرتکب ہوئے تھے،تاہم کشمیری قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا مطلب سمجھ سے باہر ہے‘‘۔ماضی میں اس جیل میں نظر بند ایک قیدی(نام مخفی) نے کہا کہ 1990کی دہائی میں وہ اس جیل میں بند تھا،اور اس دوران’’ کشمیری نوجوانوں پر جو ظلم و ستم ڈھائے گئے وہ نہ صرف نا قابل بیان ہیں،بلکہ نا قابل فراموش‘‘۔اس جیل میں ماضی میں سید علی گیلانی سے لیکر محمد یاسین ملک نے بھی اسیری کے دن گزارے ہیںجبکہ فی الوقت شبیر احمد شاہ اور نعیم احمد خان سمیت کئی مزاحمتی لیڈر بھی نظر بندہیں۔اس جیل میں ماضی کے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی نومبر کے پہلے ہفتے میں دہلی ہائی کورٹ نے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا نوتس لیا تھا۔جسٹس ایس مرلی دھر اور آئی ایس مہتا نے داخلہ سیکریٹری کو ایک اعلیٰ سطحی ٹیم کو تشکیل دینے کی ہدایت دی تھی تاکہ اس بات کا پتہ چل سکے کہ جیل نمبر3 میں سی سی ٹی وی کیمرئے کیوں بند پڑ پڑے ہیںجہاں پر مبینہ طور14ستمبر کو47 قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔رپورٹوں کے مطابق 17ستمبر 2014کو قیدیوں کے آپسی تصادم آرائی میں ایک نظر بند مار ا گیاجبکہ 14مئی2014 کو جیل میں2 قیدیوں کی لاشیں برآمد کی گئیںاور بعد میں جیل انتظامیہ نے کہا کہ منشیات کا استعمال کرنے سے ان کی موت واقع ہوئی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ8 اپریل2015کو چمچوں کا استعمال کر کے ایک قیدی کو دوسرے ساتھیوں نے قتل کیا جبکہ11مئی2015کو ایک قیدی نے دوسرے کو مار دیا۔